آپریشن عزم استحکام
حکومت کی جانب سے آپریشن عزمِ استحکام کے اعلان کے بعد وہی کچھ ہو رہا ہے جو اس سے پہلے اہم معاملات پر کوئی خبر سامنے آنے کے بعد ہوتا رہا ہے، حکومت آپریشن کے حق میں ہے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے اس کی مخالفت ہو رہی ہے، پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی ملٹری آپریشن کی مخالفت کرتی ہے، چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے آپریشن کے اعلان پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی آپریشن کے لیے پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے، اس پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک نیوز کانفرنس میں واضح کیا کہ ملک میں دہشت گردوں کی کہیں بھی رٹ قائم نہیں، ماضی میں جو آپریشن کیے گئے وہ ملک کے کسی حصے میں دہشت گردوں کی رٹ قائم ہونے کی وجہ سے کیے گئے، اب ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے، اس لیے مجوزہ آپریشن بھی ویسا نہیں ہو گا جیسے ماضی میں کیے جاتے رہے ہیں، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ کے اجلاس میں اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ آپریشن عزمِ استحکام شروع کیے جانے سے قبل (اِن کیمرہ) میٹنگ میں بحث کرائی جائے گی۔
تازہ خبر یہ ہے کہ وفاقی کابینہ نے آپریشن عزمِ استحکام کی منظوری دے دی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی واضح کیا ہے کہ آپریشن عزمِ استحکام ماضی کے آپریشنوں کی طرح نہیں ہے صرف انٹیلی جنس بنیادوں پر شر پسند عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے گی، عوام کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ 2001ء سے اب تک یعنی 2024ء کے وسط تک پاکستان مختلف نوعیت کے 14 فوجی آپریشنز کر چکا ہے،جن کا آغاز ستمبر 2001ء میں نائن الیون کے سانحہ کے بعد امریکہ کے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کرنے کے بعد کیا گیا تھا جب پاکستان کی جانب سے امریکہ کی اس مہم میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے کے فیصلے کے ردِ عمل میں دہشت گردوں نے پاکستان اور حکومت پاکستان کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا اور ان کے قلع قمع اور ریاست کی رٹ بحال کرنے کے لیے مسلح آپریشن کرنا پڑے تھے۔
اس حقیقت سے اب پاکستان کا ہر باسی آگاہ ہو چکا ہے کہ پاکستان شدید معاشی و اقتصادی مشکلات کا شکار ہے، ان مشکلات کی وجہ سے ہمارے ملک کو بار بار عالمی اقتصادی اداروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے، دوست ممالک سے عبوری امداد حاصل کرنا پڑتی ہے اور دوسرے ممالک کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتے ہیں۔ یہ سلسلہ اسی وقت تھمے گا جب پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھے گی، بے روزگاری کم ہو گی اور برآمدات میں اضافہ بھی ممکن ہو گا، سرمایہ کاری کے لیے ایک پُر امن اور پُر سکون ماحول کا ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے جبکہ ہمارا ملک گزشتہ کم و بیش دو دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے اور شر پسند عناصر وقتاً فوقتاً اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے کارروائیاں کرتے رہتے ہیں، دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ پائیدار امن دہشت گردی کے خاتمے سے مشروط ہے۔
ماضی میں ہونے والے ملٹری آپریشنوں کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ کوئی بڑی یا وسیع مہم چلانے کے قابل نہیں رہے، اس کے باوجود دہشت گردوں کی باقیات ملک میں موجود اپنے سہولت کاروں کی مدد سے دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔ ان کارروائیوں کے سدِ باب کے لیے ہی 2017ء میں آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا تھا جو کسی نہ کسی طور اب بھی جاری ہے، جو دہشت گرد مسلح آپریشنوں کی زد میں آنے سے بچ گئے تھے وہ اب ٹارگٹڈ کارروائیاں کر رہے ہیں، جن میں پاکستان میں سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے چینی حکام اور انجینئرز بھی شامل ہیں۔ اب تک یہاں چینی حکام اور ٹیکنیکل سٹاف پر متعدد دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں جن کی مختصر تفصیل اس طرح ہے:
26 مارچ 2024ء کو شانگلہ میں دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی چینی قافلے سے ٹکرا دی جس کے نتیجے میں پانچ چینی انجینئرز ہلاک ہو گئے۔کراچی میں 28 جولائی 2021ء کو نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک چینی شہری زخمی ہو گیا تھا۔
14 جولائی 2021ء کو ضلع کوہستان کے علاقے داسو میں چینی کارکنوں کو کام پر لے جانے والی بس میں بم دھماکے کے نتیجے میں نو چینی باشندوں سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں 19 اگست 2021ء کو چینی انجینئرز اور کارکنوں کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔کراچی میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کی ایک اور کوشش 23 نومبر 2018ء کو کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی صورت میں کی گئی جو پولیس کے مطابق ناکام بنا دی گئی تھی۔کراچی میں 30 مئی 2016ء کو گلشن حدید کے علاقے میں ایک چینی انجینئر کی گاڑی کو ریمورٹ کنٹرول بم دھماکے سے نشانہ بنایا گیا تھا،اس حملے میں چینی شہری اور ان کے ڈرائیور کو معمولی زخم آئے تھے۔
کراچی میں واقع چینی قونصل خانے کے باہر 23 جولائی 2012ء کو ایک بم دھماکہ کیا گیا تھا تاہم اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں مئی 2004ء میں چینی انجینئرز اور ٹیکنیشنز کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا، اس حملے میں تین چینی انجینئرز ہلاک ہوئے تھے۔
واقعات کی نوعیت اور معاملات کے تسلسل کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ تقریباً سارے ہی حملوں میں چینیوں کو بالقصد نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور اس بارے میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ ان حملوں کے پیچھے وہ طاقتیں سرگرم ہیں جو پاکستان کو کسی بھی حوالے سے ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتیں۔ آپریشن عزمِ استحکام کی جو سیاسی مخالفت کی جا رہی ہے اس کے پس منظر میں ماضی میں کیے جانے والے آپریشنوں کے اثرات و نتائج ہیں، ان آپریشنوں کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کمر تو ٹوٹی لیکن جن علاقوں میں یہ آپریشن ہوئے وہاں کے رہنے والوں کا بھی خاصا مالی نقصان ہوا۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جو اپوزیشن جماعت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی سے جو صوبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان ہیں۔
آپریشن عزمِ استحکام ملکی سلامتی و امن کے لیے بے حد ضروری ہے لیکن اس طرح کے فیصلوں کے لیے حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق رائے ہونا چاہے، افواج پاکستان نے اس ملک اور قوم کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں،یہ قربانیاں رائیگاں نہ جائیں اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی اور سماجی سطح پر مقبول قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔ آخری بات یہ کہ اپنے گھر اور اس کے معاملات کا ہمیں خود ادراک اور احساس ہونا چاہیے، کسی دوسرے ملک کو یہاں آ کر ہمیں یہ احساس نہیں دلانا چاہیے کہ ترقی کرنا ہے تو اپنے گھر کو ٹھیک کر لیں، ہمیں خود یہ پتا ہونا چاہیے کہ اپنا گھر کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے اور جب ہمارے اندر یہ جذبہ پیدا ہو جائے گا ہمارے قدم خود بخود ترقی کی منزل کی جانب اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔