”یومِ پنکچر “ اور ہوا کے دوش پر ریت کی دودھیا لہریں ۔۔۔۔
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:172
سڑک پر ذرا آگے جاکر دائیں ہاتھ مستری کی ورکشاپ تھی جو اس وقت کسی ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ کا منظر پیش کر رہی تھی۔ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی کے باہر چھوٹا سا صحن، ایک مستری اور اس کا ایک ”چھوٹا“ ، بہت سے ٹائروں، ڈرائیوروں اور مسافروں کے نرغے میں تھے۔لگتا تھا آج اس علاقے میں ”یوم ِ پنکچر“ نہایت جوش و خروش اور روایتی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا تھا۔ ہر طرف چھوٹے بڑے ٹائر اس طرح بکھرے ہوئے تھے جیسے خود کش دھماکے کے بعد ”گناہگاروں“ کی لاشیں جائے وقوعہ پر پڑی ہوتی ہیں لیکن مستری ہمارے حکمرانوں کی طرح ایک طرف بے فکری سے بیٹھا سگریٹ پھونک رہا تھا۔ لوگ اس کے ارد گرد اس طرح ادب سے کھڑے تھے جس طرح زندگی میں کہیں نہ پہنچنے والے مایوس مریدین کسی پہنچے ہوئے پیر کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم خود پنڈی پہنچنا چاہتے تھے اس لیے کسی پہنچے ہوئے پیر کا احترام ایک حد سے زیادہ نہیں کر سکتے تھے چنانچہ گستاخی کرتے ہوئے سوال کیا کہ مستری صا حب پنکچر کیوں نہیں لگا رہے؟
جواب ملا ”کیوں کہ بجلی بند ہے۔“
اس پر میری بھی بولتی بند ہوگئی۔ہر شخص پریشان اور بولا یا ہوا تھا۔جو کام بجلی کے بغیر ہو سکتا تھا وہ جاری تھا یعنی ہر ٹائر کو ادھیڑ کر رِم اور ٹیوب الگ الگ کیے جارہے تھے تا کہ مسافر ٹائر کسی اور ورکشاپ پر بھی نہ لے جا سکیں۔ چھو ٹا مستری ایک دستی پمپ سے ہوا بھر کر ٹائر کی جائے مخصوصہ یعنی مقام ِپنکچر کی نشاندہی کر رہا تھا۔ وہ پھولی ہو ئی ٹیوب کو سیاہ پانی سے بھرے ایک چھوٹے تسلے میں ڈبو کر آہستہ آہستہ چکر دیتا اور جہاں بلبلے نکلتے نظر آتے وہاں پنسل سے دائرہ بنا کر ٹوٹی ہوئی دیا سلائی گھسیڑ دیتا۔ اس سے اگلا کام سینئیر سرجن یعنی مستری کا تھا۔ہمارا ڈرائیور اور کنڈکٹر بھی اسی بھیڑ میں ایک طرف کو تحمل سے کھڑے تھے، جیسے تصویر لگادے کوئی دیوار کے ساتھ۔ میں بھی ذرا مستری کے پاس کو ہو کر چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔تھوڑی دیر گزری تھی کہ گُھر گُھرگُھرموٹر چلنے کی کی آواز سنائی دی اور اعلان ہوا کہ بجلی آ گئی ہے۔اس اعلان سے لوگوں میں بھی بجلی سی دوڑ گئی اور سب کی پریشانی، بے چینی اور بے چینی ،افراتفری میں بدل گئی۔ ہر شخص پہلے پنکچر لگوانا چاہتا تھا تا کہ اس God-forskaen علاقے سے جلد از جلد نکل سکے لیکن انتخاب کا معیار یا اصول مستری کا اپنا تھا جس کےلئے وہ کسی کو جواب دہ نہیں تھا۔ایک آ دمی، ایک مشین، ایک چھوٹا، بہت سے ٹائر اور ان سے کہیں زیادہ لوگ۔ ایسے میں ہماری باری آنے کا امکان اگر تھا بھی تو کہیں بہت دور اور کسی حد تک معدوم تھا۔ بجلی کا بھی کچھ پتا نہیں تھا کہ کب دوبارہ دفعان ہو جائے۔ دھوپ کی تپش کچھ کم پڑنے لگی تھی۔ شام کچھ زیادہ دور نہیں تھی۔
میں نے صورت ِ حال کا جائزہ لینے کے بعد مستری کی ہمدردی لینے کےلئے اس کا ہاتھ بٹا نا شروع کردیا تا کہ اس کے کام کی رفتار ذرا تیز ہو جائے۔اوزار پکڑا دیا، ٹائر قریب کر دیا، پانی کا تسلا پاس کھینچ دیا۔ میری خد مت گزاری سے وہ کچھ مطمئن دکھائی دیا تو ایک وقفے میں مَیں اسے چند قدم پرے لے گیا اور اپنے مصائب ایسے پر اثر انداز میں بیان کیے کہ اس نے ہاتھ والا ٹائر چھوڑ کر ہمارا ٹائر پکڑ لیا۔کچھ لوگوں نے اس پر احتجاج بھی کیا لیکن مرضی تو مستری ہی کی چلنی تھی۔ ہمارا ڈرائیور بھی ایک کمال آدمی تھا اس نے زر ِ کثیر صرف کر کے فورا ً نئی ٹیوب اور نئی بیٹری خرید لی تا کہ راستے میں پھر پریشانی کا امکان باقی نہ رہے۔ دراصل وہ کسی دوسری کمپنی کا ڈرائیور تھا جسے ویگن کے مالک نے ناگہاں اتنی سواریاں مل جانے پر ہنگامی طور پر کرائے پہ حا صل کیا تھا۔ وہ بے چارہ ہم سے شرمندہ تھا اور ہماری تکلیف کے مداوے کےلئے ہر جتن کر رہا تھا۔پنکچر لگو ا کر ہم نے مستری کا تہِ دل بل کہ اس سے بھی زیادہ گہرائی سے شکریہ ادا کیا۔ نئے آلات کی تنصیب کے بعد ہم دوبارہ آ گے چلے۔ سورج ڈھل چکا تھا اور ہمارے 3 گھنٹے بھی گُل ہو چکے تھے اور ابھی سارا سفرباقی تھا۔
تھور داس آیا۔ہوا کے دوش پر ریت کی دودھیا لہریں سڑک پر سے گزرتیں توشام کے دھندلکے میں سب کچھ سراب سا لگنے لگتا۔ کھُنبری کی چیک پوسٹ تک پہنچتے پہنچتے سہ پہر شام میں بدل گئی۔یہ چیک پوسٹ شمالی علاقہ جات کو باقی ملک سے الگ کرتی ہے۔ دریائے سندھ کا پانی گدلے سے سرمئی دکھائی دینے لگا تھا۔ پہاڑ بھی اب اسی سرمئی رنگ میں رنگے جاتے تھے۔ دیامر بھاشا ڈیم کا علاقہ اسی ملگجی روشنی میں گزرا۔ پھر اندھیرا اترنے لگا۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔