کھلے آسمان کے نیچے ایک کشادگی تھی، ایسی کشادگی جو سرد ہوتی ہوا اور زردپڑتی شام کی طرح لا محدود تھی

کھلے آسمان کے نیچے ایک کشادگی تھی، ایسی کشادگی جو سرد ہوتی ہوا اور زردپڑتی ...
کھلے آسمان کے نیچے ایک کشادگی تھی، ایسی کشادگی جو سرد ہوتی ہوا اور زردپڑتی شام کی طرح لا محدود تھی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط:140
 یہاں سے اُلتر گلیشئیر،جو ہنزہ والوں کےلئے آب رسانی کا قدیم ترین ذریعہ ہے اور لیڈی فنگر یعنی  ”ببلیما تنگ“ (مجھے تو اس نام میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ یہ مقامی اور ”اوریجنل“ ہے۔ پتا نہیں ہم بدیسی ناموں سے کیوں متاثر ہوتے ہیں؟) بہت قریب محسوس ہوتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ہنزہ چوٹی ہے۔جنوب میں پہاڑوں کے درمیان تاحد ِ نگاہ ایک لمبی لیکن کشادہ گھاٹی دکھائی دیتی ہے جس کے بیچ میں دریائے ہنزہ بہتا ہے اور اس کی دونوں طرف ڈھلوانوں اور میدانوں پر آبادیاں ہیں جو ہرے پیڑوں کی گنجانی میں نظر نہیں آتیں۔ شمال میں راکا پوشی سے متصل برف پوش چوٹیوں کا سلسلہ ہے۔ یہیں دیران چوٹی ہے، ساتھ میں گو لڈن پیک (”سپن تک“ چوٹی) تھی جو شام کےساتھ ساتھ گولڈن سے گو لڈن تر ہوتی جارہی تھی۔ اسی کے ساتھ وہ سلسلہ ہے جس کی سلوٹ کو کوئی ”sleeping lady “کہتا ہے کوئی”جنّاتی پہاڑ“(giant mountain ( حا لانکہ عورت ہو یا جن اس سے کیا فرق پڑتا ہے، اثرات تو دونوں کے ایک ہی سے ہوتے ہیں۔کھلے آسمان کے نیچے ایک کشادگی تھی۔ ایک ایسی کشادگی جو سرد ہوتی ہوا اور زردپڑتی شام کی طرح لا محدود تھی۔
یہاں ہمارے سوا بہت سے غیر ملکی سیّاح بھی تھے۔ جن میں ایک آدمی اپنے حلیے کے اعتبار سے کافی انوکھا تھا ۔ اس نے بھورے رنگ کا اور بہت کھلی آستینوں کا ریشمی چو غہ پہن رکھاتھا۔ سر پر لمبی چوٹی تھی اور ٹھوڑی پرپتلی سی داڑھی، پاؤں میں چپل، کسی جاپانی سمورائے جیسا۔ اس نے بتایا کہ وہ کورئین تھا اور اپنے قومی لباس میں راکاپوشی کا نظارہ کر رہاتھا۔
میں ایک پتھر پر بیٹھ کر منظر کا لطف لینے لگا۔ قریب ہی 2 امریکی نوجوان پیرا شوٹس چٹان پر پھیلا کر پیرا گلائڈنگ کےلئے تیار ہورہے تھے۔ہوا زیادہ تیز اور ٹھنڈی ہو گئی تھی میں نے کندھے پر ڈالی ہوئی اونی جرسی پہن لی اور جگہ کو explore کرنے کےلئے طاہر اور سمیع کے ساتھ چٹان کے پچھلے حصے کی طرف چلا جو ڈھلوان میں تھا۔ وہاں سے نیچے التیت گاؤں صاف دکھائی دیتا تھا ۔ اس بلندی سے قلعہ بہت ہی چھوٹا نظر آتا تھا۔ قلعے کے قریب چھو ٹا سا تا لاب تھا اور ارد گرد مکان اور کھیت۔ قلعہ گاؤں سے اونچائی پر ایک چٹان پرقائم تھا۔ التیت سے آگے گنیش کا علاقہ تھا جس سے آگے گنیش پل اور اس کے پار شاہراہ ِ ریشم تھی، جس پر ننھی منی گاڑیاں گوجال کی طرف جاتی نظر آتی تھیں۔ کچھ دیر گھوم کر ہم پھر لوٹ آئے۔
 2مقامی لڑکے امریکیوں کی چھتریوں کو پھیلانے اور ڈوریوں کو سلجھانے میں ان کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ ہم بھی وہیں ایک طرف بیٹھ کر انہیں اشتیاق اور توجہ سے دیکھنے لگے۔ چھتریاں زمین پر پھیلا کر گلائیڈرز ڈھلوان کی طرف دوڑتے لیکن عین وقت پر ڈوریاں الجھ جاتیں اور وہ اُڑنے سے رہ جاتے یا تھوڑا سا اُڑ کر پھر زمین پر اتر آتے ۔ دو تین بار کی ناکام کوشش کے بعد دونوں امریکی ہوا میں بلند ہوئے اور پھر ہوا کے دوش پر آسمان کی وسعتوں کی طرف بڑھنے لگے اور چند ہی منٹ میں وہ دونوں اتنی دور جا چکے تھے کہ محض نقطے سے نظر آنے لگے۔ وہ بہت دیر فضا میں رہے۔رفتہ رفتہ وہ اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ راکا پوشی کے آس پاس منڈلا تے محسوس ہونے لگے ۔ پھر ان میں سے ایک نیچے وادی میں اترنے لگا لیکن دوسرا مزید اوپر جا رہا تھا۔ اس کی پرواز سے اندیشہ ہو تا تھا کہ شاید معاملہ اس کے اختیار سے باہر ہو گیا تھا اور اب ہوا اسے اڑائے پھرتی تھی۔ ہم دم سادھے اور ٹکٹکی لگائے اسے دیکھ رہے تھے۔ بہت دیر ہوا میں ادھر ادھر منڈلانے کے بعد وہ اتنا بلند ہوا کہ راکا پوشی کی چوٹی کے قریب دکھائی دینے لگااور ابھی وہ مزید اوپر جا رہا تھا اور اسے دیکھنے کے لیے آنکھیں سکیڑنا پڑتی تھیں۔ پھر اس کی چھتری گھوم کرراکا پوشی کے پیچھے غائب ہوگئی۔ اس کے تجسس میں ہم نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ اس کا ساتھی وادی میں کہاں اترا تھا۔ ان کی مدد کرنے والے لڑکے بھی جا چکے تھے۔ہم کسی ممکنہ حادثے کے متعلق سوچ کر پریشان ہورہے تھے۔
”کہیں یہ امریکی کسی خاص مشن پر وہاں نہ گیا ہو۔“ ندیم نے ایک سچے مسلمان کی طرح صورت ِ حال کے تانے بانے یہود و نصاریٰ کی اسلام کے خلاف سازش سے ملاتے ہو ئے شک کا اظہار کیا ۔
 ہم سب حیران، پریشان اور کنفیوز تھے۔ کوئی ایسا شخص بھی نہیں تھا جو ہمیں بتا سکتا کہ یہ کوئی مہم ہے یا حادثہ، یا پھرندیم والی بات یعنی۔۔۔ سازش ؟
ہمارے علاوہ سب لوگ نیچے اتر چکے تھے۔ سورج ڈوبنے سے برفوں کا رنگ دوبارہ دودھیا ہو گیاتھا۔ سرد ہوا کی تیزی سے کانوں میں سیٹیاں بجتی تھیں۔ چیمہ، احمد علی اور عرفان بور ہو کر رونق دیکھنے کریم آباد لوٹ گئے تھے ۔ 
”چوہان صا حب میں بھی آہستہ آہستہ کریم آباد کی طرف چلتا ہوں۔ آپ بھی اندھیرا ہونے سے پہلے آجائیے گا۔“ اعظم نے بھی نصیحت کرتے ہوئے رخصت لی۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔