پولیس مقدمات کے اندراج سے گریزاں کیوں  ؟

  پولیس مقدمات کے اندراج سے گریزاں کیوں  ؟
  پولیس مقدمات کے اندراج سے گریزاں کیوں  ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پولیس کا فرض ہے مدآپ کی۔یہ نعرہ تو آپ نے ضرور سنا ہو گا؟ مگر اس نعرے کی حقیقت بھی ہمارے سیاسی لیڈروں کے دعوؤں جیسی ہی ہے۔ہمارے محکمہ پولیس کا اس نعرے سے عملاََ دوردورتک کا بھی واسطہ بھی نہیں ہے۔ پولیس کا سب سے بڑا فرض جرائم پر قابو پانا اور امن و مان قائم رکھنا ہے۔مگر ہمارے پولیس حکام جرائم پر قابو پانے اور جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کی بجائے صرف دلفریب نعروں سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے اور جرائم کو چھپاکر،مقدمات درج نہ کرنے اور بلندوبانگ دعوے کر کے اپنی کارکردگی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔مگر اصل صورتحال یہ ہے کہ قتل و غارت گری، ڈکیتی، چوری،راہزنی،غواء_ ، اغواء_  برائے تاوان،خواتین و بچوں سے زیادتی،گینگ ریپ سمیت سنگین جرائم کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہاہے۔ ڈاکوؤں کی واردوتیں دیکھیں تو لگتا ہے کہ ملک بھر بالخصوص پنجاب کے بڑے شہر ”ڈاکو راج“کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔شائد ہی کوئی فیملی ہو جو کہ ڈاکوؤں کا شکار نہ بنی ہو۔لوگ اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرتے۔ہر وقت دل میں کھٹکا لگا رہتا ہے کہ اب کے اب لٹے۔یہ صورتحال انتہائی تشویشناک سہی مگراس سے بھی ا فسوسناک رویہ ہماری پولیس کا ہے۔ پولیس ڈاکووں کے ہاتھوں لٹنے والے شہری کی بات تک نہیں سنتی کیونکہ اس سے متعلقہ پولیس کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے۔ پولیس کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ مقدمہ درج نہ کیا جائے۔متاثرہ شہری کو ٹرخا دیا جاتا ہے یا پھر تھانے کے اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ متاثرہ شہری خوار ہو کر مقدمہ درج کرانے سے توبہ کر لے۔لیکن اگر سفارش یا پھر ڈھیٹ قسم کے شہری سے جان نہ چھوٹے تو پولیس کی طرف سے لاکھوں کی واردات پر چند ہزار کے نقصان کا اور ڈکیتی کی بجائے چوری یا جرم میں تخفیف کر کے مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے۔پولیس اغواء برائے تاوان کا مقدمہ درج کرنے سے ہمیشہ گریزاں نظر آتی ہے جبکہ بچوں اور خواتین کے اغواء_  پر مقدمہ درج کرنے کی بجائے صرف گمشدگی کی رپٹ درج کر کے معاملہ نپٹا دیتی ہے۔صوبہ بھر میں بے شمارایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کی بروقت کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں سانحات کا سامنا کرنا پڑا۔اگر پولیس روائتی بے حسی کی بجائے بر وقت ایکشن لے لے تو ان واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔مگرپولیس حکام کے نزدیک جرائم کو چھپاکراورمقدمات درج نہ کر کے اپنی کارکردگی پیش کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔پولیس کی اس روش کی وجہ سے مجرمان کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے اور پولیس کی گرفت سے بچنے کے علاوہ ان کے حوصلے بھی بلند ہو رہے ہیں اور اس وجہ سے آج صورتحال یہ ہے کہ صوبہ بھر میں قتل و غارت گری، ڈکیتی،چوری،خواتین و بچوں سے زیادتی،گینگ ریپ،اغواء_  اور اغواء برائے تاوان سمیت سنگین جرائم کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیاہے۔مگر پولیس حکام کی جادوگری ملاحظہ فرمائیں کہ پولیس حکام کی طرف سے وزیر اعلی کو جو ڈیٹا بھجوایا جاتا ہے وہ اکثر اعدادو شمار کے حوالے سے درست نہیں ہوتا۔لاہور میں پیش آنے والے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران نے متعدد ایس ایچ اوصاحبان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے برطرف بھی کیا ہے اگر صوبہ بھر میں اس طرح کی کاروائیاں شروع کردی جائیں تو ان واقعات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔حال ہی میں تھانہ مذنگ میں ایک متاثرہ شہری کی بروقت مدد نہ کرنے اور ایف آئی آر سوشل میڈیا پر وائرل ہو نے پر ایس ایچ او مذنگ کو معطل کیا گیا ہے۔ شہری محمد آصف کی جانب سے19جون کو تھانے میں درج ایف آئی آر کے لیے درخواست آتی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ میرا بھانجا جس کی عمر 17سال ہے جو مذنگ اڈا چوک میں کھڑا موبائل فون پر بات کررہا تھا ایک نامعلوم شخص ہنڈا125پر آیا اورقیمتی موبائل چھین کرفرار ہو گیا۔ موقع واردات پر موجود گشت کرتی گاڑی م کو بروقت بتایا گیا مگر انہوں نے مجرم کو دکھائے جانے کے باوجود بھی اسے فالو کرنے سے معذرت کی اور جواب دیا ہم کچھ نہیں کرسکتے یہ ہمارا کام نہیں پھر 15پر کال کرنے پر 2 پولیس اہلکار آئے اور ساری معلومات لینے کے بعد ایف آئی آر درج کروانے کا بول گئے۔ سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے مجرم اور موقع پر پولیس کو بتائے جانے کی ویڈیو ثبوت کے لیے موجود ہیں جبکہ مریم نواز شریف صاحبہ کا ایمرجنسی بوتھ استمال کیا گیا مگر کسی نے رسپونڈ نہیں کیا اسے بھی فعال کروا کر شہریوں کے لیے آسانی پیدا کی جائے۔ متاثرہ شخص محمد آصف نے رابطہ کرنے پر بتا یا ہے کہ وہ الیکٹرونس کا کاروبار کرتے ہیں جیسا کہ ایف آئی آر میں بیان کیا گیا ہے موبائل چھیننے مقامی پولیس اسٹیشن درخواست دے کر ایف آئی آر کا مطالبہ کیا گیا۔ تھانے میں موجو د سہولت کار آفیسرانسپکٹر معظم سے ایف آئی آر درج نہ ہونے کی شکایت کی جنہوں نے اپنے موبائل فون سے ایس ایچ او مذنگ سید قمر عباس سے بات کروائی جنہوں نے مقدمہ درج کرنے کی بجائے ٹال مٹول سے کام لینا چاہا مگر میں مقدمے کے اندراج پر بضد تھا جس پر ایس ایچ او نے دھمکی دی جاؤ جو کرنا ہے کر لو یہ مقدمہ درج نہیں ہو گا۔محمد آصف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہے۔ بالآخر وہ ایف آئی آر درج کروانے میں نہ صرف کامیاب ہوگیا بلکہ انہوں نے اپنی ساری کہانی ایف آئی آر سمیت سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی اور محکمے میں تھرتھلی مچ گئی اس میں وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے شہریوں کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی بھی توہین ہورہی تھی۔جیسے ہی یہ واقعہ ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کے نوٹس میں آیا انہوں نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے ایس ایچ اومذنگ کو معطل کرکے انکوائری شروع کردی ہے۔محمد آصف کے مطابق ایف آئی آر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے کے بعد معطل ایس ایچ او اورمقامی ڈی ایس پی بلال خان اس کی منت سماجت پر اتر آئے ہیں کہ انہیں معافی دلوائی جائے۔ڈی آئی جی آپریشنز کی کسی ایس ایچ او کے خلاف یہ پہلی کارروائی نہیں ہے۔اس سے قبل بھی وہ ایس ایچ او کاہنہ،ہربنس پورہ اور ایس ایچ او گلشن اقبال سمیت متعدد اہلکاروں کے خلاف کارروائی عمل میں لاچکے ہیں جو کہ ایک احسن اقدام ہے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے صوبہ بھر کے تمام ذمہ داران افسران کو کارروائیوں کا آغاز کرنا چاہیے۔

مزید :

رائے -کالم -