فوج کا وقار اور عوامی حمایت مگر کیسے؟
پاک فوج اور پاکستان بلاشبہ لازم و ملزوم ہیں، کیونکہ پاکستان کو پہلے دن سے ہی اپنے ایک طاقتور ہمسائے سے خطرہ لاحق ہے،پاکستان کی جغرافیائی صورتحال بھی ایسی ہے جو کئی طاقتوں کے ذہنوں میں کھٹکتی ہے الحمد للہ پاک فوج اعلی تربیت یافتہ اور ایک مضبوط ادارہ ہے جس کی پشت پر ہمیشہ جان نثار عوام کھڑے رہے ہیں، لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے دیکھا گیا ہے کہ فوج اور عوام میں کچھ دوریاں پیدا ہوئی ہیں جن کی شدت اب نفرت کا روپ دھار رہی ہے ہماری موجودہ فوجی قیادت خاصی مضطرب اور برہم نظر آتی ہے۔انہیں غصہ ہے کہ ایک انتشاری ٹولہ جسے ڈیجیٹل دہشت گرد بھی کہا جاتا ہے سوشل میڈیا پر اپنی فوج کے خلاف نفرت پیدا کرنے، فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے پچھلے کچھ ہفتوں سے پاک فوج کے شعبے برائے عوامی رابطہ(ISPR)اور سپہ سالار پاکستان کے بیانات برہمی اور غصے کے اظہار سے بھرپور ہوتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پاک فوج کی قیادت کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان کے عوام میں فوج مخالف عنصر میں اضافہ ہوا ہے اور فوج کی اب پہلے والی توقیر ہے نہ عوامی حمایت، ہم ایسے خاکسار جو ہر وقت عام لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں بھی جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام اور فوج کے مابین ایک خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے جو کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ پاکستان جیسے ملک کے عوام ایک مضبوط فوج کے بغیر اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں نہ عوامی حمایت کے بغیر فوج کامیابی سے سرحدوں کا دفاع کرنے کے قابل ہو سکتی ہے۔
فوجی قیادت بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ عوام میں اپنا کھویا ہوا مقام واپس لیا جائے جس میں ابھی تک خاطر خواہ کامیابی نظر نہیں آتی اور یہ کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں ہوگی جب تک فوج ان عوامل کو تلاش نہ کرے جن کی بدولت یہ دوریاں بڑھی ہیں۔
ہمارے پنجاب کی پرانی روایت ہے کہ اگر کوئی مال چوری ہو جاتا تو چوروں کی تلاش اور مال مسروقہ کی برآمدگی کے لیے کھوجیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جو کھوج لگا کر چور تک پہنچنے کی کوشش کیا کرتے ہیں ہماری فوجی قیادت کو بھی اس بات کی کھوج لگانے کی ضرورت ہے کہ فوج اور عوام کے بیچ خلیج کیسے پیدا ہوئی ہے اور اس کے پیچھے کون سے عوامل ہیں؟
ماضی میں عوام فوج سے محبت کرتے تھے اور فوجی بیانیوں پر ہی یقین رکھتے تھے پھر کیا ہوا کہ اب پاکستان کے عوام ملکی مخدوش حالات کا ذمہ دار فوجی قیادت کو سمجھنے لگے ہیں؟ جناب سپہ سالار صاحب اس میں شبہ نہیں کہ پچھلے دو سال سے سوشل میڈیا پر فوج مخالف پروپیگنڈہ ہو رہا ہے اور اس میں بہت جھوٹ بھی پھیلایا گیا ہے، لیکن آپ کو اپنی پیش رو فوجی قیادت کے کردار اور ماضی کی غلطیوں کا جائزہ بھی لینا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات سلجھانے میں بھی تدبر سے کام لینا ہوگا، اگر آپ یکطرفہ کارروائی کرتے ہیں اور طاقت سے سب کچھ کرنے کی کوشش کریں گے تو حالات مزید بگاڑ کی طرف جائیں گے، آپ جن کا ذکر فتنہ، انتشاری اور شرپسند ٹولے کے الفاظ سے کرتے ہیں ان کی تعداد بھی زیادہ ہے اور وہ بلاشبہ اس ملک کے پیدائشی شہری ہیں وہ اس ملک کی معیشت، سماجیت، سیاست اور ہر طرح کی سرگرمیوں میں شامل ہیں ان سب کو ختم کیا جا سکتا ہے نہ ملک سے نکالنا ممکن ہے پھر ان سے بات کرنی چاہیے ان کی بات سننی چاہیے اور ان کی غلطیوں کو ثابت کر کے انہیں قانون کا پابند بنایا جا سکتا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ بوجوہ اس ملک میں جمہوریت جڑ نہیں پکڑ سکی اور ہمارے سیاستدان دوراندیشی سے کام لینے کی بجائے اقتدار کے لیے شارٹ کٹ کے منتظر رہتے ہیں اور جن سیاستدانوں یا جماعتوں کے سر پر آپ کا ہاتھ ہوتا ہے وہ آپ کے گن گاتے ہوئے اپنے ڈنگ لگاتے ہیں اور جن کے سر سے آپ کا دست شفقت اٹھ جاتا ہے وہ جمہوریت اور مینڈیٹ کا راگ الاپتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ طاقت سے وقتی طور پر تو کسی کو دبایا جا سکتا ہے لیکن لوگوں کے موقف اور سوچ کو نہیں بدلا جا سکتا، پاکستان کے مختلف ادوار میں فوجی قیادت نے جن سیاستدانوں پر کرپشن، ملک دشمنی اور بغاوت کے الزامات لگا کر انہیں زیر عتاب رکھا بعد میں ان پر نہ صرف وہ الزامات ثابت نہ کیے جا سکے،بلکہ فوجی قیادت ہی کی ایما پر انہیں دوبارہ اقتدار بھی ملتا رہا ہے ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو دی گئی پھانسی کی سزا میں ججز کی غلطی کو تسلیم کیا ہے تو اس عدالتی قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا آپ بخوبی جانتے ہوں گے، موجودہ حکومت میں شامل کتنی شخصیات ہیں جن کے اوپر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے الزامات لگائے گئے،انہیں جیلوں میں رکھا گیا، نااہل قرار دلوایا گیا اور سخت سزائیں دلوائی گئیں لیکن پھر وہ سب بری کیسے ہو گئے اور مشکوک انتخابی نتائج کے ساتھ برسراقتد ارکیسے ہیں؟
اس وقت آپ پوری طرح حکومت کے نہ صرف ساتھ ہیں،بلکہ فیصلوں پر بھی اثر انداز ہیں، پچھلے دنوں نوجوانوں کے کنونشن میں آپ نے خود تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ نوجوانوں کی آنکھوں میں چمک دیکھ رہے ہیں جو ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے، لیکن اسی تقریر میں آپ نے سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے والے جس انتشاری گروہ کا ذکر کیا ان کی اکثریت بھی اس ملک کے نوجوانوں پر مشتمل ہے ان کی آنکھوں میں بھی جھانکنے کی ضرورت ہے کہ وہ انتشار کیوں پھیلاتے ہیں،ان کا مسلہ کیا ہے؟ اگر کنونشن میں چند ہزار نوجوان تھے تو اس ملک کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب تو 60فیصد سے بھی زائد ہے پھر ہم کس طرح اکثریت کو نظر انداز کر سکتے ہیں جناب سپہ سالار صاحب بلاشبہ آپ اس بات پر قادر ہیں کہ جس بھی سیاسی لیڈر پر الزامات ثابت کر کے اسے سزا دلوا سکتے ہیں، لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس ملک میں کوئی دودھ کا دھلا ہوا ہے نہ کسی کا تعلق کسی دشمن ملک سے ہے سب اسی ملک کے شہری ہیں اور غلطیاں سب سے سرزد ہوئی ہیں تو پھر سارا زور طاقت اور سزائیں دلوانے پر لگانے کی بجائے افہام و تفہیم کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اداروں کو اپنے اپنے آئینی کردار تک محدود رہ کر سب کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا چاہیے۔