سیاسی توازن اور گڈ گورننس ( تیرھواں حصہ)

سیاسی توازن اور گڈ گورننس ( تیرھواں حصہ)
سیاسی توازن اور گڈ گورننس ( تیرھواں حصہ)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  ہمارے ایک دوست اس  بات پر  زور  دے رہے تھے کہ پوتن بہت خطرناک لیڈر ہے۔ عالمی  امن کے لیے خطرہ ہے اور اس کو  اپنی غلطی کی سزا ملے گی۔ روس یوکرین کی جنگ ہار جائے گا۔ مغرب کی طاقت کا  اس کو اندازہ نہیں تھا  اور یہ کہ اب روس پھنس کر رہ گیا ہے۔ پہلے تو میں نے کہا کہ یہ بات تو مغربی میڈیا کا بیانیہ ہے، ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو۔  بولے مگر آپ کا  اپنا کیا خیال ہے؟ میں نے عرض کی  کہ مجھے ایک ایسی جنگ پر واقعی تشویش ہے جو یورپ کے اندر لڑی جارہی ہے۔ اگر میرا بس چلے تو  یوکرین کے صدر کو پھانسی دے دوں۔ جنگ کے سب سے بڑے ذمہ دار  وہ مٹھی بھر عناصر ہوتے ہیں جو اپنے خطے  اور اپنے ملک میں جنگ اور  بدامنی لانے کا موجب ہوتے ہیں۔ جب مزاحمت کار اپنی شجاعت اور  بہادری پر فخر کرنے کی خاطر جنگ اور  بدامنی کو اپنی سرزمین پر لے آتے ہیں تو وہ  اپنے ساتھ رہنے والوں کو پتھر کے دور میں لے جانے والی سازش کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ آج کی جنگ تلوار  اور خنجر سے نہیں لڑی جاتی بلکہ رائفل سے بھی نہیں لٖڑی جاتی۔اور  اب تو یہ جنگ میزائل اور  جدید ترین  طیاروں  کے بجاے سائیبر سپیس پر  لڑی جاتی ہے۔ اور سیلیکٹیو معاشی  پابندیاں ماڈرن  وار  فئیر کا سب سے بڑا  ہتھیار ہیں۔ ہم نے عرض کی ایک چھوٹے سے ملک اور چھوٹی سی معیشت کے رہنما نے اپنے ملک کو میدان جنگ بننے سے بچانا تھا۔ اور  وہ  ایسا نہیں کرسکا۔ اس لیڈر کی عقل کہاں چلی گئی تھی کہ اس نے اپنے ملک کو سپر پاورز کا میدان جنگ بنا دیا۔

لاکھوں لوگوں کو ملک چھوڑنا پڑ گیا  اور یہ جو  پناہ گزین جنگ کے وجہ سے اپنا ملک چھوڑ کے مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں ہم نے انکی  حالت  زار  دیکھی ہے چاہے وہ  مغربی ممالک جانے کے لیے کیمپوں میں پڑے ہوں یا دوسری اور تیسری نسل کی صورت  میں مغربی ممالک میں آباد ہوں۔ میں نے عرض کی آپ نے افغانستان کو تو دیکھا ہوگا۔ ائیرپورٹ کے رن وے پر ہزاروں لوگ جہاز کے  ساتھ یوں بھاگ رہے تھے جیسے سوزوکی ویگن کے ساتھ بھاگ رہے ہوں۔ جن خطوں میں جنگ ہوئی ہے کبھی وہاں جانے کا موقع مل جائے ان لوگوں کو جن کے خیال میں مزاحمت کار اور جنگجو ہونا سب سے قابل فخر بات ہے۔تو شاید  انہیں اس بات کا  ادراک ہوجائے کہ آج کے جدید دور میں مزاحمت کاروں اور جنگجو لوگوں کو ماڈرن  وار فئیر میں محض  ادنیٰ  جنگی  اوزار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلح جدوجہد کا فارمیٹ کب کا بدل چکا ہے۔ ادنیٰ جنگی اوزار  کے طور  پر استعمال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان مزاحمت کاروں کو کچھ علم نہیں ہوتا کہ انکی اس مزاحمت سے کس کو فائدہ  پہنچ رہا ہے  اور کس کو  نقصان؟  اور  وہ  مزاحمت کار  پاور سٹرگل میں کس قدر بری طرح استعمال ہورہے ہیں۔کاش  انہیں معلوم ہوکہ انکی اس ساری کاوش سے ان عناصر کو فائدہ پہنچ گیا ہے جنھیں وہ دیکھنا بھی پسند نہ کریں جو انکے استحصال کے واقعی ذمہ دار ہیں۔ لوگوں کے کسی گروپ، کسی قبیلے کی کچھ سٹرانگ سائیڈز اور کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں۔ اصل شعور یہ ہے کہ اپنی سٹرانگ  سائیڈز اور کمزوریوں کو پہچانا جائےاور ایسے پلے آؤٹ میں نہ پھنسا جائے جہاں آپ کا استعمال بہت سستا ہو جائے۔
ان سارے ممالک پر ایک نظر دوڑائیے جو میدان جنگ بنے ہیں۔افغا نستان، عراق، لیبیا،  شام۔ ان ممالک میں جاکر ان ممالک کی  تباہی اور  بربادی دیکھیے۔ ان ممالک کے لوگوں سے ملیے۔ ہم تو ملے ہیں ان ممالک کے باشندوں سے جو اپنے آپ کو شروع شروع میں  خوش قسمت ترین سمجھتے ہیں کہ مغربی ممالک نے پناہ دے دی ہے۔ ہم نے انکی دوسری اور تیسری نسل کو بھی دیکھا ہے۔ ہم پہ بھی میڈیا  اور  ذرائع  ابلاغ کا گلوبل کوڈ آ ف ایتھیکس لاگو ہوتا ہے۔ اتنا  بتا دینا کافی ہے۔ 
ذرا سوچئے تو اگر جنگ  نیویارک میں لڑی جائے تو  امریکہ کا کیا حال ہونے لگ جائے۔ اگر جنگ لندن میں لڑی جائے تو اس  انفرا  سٹرکچر کا کیا حال بنے  جسے دیکھنے دنیا  بھر سے ٹورسٹ  جاتے ہیں۔ اگر جنگ بیجنگ میں لڑی جائے تو کیا بنے شہر کے انفراسٹرکچر کا۔اور  اگر جنگ دبئی میں لڑی جائے تو کیا تباہی آئے ان سکائی سکریپرز پر۔  ہم بھی باشعور ہیں ،  یہ ہمارا خیال ہے جدید  دنیا میں شعور کی کیا ڈیفی نیشن ہے؟ اس بات پر بھی  بڑا کنفیوژن ہوگا،کچھ عشروں بعد ہمیں احساس ہونے لگے کہ ہم جسے شعور سمجھتے تھے وہ کچھ او ر تھا۔تو کتنا تاسف اور  ملال ہوگا ہمیں ،  تاریخ کے ان  ادوار میں جب جنگ تلوار سے لڑی جاتی تھی تب بستی یا شہر کی  آبادی سینکڑوں یا  ہزاروں میں تھی، ذرائع ابلاغ بہت محدود تھے۔  تب جنگ  یا مزاحمت کی ڈائنامکس قطعاً مختلف تھیں َ۔
میں نے زندگی کے 22 برس ترقی یافتہ ترین دنیا میں گزارے ہیں، اس ترقی یافتہ دنیا میں  جہاں تازہ ہوا میں سانس لینے کا بھی بل آتا ہے۔لیکن ان لوگوں نے ایک بات سیکھ لی ہے۔ قانون شکنی کی سزا  اٹل ہے اور یہ کہ جنگ  و  جدل اور  انتشار کو اپنی سرحدوں سے دور رکھنا ہے۔ چاہے وہ جمہوریت ہو یا عرب ممالک کی آمریت  ، قانون شکنی کی سزا  اٹل ہے۔
یہ بات درست ہے کہ عوا م کوجب اپنے معیار زندگی  اور  رہن سہن  پر کمپرومائیز کرنا پڑ جائے تب نچلے طبقے کا صبر کا امتحان سب سے پہلے شروع ہوتا ہے۔عوام لمبا عرصہ بات یاد  رکھنے کی عادی نہیں ہوتے۔ عوام کے خیال میں حکومت وقت نے ان کا  جینا  دوبھر کردیا ہوتا ہے۔حکومتِ  وقت کا قصور یہ ہوتا ہے کہ وہ  اقتدار میں ہوتی ہے، اپوزیشن کوئی حربہ جانے نہیں دیتی کہ حکومتِ وقت کی گرفت  اقتدار  پر  کمزور ہوجائے۔ یہ ترقی پذیر معاشرے کی  جمہوریت کے بڑے ڈرا بیکس ہیں۔کبھی کبھی استحکام اور  خوشحالی ایک خواب لگنے لگتے ہیں۔ مغرب کو ہماری جمہوریت  یا  آمریت سے کوئی مطلب ہے کیا؟ کمزور  جمہوریت کو کنفیوژ کرنا  اور  پاور  مینوور کرنا آسان ہوتا  ہوگا۔ عرب ممالک کی آمریت سے مغرب کو کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔
  اللہ ہمارا  حامی  و  ناصر  ہو۔

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطۂ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -