اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 43

اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 43

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وحشی حبشی غلام جس کو قنطور نے رتھ پر گزرتے دیکھا تھا۔ اس عورت کی مسہری کے پاس قالین پر دوزانو بیٹھا تھا۔ فضا میں بوجھل اور الم انگیزسی خاموشی طاری تھی۔ قنطور سمجھ گیا کہ کوئی دردناک بات ہوگئی ہے۔ مسہری پر بیٹھی ہوئی حسین عورت کے کانوں میں بندہ نہیں تھا مگر بندے کی خوشبو اسی عورت کے جسم سے آرہی تھی۔ 
قنطور سمجھ گیا۔ نفتانی یہی عورت ہے۔ اب وہ یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ وہاں کیا حادثہ ہوگیا ہے۔ جس کے باعث ماحول اس قدر سوگوار ہے۔ اتنے میں حسین عورت نے ایک آہ بھر کر حبشی غلام سے پوچھا۔ 
’’ کیا کشان کے وہاں سے فرار کے کوئی سبیل نہیں ہوسکتی؟‘‘
حبشی غلام نے آہستہ سے نفی میں سرہلایا اور پھر بوجھل آواز میں کہا۔’’ اپنے مالک پر اور آپ پر میری جان قربان ۔ مگر میں اپنی جان دے کر بھی اپنے مالک کی زندگی نہیں بچا سکتا۔‘‘
حسین عورت ایک لمحے خاموش رہی۔ پھر کہنے لگی۔ 
’’ کیا میری ساری دولت، میرے سارے زیورات اور ہیرے جواہرات بھی میرے خاوند کو بادشاہ کی قید سے نہیں نکال سکتے؟‘‘

اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 42 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حبشی غلام نے ادب سے کہا۔ ’’ میرا مالک کشان بادشاہ بخت نصر کی قید میں ہے۔وہ بادشاہ کا خاص قیدی ہے۔ بادشاہ میرے مالک کو اسی تانبے کے بیل کے اندر ڈال کر آگ میں پکانے والا ہے جو میرے مالک نے بادشاہ کی تفریح طبع کے لئے تیار کیا تھا۔ اس لئے میرا مالک بادشاہ کی خاص قید میں ہے مالکن! اس تک رسائی نا ممکن ہے۔‘‘ 
ان کی باتوں سے قنطور کو علم ہوا کہ اس حسین عورت نفتانی نے حویلی کے مالک کشان سے شادی کرلی تھی اور اس کا خاوند کشان شاہی دربار میں شاہ بابل بخت نصر کا خاص مشیر تھا جو بادشاہ کو جنگ میں طرح طرح کے مہلک ہتھیار ایجاد کرنے میں صلاح مشورہ دیتا تھا۔ بخت نصر ایذا پسند تھا اور اپنے دشمنوں کی طرح طرح کی اذیتیں دے کر ہلاک کرنے میں اسے خاص لطف آتا تھا۔ اس نے اپنے مشیر خاص کشان سے کہا کہ وہ اس کے دشمنوں کو ہلاک کرنے کے لئے کوئی نادرالوجود قس کی شے ایجاد کرے۔ چنانچہ کشان نے تانبے کا ایک بیل بنایا جس کے اندر خاص قسم کی کیلیں لگائیں اور بادشاہ کو پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اگر آپ اس تانبے کے بیل کے اندر اپنے دشمن کو ڈال کر نیچے آگ جلائیں تو تانبے کے گرم ہوجانے پر بدقسمت قیدی کی چیخیں بیل کے اندر خاص قسم کے کیلوں سے ٹکرا کر جب بیل کے گلے میں سے باہر نکلیں گی تو ایسی آوازیں پیدا ہوں گی جیسے بیل ڈکرا رہا ہے۔ شاہ بابل بخت نصر اس ایجاد پر بہت خوش ہوا ۔ اس نے اسی وقت حکم دیا کہ اس خونی بیل کو آزمایا جائے۔ دربار میں موت کی خاموشی چھا گئی۔ یہ کوئی سھی ہوئی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگا کیونکہ وہاں اس وقت بادشاہ کا کوئی دشمن موجود نہیں تھا کہ جس کا تانبے کے خونی بیل کے اندر ڈال کر ہلاک کیا جائے۔ 
بخت نصر نے خطرناک دزدیدہ نگاہوں سے اپنے مشیر خاص کشان کی طرف دیکھا اور اعلان کیا کہ بیل کو شاہی محل کی چھت پر پہنچا دیا جائے اور پورے چاند کی رات کو اس میں ہمارے مشیر خاص کشان کو ڈال کر اس پر پہلا تجربہ کیا جائے درباریوں نے اطمینان کا سانس لیا لیکن کشان کا اوپر کا سانس اوپر ہی رہ گیا۔ اس کا رنگ فق ہوگیا۔ وہ نیم بے ہوش ہو کر لڑکھڑانے ہی والا تھا کہ دو سپاہی فوراً آگے بڑھے اور کشان کی مشکیں کس کی شاہی قید خانے کی طرف لے گئے۔ کشان کی بیوی نفتانی پر جو میری محبوبہ بھی تھی اور جس کے بارے میں مجھے کچھ علم نہیں تھا‘ اپنے خاوند کے بارے میں یہ دلدوز خبر سن کر گویا بجلی گر پڑی۔ شاہ بابل کا حکم حرف آخر تھا اور اب اسے دنیا کی کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی تھی۔ قنطور دیوار کے ریشمی پردے کے پیچھے سے اپنی چھوٹی سے سانپ والی گردن نکالے یہ رقت آمیز منظر دیکھتا رہا اور نفتانی اور اس کے حبشی وفادار غلام کے مابین ہونے والی باتیں سنتا رہا۔ جب حبشی غلام نفتانی کو اشکبار چھوڑ کر چلا گیا تو قنطور بھی واپس مڑا۔ وہ اسی طرح دیوار سے رینگتا ہوا برآمدے کی چھت کے اندرونی حصے گزر کر روشندان میں سے باہر نکل آیا اور حویلی کی دیوار کی جنگلی بیلوں میں رینگتا ہوا نیچے اتر آیا۔ اس نے اپنے گردن اٹھا کر ایک بار پھر باغ کا جائزہ لیا۔ وہاں کوئی انسان نظر نہیں آ رہا تھا۔ قنطور نے ایک ہلکی سی پھنکار کی آواز اپنے منہ سے نکالی اور دوسرے ہی لمحے وہ دوبارہ انسانی شکل میں واپس آگیا تھا۔ 
جب وہ میرے پاس گاؤں میں واپس آیا تو رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ میں کوٹھری میں شمع روشن کئے بے تابی سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ جب اس نے مجھے شروع سے آخر تک یہ ساری داستان الم سنائی تو پہلا صدمہ تو مجھے یہ ہوا کہ میری منگیتر نے مجھ سے بے وفائی کی تھی اور اب میری رقیب سے شادی کرلی تھی۔ دوسری صدمے کی بات یہ تھی کہ اس پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اس کا گھر اجڑ رہا تھا اور اس کا خاوند شاہی قید خانے میں بند اذیت ناک موت کا انتظار کر رہا تھا۔ میں اپنا صدمہ بھول گیا اور اپنی منگیتر پر ٹوٹی ہوئی ناگہانی آفت کا غم کرنے لگا۔
قنطور نے مجھے بتایا کہ نفتانی کی حالت رحم ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے خاوند کی موت کا صدمہ برداشت نہ کرسکے۔ یہ سن کر میرا دل دہل گیا۔ میں نے قنطور سے کہا۔ 
’’ میرے دوست ! اگرچہ نفتانی اب میری نہیں رہی کسی اور کی ہوچکی ہے لیکن میرے دل میں اس کی محبت کی شمع اس طرح روشن ہے۔ میں اسے مصیبت میں مبتلا نہیں دیکھ سکتا۔ میں اس کے خاوند کی جان بچانا چاہتا ہوں۔ ابھی چاند رات میں چھ روز باقی ہیں۔ کیا ہم کسی طریقے سے کشان کو شاہی قید خانے سے فرار نہیں کروا سکتے؟‘‘
قنطور سوچنے لگا۔ پھر بولا۔
’’ عاطون ! یہ کام بظاہر ہم ایسے دو محیر العقول طاقتوں کے مالک انسانوں کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے لیکن اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ شاہ بابل بخت نصر کا قید خانہ خاص اس کے شاہی محل کے نیچے تہہ خانے میں ہے جہاں ہم پہنچ سکتے ہیں مگر نفتانی کے خاوند کشان کو نکال نہیں سکتے۔‘‘
میں نے قنطور کا ہاتھ تھام لیا اور بڑی عاجزی سے کہا کہ میں ہر حالت میں نفتانی کے خاوند کی جان بچانا چاہتا ہوں۔ میں اس کا گھر برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا اور پھر کشان بے گناہ ہے۔ اس کا صرف اتنا قصور ہے کہ اس نے انسانوں کو ایک اذیت ناک موت سے ہمکنار کرنے والا بیل ایجاد کیا اور محض شاہ بابل کی خوشنودی کے لئے ہو سکتا ہے شاہ بابل کشان کو تانبے کے بیل میں ڈال کر ہلاک کروانے کے بعد کئی دوسرے انسانوں کو اس کی بھینٹ چڑھائے۔ اس اعتبار سے ہمیں چاہیے کہ نہ صرف کشان کو اس الم ناک موت سے بچائیں بلکہ اس منحوس اور انسان کش بیل کو بھی توڑ پھوڑ ڈالیں۔ قنطور کسی گہری سوچ میں گم تھا لگتا تھا کہ وہ کسی ترکیب ، کسی منصوبے پر غور کر رہا ہے۔ پھر وہ سر اُٹھا کر میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ تمہاری باتوں نے مجھے قائل کیا ہے عاطون ، میں اب اس امریر غور کر رہا ہوں کہ ایسا کونسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ ایک تیر سے دو نشانے ہوں۔ کشان کی جان بھی بچ جائے اور تانبے کے خونی بیل کو بھی تباہ کر دیا جائے۔ اس میں تو کسی شک و شبے کی گنجائش ہی نہیں کہ کسی نہ کسی طرح تہہ خانے تک تو میں پہنچ سکتا ہوں لیکن نفتانی کے خاوند کشان کو تہہ خانے سے کیوں کر فرار کرایا جائے؟ یہ غور طلب بات ہے۔‘‘
ہم کوٹھری میں شمع روشن کئے دیر تک بیٹھے اس مسئلے پر سوچ و بچار کرتے رہے۔ آخر قنطور کے دماغ میں ایک ترکیب آگئی۔ ترکیب واقعی بڑی معقول اور کارکردگی لگتی تھی۔ ہم نے وفری طور پر اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ دوسرا روز اس پر اسرار ترکیب کی مزید تفصیلات طے کرتے گزر گیا۔ جب سورج مغربی ریت کے ٹیلوں میں غروب ہوگیا تو اسکیم کے مطابق قنطور شہر بابل کے طرف روانہ ہوگیا۔ اس کے سامنے ویران صحرا پھیلا ہوا تھا۔ وہ سرپٹ گھوڑا دوڑاتا ہو اآدھی رات کے قریب بابل کے فصیل کے قرب و جوار میں پہنچ گیا۔ وسیع و عریض قدیم شر بابل کی چوڑی فصیل کے اوپر جگہ جگہ بروج میں مشعلیں روشن تھیں۔ یہاں شہر پناہ کے دفاعی مورچے بنے ہوئے تھے اور تیر اندازوں کے دستے تعینات تھے۔ 
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )