فدا ہونا ہے تو جدا بھی ہونا ہے،پہلے نفرتوں میں مٹھاس تھی اب محبتیں بھی زہر اگلتی نظر آتی ہیں،وہ حسین چہروں کو آنکھوں سے دل میں اتارتا ہے

فدا ہونا ہے تو جدا بھی ہونا ہے،پہلے نفرتوں میں مٹھاس تھی اب محبتیں بھی زہر ...
فدا ہونا ہے تو جدا بھی ہونا ہے،پہلے نفرتوں میں مٹھاس تھی اب محبتیں بھی زہر اگلتی نظر آتی ہیں،وہ حسین چہروں کو آنکھوں سے دل میں اتارتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:300
مشہود شورش؛
 مشہود شورش سے بھی ملاقات یہیں ہو ئی گو اسے پہلے ایف سی کالج میں اس سے ایک آدھ بار ملاقات ہوئی تھی۔ یہ بھی formanite تھا۔ صاحب سے اس کا تعلق تب سے تھا جب وہ شہباز شریف کے دور سلطانی میں پہلی بار صاحب کا پی آ ر او مقرر ہو ا تھا۔مشہود کا یہ تعلق بعد میں صاحب سے دوستی میں بدل گیا جو آج بھی ویسا ہی ہے۔ وہ بڑے باپ(شورش کاشمیری)کا فرزند، خوددار، عزت دار اور غیرت مند اور میرا یار ہے۔ اس شخص میں پرانے زمانے کی وہ تمام خوبیاں ہیں جو آج کے دور میں ناپید ہو چکی ہیں۔ نئے دور کا پرانا آدمی۔ آج اس سے دوستی کو دھائیاں بیت چکی ہیں و ہ اپنوں سے زیادہ اپنا ہے۔ خود باتوں سے دل میں اترتا ہے اور حسین چہروں کو آنکھوں سے دل میں اتارتا ہے۔میں اس کا وہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا جب ابا جی، چھوٹے بھائی شہباز، بہنوئی مجاہد بھائی اور مجھ پر ہمارے سب سے چھوٹے بھائی شاہد نے ہمارے خلاف ماڈل ٹاؤن تھانے میں ایف آئی آر کی درخواست دی تھی۔ اپنے”پولسیا سالے“ کی وجہ سے ہم پر خوب دباؤ ڈالا تھا۔ مشہود مجھے ساتھ لئے ایس ایس پی لاہور شفیق گجر کے پاس گیا جو بڑے آ غا صاحب(آغا شورش کاشمیری) کے بڑے معتقد تھے اور پھر جس زبان میں ایس ایس پی نے ڈی ایس پی ماڈل ٹاؤن کو فون کیاتھا اس بیچارے کی تو پینٹ پیلی ہو گئی ہو گی۔ تھانے پہنچنے سے پہلے ہی یہ کاروائی ختم ہو گئی تھی۔ دوستوں کے دوستوں پر احسان نہیں محبتیں ہوتی ہیں اور مشہود ایسی محبتیں نچھاور کر نے میں داتا ہے۔میں ان محبتوں کا ”مقروض“ہوں۔
محبتوں کا مقروض؛
”محبتوں کا مقروض“۔یہ تین الفاظ کا مجموعہ دل آوارہ کو تسلی کے ساتھ ساتھ بے پناہ بے چین کر دیتا ہے۔ بلا شبہ انسان محبتوں کا مقروض ہی رہتا ہے اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہی تو وہ قرض ہے جسے دل اتارنا نہیں بلکہ بڑھانا چاہتا ہے۔ ہم کبھی آوار گان شہر تھے پھر قسمت نے کروٹ بدلی آوار گان عشق میں شمار ہونے لگے۔پھر کسی کے عشق سے نکل نہ سکے اور اب وقت نے اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں تیرا شہر اور عشق کوسوں دور ہیں۔انسان اپنے ماضی کو نہیں بھولتا، حال کو بے چین و بے قرار دیکھ کر ان دیکھے مستقبل کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ کبھی وہ ہم پر فریضہ تھے اب ہم ان کے فریب میں ہیں۔ یاد رکھیں فدا ہونا ہے تو جدا بھی ہونا ہے۔ ہم دونوں (مشہود، میں بلکہ صاحب بھی) اس دور سے متعلق ہیں جب نفرتوں میں بھی مٹھاس تھی اب تو محبتیں بھی زہر اگلتی نظر آتی ہیں۔   
مجھے مشہود کے مال روڈ والے گھر پر کئے ناشتے بھی یاد ہیں جس کے املیٹ میں بھابھی کا خلوص اور بازار کی پنیر بھی ہو تی تھی۔سیما بھا بھی مہمان نواز خاتون اور بہنوں کی طرح ہی ہیں۔ ماں جائی تو نہیں لیکن ماں جائی جیسی ہی ہیں۔اللہ ان دونوں کو خوش اور آ باد رکھے۔آمین۔ 
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -