جیلوں سے بیرونی رابطے؟
یہ بات خوش آیند ہے کہ پنجاب کی جیلوں کے لئے ریفارمز بھی لائی جا رہی ہیں اور قیدیوں کے لئے سہولتو ں میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے مگر جن اہلکاروں نے ان ریفارمز اور سہولتوں کو عملی جامہ پہنانا ہے ان کے معیار، تربیت اور مراعات کو بہتر بنانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا،یہ اسی طرح ہے کہ پنجاب میں تھانوں کو فائیو سٹار ہوٹلوں کی لابیوں کی طرز پر خوبصورت بنا دیا گیا ہے مگر وہاں کام کرنے والے پولیس عملے کی حالت ویسی کی ویسی ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب کو پولیس اور جیل کے جونیئر عملے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے،ان کے اوقات کار کا جائیزہ لینا چاہئے،انکی ترقیوں اور سہولتوں کو بہتر بنانا ہو گا،پولیس اور جیل کے بڑے افسران تو مراعات یافتہ بن گئے ہیں،جو اچھی بات ہے مگر چھوٹے افسروں اور عملے کے لئے بھی کوئی تازہ ہوا کا جھونکا آنا چاہیے،اکثر جیلوں کے سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ (ایگزیکٹو)تو سرکاری مراعات کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری مراعات بھی دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہے ہیں مگر باقی عملہ صرف ان کا منہ ہی دیکھتا ہے۔
تازہ ترین خبر ہے کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف نے جیل ریفارمز کا جامع پلان طلب کر لیا ہے، اس سلسلے میں ہونے والے اجلاس میں فیصل آباد اور راولپنڈی میں ویمن جیلوں کے قیام کی اصولی منظوری دی گئی اور جیلوں سے جرائم پیشہ افراد کے ممکنہ بیرونی رابطوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ نئی جیلوں کا قیام خوش آئند کہ ان فیصلوں پر عمل درآمد کے نتیجے میں قیدیوں خصوصاً خواتین قیدیوں کو سہولتیں میسر آئیں گی اوران کے لیے قیدکا پُر اذیت دور گزارنا قدرے آسان ہو جائے جائے گا اور ممکن ہے مجوزہ جیل اصلاحات کے نتیجے میں قیدیوں میں اخلاقی اصلاح کا کوئی پہلو بھی نکل آئے لیکن اس کے ساتھ جیلوں سے جرائم پیشہ افراد کے ممکنہ بیرونی رابطوں پر تشویش کا جو اظہار کیا گیا ہے اس کی سمجھ نہیں آئی۔
ہمارے موجودہ اور سابق تمام حکمران جیلوں میں رہ چکے ہیں،ان سب کو اپنے اقتدار کے دوران ہی تشویش کیوں ہوتی ہے اور اگر تشویش ہوتی ہے تو اب تک اس کا خاتمہ کیوں ممکن نہ ہو سکا؟موجودہ حکمران بھی جیلوں میں رہے ہیں وہ جیلوں کے ماحول سے پوری طرح واقف ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ جیل انتظامیہ زورآور قیدیوں کے ساتھ کس طرح پیش آتی ہے اور بے کس و مجبور قیدیوں پہ کیا گزرتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ قیدیوں کے بیرونی رابطوں پر تشویش کا اظہار تو وہ کرے جس نے یہ بات پہلی بار سنی ہو۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2014ء میں سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی میں قید سنگین مقدمات میں ملوث قیدیوں و حوالاتیوں کی جانب سے موبائل فون کے ذریعے بیرونی دنیا سے وسیع پیمانے پر رابطوں کا انکشاف ہوا تھا، سیپشل برانچ نے جیل کے اندر استعمال ہونے والے 3 موبائل فون نمبروں کا سراغ لگا کر کمپنیوں سے مکمل ڈیٹا حاصل کر کے رپورٹ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کو ارسال کی، جس میں انکشاف کیا گیا کہ جیل میں بھاری اخراجات سے جیمرز نصب کیے گئے، اس کے باوجود جیل کے عملے کی مبینہ ملی بھگت سے ایک ماہ کے دوران 4 ہزار سے زائد کالیں کی گئیں۔ اس وقت وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ تھے اور آئی جی پنجاب جیل خانہ جات اس وقت بھی موجودہ آئی جی میاں فاروق نذیر تھے، اس معاملے کی کیا تحقیقات کی گئی؟ حکومت کو کیا رپورٹ ارسال کی گئی؟ اور اس خوفناک انکشافات پر مبنی رپورٹ پر کیا ایکشن لیا گیا، اس بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں، بس صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اندازہ یہ ہے کہ اگر اس وقت کوئی ایکشن لیا گیا ہوتا تو آج تشویش کا اظہار کرنے والوں کو تشویش کا اظہار نہ کرنا پڑتا۔
پنجاب کی کئی جیلوں میں تو اب بھی موبائل فون استعمال ہو تے ہیں کیونکہ یہ موبائل فون جیل عملے کی کمائی کا ذریعہ ہیں،ایک جیل سپرنٹنڈنٹ نے تو ماضی میں ایک بڑی جیل کے اندر موبائل فون استعمال کرنے کا وقت بھی مقرر کر رکھا تھا اور اس وقت فون جام کرنے والے آلات کو ہی بند کر دیا جاتا تھا اور جیل میں موبائل سہولت رکھنے والے قیدیوں کو دو گھنٹے تک اجازت ہوتی تھی کہ جہاں چاہے بات کریں۔ابھی کچھ عرصہ قبل ساہیوال کی جیلوں کے اندر باہر ایک درخت سکینڈل کا انکشاف ہوا تھا جس میں متعلقہ افسروں نے ہزاروں درختوں کو ایسے غائب کر دیا جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں،موجودہ آئی جی جیل وہاں سپرنٹنڈنٹ کے طور پر بھی تعینات رہے ہیں،انہوں نے تو اس وقت ایک ایک درخت گنا تھا اور بعض تو اپنے ہاتھوں سے بھی لگائے تھے،معلوم نہیں اس خرد برد کا کیا بنا؟
جاوید ہاشمی اپنی کتاب ہاں میں باغی ہوں میں رقمطراز ہیں،خطرناک قیدیوں کے لیے پھانسی گھاٹ کے ساتھ ایک الگ سیل بنایا گیا ہوتا ہے جسے سکیورٹی سیل کہا جاتا ہے، یہ جیل کے اندر ایک اور جیل ہے، اس کی دیواروں پر خار دار تاریں لگا کر اس میں بجلی چھوڑ دی جاتی ہے، پانچ سو قیدیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے جتنا عملہ درکار ہوتا ہے، اتنا اِس ایک سیل کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے، اس سیل میں رہنے والے قیدی کے رابطے پوری جیل سے منقطع کر دیئے جاتے ہیں تاکہ سیل کے اندر کے واقعات مزید خفیہ رہ سکیں۔کیا یہ حیرت انگیز نہیں کہ اس کے باوجود خطرناک قیدیوں کے بیرونی دنیا سے رابطے ہو جاتے ہیں؟ اور کیا یہ سوال نہیں اٹھتا کہ جیل کی انتظامیہ کے بغیر ایسے رابطے کیسے ممکن ہیں؟
ایک رپورٹ تو ابھی منظر عام پر آئی ہے کہ ایک بڑی جیل میں قیدیوں اور حوالاتیوں کی جانب سے دوران اسیری موبائل فونز، منشیات اور دیگر ممنوعہ اشیا استعمال کیے جانے کے واقعات ہو رہے ہیں، سخت سکیورٹی، واک تھرو گیٹس، میٹیل ڈیٹیکٹرز اور سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے باوجود جیلوں میں موبائلز، منشیات اور دیگر ممنوعہ اشیا کے داخلے کو نہ روکا جا سکا۔ جیل میں داخل سے قبل تین مختلف گیٹوں اور چیک پوسٹوں سے گزرنے کے بعد سرچنگ روم میں قیدیوں اور حوالاتیوں کو لایا جاتا ہے جہاں ان کی مکمل اور جامع تلاشی لینے کے ساتھ واک تھرو گیٹ اور میٹل ڈیٹیکٹر سے بھی سرچنگ کی جاتی ہے اس کے باوجود جیلوں کے اندر حوالاتیوں اور قیدیوں تک موبائلز، منشیات، اور دیگر ممنوعہ اشیا کا پہنچ جانا جیلوں کی سکیورٹی پر کئی سوالات کھڑے کر رہا ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ خود سیاست دانوں کو کسی مقدمے میں جب جیل جانا پڑتا ہے تو کیا ان کے اپنے عزیز رشتے داروں سے رابطے نہیں رہتے؟ کیا ان کے لیے گھروں سے پکا ہوا کھانا نہیں آتا؟ کیا وہ جیلوں میں مراعات اور خصوصی پروٹوکول کے خواہاں نہیں ہوتے؟ ان سے بھی کوئی جرم ہی سرزد ہوا ہوتا ہے جس کی پاداش میں انہیں پابندِ سلاسل کیا جاتا ہے۔جیل اسو قت تک درست ہے جب اس کی حفاظت پر مامور عملہ ایمان داری سے اپنے فرائض سرانجام دے گا اور کھانے پینے جیسی سہولیات کی فراہمی عزیز رشتے داروں سے ملاقات سمیت ہر معاملے کو ہر قدم پر کمائی کا ذریعہ نہیں بنائے گا۔