ہم زیادہ تر مغرب کی نماز کے بعد اکٹھے ہوتے کیونکہ وہی ایک وقت تھا جب سب موجود ہوتے تھے،پاکستان کی صورتحال پر تبصرے ہوتے، پھبتیاں کسی جاتیں 

 ہم زیادہ تر مغرب کی نماز کے بعد اکٹھے ہوتے کیونکہ وہی ایک وقت تھا جب سب موجود ...
 ہم زیادہ تر مغرب کی نماز کے بعد اکٹھے ہوتے کیونکہ وہی ایک وقت تھا جب سب موجود ہوتے تھے،پاکستان کی صورتحال پر تبصرے ہوتے، پھبتیاں کسی جاتیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:253
جب امریکہ کی ایک بہت بڑی اور کامیاب تعمیراتی کمپنی ہونے کے باوجود وہ نئے کام حاصل کرنے میں ناکام رہے تو انھوں نے بھی وہی فیصلہ کیا جو اس قسم کے حالات میں کیا جاتا ہے کہ موجودہ کام مکمل ہوتے ہی کمپنی کوسعودی عرب کی حد تک بند کر کے واپسی کا سفر اختیار کیا جائے۔
پھر ایک دن ہمیں باضابطہ طور پر بتادیاگیا کہ آپ کے پاس 2 مہینے کا وقت ہے اس دوران آپ اپنے لیے کسی دوسری جگہ ملازمتیں تلاش کر لیں، ایسی صورت میں کمپنی اپنے مالکانہ حقوق یا کفالت کو نئے کفیل یا کمپنی کے نام منتقل کردیں گے۔ یہ ان کی طرف سے ایک وسیع القلبی کا مظاہرہ تھا ان کا ملازم ہوتے ہوئے ان کے اختیار میں تھا کہ وہ ہمیں پاکستان واپس بھیج دیتے۔ اور ہمیں دوبارہ سعودی عرب آنے کے لیے نیا ویزہ لینا پڑتا۔ اللہ کے فضل و کرم سے سارے کام خود بخود ہماری بھلائی کی طرف جا رہے تھے۔
ہمارے نئے کنٹرولر جارج ولیم، جو جان کک کی جگہ آئے تھے، میرے کام سے کافی متاثر ہو کر مجھ پر خاص مہربان ہو گئے تھے، انھوں نے مجھے کہا کہ وہ اپنے دوستوں سے بھی پتہ کریں گے اگر کہیں کوئی گنجائش ہوئی تو وہاں چلے جانا۔ تاہم اپنے اصولی مؤقف پر رہتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں آپ کو متعلقہ شخص کے پاس بھیج تو ضرور دوں گا لیکن نوکری کی کوئی سفارش نہیں کر سکوں گا۔ آپ نے خود اپنے بل بوتے پر ہی اس ملازمت کو حاصل کرنا ہے۔
اگلے دن اس نے بتایا کہ کنگ فیصل سپشلسٹ ہسپتال میں اس کاایک بھائی کام کرتا ہے اس نے اطلاع دی ہے کہ ان کے اکاؤنٹ ڈپارٹمنٹ میں ایک سینئر پوزیشن خالی پڑی ہے۔ آپ جا کر وہاں اس سے مل لو اور اپنی ملازمت کے لیے کوشش کرو۔ پھر اس نے روایتی امریکیوں کی طرح کاندھے اچکا دیئے۔
میں اگلے دن بتائی ہوئی جگہ پہنچ گیا اور ان کے بھائی کے توسط سے وہاں کے مالیاتی شعبے کے چیف سے ملا جو بہت اچھی طرح پیش آیا اور مجھے اگلے ہفتے با ضابطہ طور پر انٹر ویو کے لیے آنے کا وقت دے دیا۔
کچھ ذکرِ دوستاں 
انٹرویو کو ہم کچھ دیر کے لیے مؤخر کرتے ہیں اور اس سے پہلے کہ ہم نئی ملازمت کی طرف چلیں یہاں کچھ دیر کے لیے رکتے ہیں، اپنے ان پیارے دوستوں کے لیے، جن سے اس دوران بہت ہی قریبی تعلقات قائم ہو گئے تھے، اور پھر ہم نے اکٹھے ہی ساری خوشیاں سمیٹیں اور اپنے اپنے حصے کے دکھ جھیلے بلکہ بانٹے تھے۔
مستقل ملازمت اور مالی حالات بہتر ہوتے ہی میں نے اپنی رہائش لینے کا سوچا تاکہ ہوسٹل کے بے سکون اور اجنبی سے ماحول سے نکل کر اپنی مرضی کی زندگی گزار سکوں۔ آخر کا رمجھے ایک ایسی عمارت میں گھر مل ہی گیا جہاں اکثریت پاکستانیوں کی تھی جس میں زیادہ تر وہاں ایک مقامی بینک کے آفیسر تھے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ جلد ہی انھوں نے ہمیں بھی اپنے گروپ میں ضم کر لیا، جس میں ہم باہر کے سعودی ماحول سے بے نیاز ہو کر پاکستانی انداز میں اپنی زندگی گزرتے تھے۔ خواتین ایک دوسرے کے گھر اپنے بہترین پکے ہوئے کھانے بھجواتی اور داد و تحسین کی منتظر رہتیں تھیں۔ اس دوران ان کا من پسند مشغلہ یعنی معمول کی کھسر پھسربھی چلتی رہتی تھی۔
ہم زیادہ تردوست مغرب کی نماز کے بعد اکٹھے ہوتے کیونکہ وہی ایک وقت تھا جب سب ایک جگہ موجود ہوتے تھے، ہم باہرسڑک پر کھڑے ہو کر پاکستانی انداز میں بلند آواز میں باتیں کرتے، ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے اور فضول قہقہے لگاتے رہتے۔ پاکستان کی صورت حال پر کھلم کھلا اورمتعصبانہ تبصرے ہوتے تھے، ایک دوسرے پر پھبتیاں کسی جاتیں اور جب کسی دوست کا کوئی لطیفہ سب کو ایک ساتھ اور مکمل طور پر سمجھ آجاتا تو اتنے زور سے با جماعت قہقہہ لگا یا کرتے کہ ہر کوئی آتا جاتا کم از کم ایک دفعہ تو ضرورہمیں گھور کر دیکھتا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -