ہم نے سال کے اندر 11 کچی آبادیوں کے ترقیاتی کام مکمل کرلیے،ڈیڑھ لاکھ کی آبادی اپنے گھروں کا سجا بنا کر خوبصورت اور آرام دہ زندگی گزارنے لگی

ہم نے سال کے اندر 11 کچی آبادیوں کے ترقیاتی کام مکمل کرلیے،ڈیڑھ لاکھ کی آبادی ...
ہم نے سال کے اندر 11 کچی آبادیوں کے ترقیاتی کام مکمل کرلیے،ڈیڑھ لاکھ کی آبادی اپنے گھروں کا سجا بنا کر خوبصورت اور آرام دہ زندگی گزارنے لگی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:84
میرے اس منصوبے کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ اس کی تعریف و توصیف بھی ہوئی اور پھر فوراً ہی اس کی منظوری بھی دے دی گئی۔ میں نے اپنے ماتحت عملے کو کہا کہ وہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 11 آبادیاں منتخب کریں جہاں کے حالات سب سے زیادہ خراب ہیں تاکہ وہاں کام شروع کیا جا سکے۔ تو میں نے ضروری سمجھا کہ سب سے پہلے ان آبادیوں کی پلاننگ ہونا چاہئے تاکہ کم از کم مناسب چوڑائی کی گلیاں بنائی جا ئیں جہاں ضروری سہولیات مہیا کی جا سکیں۔ مگر اس بات کا خیال رکھا گیا کہ گھروں کی توڑ پھوڑ کم سے کم ہو چنانچہ ان کے نقشے ایک ریکارڈ مدت میں مکمل کئے گئے۔ اپنے ضروری سٹاف کو،جس میں مجسٹریٹ اور پولیس بھی شامل تھی، لے کر ایک ایسی ہی آبادی میں جا پہنچا۔ ہم وہاں کے مقامی رہائشیوں کے ساتھ چارپائیوں پر جا بیٹھے اور ان کے سامنے اپنے نقشے کھول کر ان پر گفتگو شروع کر دی۔ انھوں نے ان میں کچھ تجاویز پر ترمیم کی کی درخواست کی جسے فوراً ہی ان کی موجودگی میں ہی تبدیل کر دیا گیا تاکہ ان کو اعتبار رہے اور وہ اس منصوبے کو قبول کرلیں۔ میرے لیے یہ ایک انتہائی حیرت انگیز بات تھی کہ انتہائی دوستانہ ماحول میں کیسے اس منصوبے کو پیش کیا گیا اور کس خوش دلی سے اسے قبول بھی کر لیا گیا۔ ماحول میں ذرا سی بھی تلخی پیدا نہیں ہوئی۔ اس میں طے پایا تھا کہ اس بستی میں سے کچھ ناجائز قبضے ختم کئے جائیں گے تاکہ مناسب گلیوں اور راستوں کی تعمیر ہو سکے۔ اس کا وہیں بیٹھے بٹھائے اور فوراً ہی فیصلہ بھی ہوگیا۔ مجسٹریٹ اور پولیس کی موجودگی اور مقامی نمائندوں کی معاونت سے اس پر بھی عمل درآمد بھی ہو گیا۔ وہاں کے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگوں نے اس خواہش کااظہار کیا کہ اس منصوبے کے تحت بستی کے بنیادی ڈھانچے میں پکی گلیوں، سیوریج اور صاف پانی کی فراہمی کا بندو بست بھی کیا جائے۔ میں نے اُنھیں بتایا کہ تر قیاتی کام کے اخراجات اُنھیں ادا کرنا ہوں گے جبکہ زمین مفت ہو گی۔ وہ میری اس بات پر متفق ہوگئے اور یوں حیرت انگیز طور پر ہمیں غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی جس پر نہ صرف ڈائریکڑ جنرل بلکہ ایل ڈی اے کا سارا عملہ ہی بہت حیرت زدہ اور خوش تھا۔    
اسی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے ہم نے ایک سال کے اندر 11 کچی آبادیوں کے ترقیاتی کام مکمل کرلیے۔ اس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ایک مخصوص رقم کی ادائیگی کے بعد وہاں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق دے دئیے جائیں اور جب ان کو یقین ہو گیا کہ منصوبے کے مطابق اب وہ اپنے ان گھروں کے مالک ہونگے تو انھوں نے بستی میں مستقل بنیادوں پر اپنے اپنے گھروں کی تعمیر نو شروع کر دی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کوئی ڈیڑھ لاکھ کی آبادی اپنے گھروں کا سجا بنا کر ایک خوبصورت اور آرام دہ زندگی گزارنے لگی۔ بلا شبہ یہ ان کی زندگی میں ایک انقلاب تھا۔ ہر چند کہ یہ میرے لیے کام کا ایک اضافی بوجھ تھا، لیکن جب میں نے ان کی آنکھوں میں اپنے لیے شکرانے کے جذبات دیکھے اور ڈھیر ساری دعائیں سمیٹیں تو میں اپنی ساری تھکاوٹ بھول گیا۔ یہ میرے لیے ایک بہت اطمینان بخش محسوسات تھے کہ میری ذرا سی کوشش سے ہزاروں خاندانوں کی زندگیاں سنور گئیں۔ میں اب ان آبادیوں میں بہت مقبول ہو گیا تھا اور وہاں کے باسی اب مجھ سے محبت کرنے لگے تھے۔ میری اسی شہرت کو دیکھتے ہوئے جنرل انصاری نے مذاق میں مجھے کہا کہ میں اب یہاں اتنا مقبول ہو گیا ہوں کہ میں اگر یہاں سے الیکشن لڑوں تو با آسانی منتخب ہو سکتا ہوں۔ میرے لیے تو یہ ایک بعید الفہم سوچ تھی تاہم ایل ڈی اے سے میرے رخصت ہونے کے بعد جنرل انصاری نے یہاں سے الیکشن لڑا اور وہ اس میں کامیاب ہوئے۔ بعد ازاں میں عالمی بینک سے آئے ہوئے ایک وفد، جو پاکستان میں اربن سٹڈی کے منصوبے کے سلسلے میں آیا ہوا تھا، کو لے کر ایسی ہی ایک آبادی دکھانے لے گیا۔ جس کو دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے اور مجھ سے پوچھا کہ یہ سب کچھ کرنا آپ کے لیے کیسے ممکن ہوا۔ میں نے ازراہ تفنن ان سے کہا کہ اس لیے کہ اس منصوبے میں عالمی بینک کی شمولیت نہیں تھی۔ مجھے یہ منصوبے مکمل کرکے دلی مسرت ہوئی کہ میں غریبوں کی زندگی میں کچھ آسانیاں پیدا کرنے کا ایک سبب بن سکا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -