ایک دن ایک سوڈانی، جس کی کھڑکی کے نیچے کھڑے ہم یہ سب کچھ کر رہے تھے، غصے میں باہر نکل آیا اور عربی میں ہمیں خوب کھری کھوٹی سنائیں 

 ایک دن ایک سوڈانی، جس کی کھڑکی کے نیچے کھڑے ہم یہ سب کچھ کر رہے تھے، غصے میں ...
 ایک دن ایک سوڈانی، جس کی کھڑکی کے نیچے کھڑے ہم یہ سب کچھ کر رہے تھے، غصے میں باہر نکل آیا اور عربی میں ہمیں خوب کھری کھوٹی سنائیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:254
 ایک دن ایسے ہی موقعے پر ایک سوڈانی، جس کی کھڑکی کے نیچے کھڑے ہم یہ سب کچھ کر رہے تھے، غصے میں باہر نکل آیا اور عربی میں ہمیں خوب کھری کھوٹی سنائیں، جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہم لوگوں کی ان بے ہودہ حرکتوں کی وجہ سے اس کے آرام میں شدید خلل پڑ رہا ہے جبکہ اسے رات کی ڈیوٹی پر بھی جانا ہے۔ اس کا دکھ سمجھ میں آگیا تھا، ہم نے باقاعدہ اس سے معذرت کی اور پھر اپنا ڈیرہ اٹھا کر وہاں سے کچھ آگے ایک خالی پلاٹ میں لے گئے۔
 جب دیکھا کہ یہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے تو گھرسے چٹائی بھی اٹھا لائے اور چائے بھی کسی نہ کسی کے ہاں سے مہیا ہو جاتی تھی۔ ہماری اس بیٹھک کی مخالفت بھی نہیں ہوئی کیونکہ یہ علاقہ عام گھروں سے ہٹ کر کچھ دور تھا اور ہماری یہ چیخ و پکار کسی کے آرام میں خلل بھی نہیں ڈالتی تھی۔وہاں ہم رات گئے تک محفل جماتے اور ایک دوسرے سے خوشیاں بانٹتے بلکہ چھینتے تھے۔
 میں اپنے ان دوستوں کا سرسری سا تذکرہ کردوں جو پردیس میں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی رہے اور جن کے ساتھ ہم نے بے شمار چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور بڑے بڑے غم بانٹے تھے۔ آج بھی یاد داشت کے کسی کونے میں یہ سب موجود ہیں، وقتاً فوقتاً یہ وہاں سے نکل کر اصلی زندگی میں آ جاتے ہیں اور مجھے گھسیٹ کر پھر ماضی میں لے جا کر پرانے قصے لے بیٹھتے ہیں۔
 دیکھتے ہی دیکھتے ان میں سے ہمارے چار پانچ بہت ہی پیارے دوست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند مٹھی کی ریت کی مانند پھسل کر ہماری زندگیوں سے نکل گئے اور اب تو وہ بلانے پر بھی نہیں آتے،ہاں ان کی یادیں اکثر آجاتی ہیں، ہم سے ملنے، ہمیں اداس کرنے کے لیے۔ ان کی باتیں،ہنستی کھیلتی شکلیں اور قہقہے اب بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد مرتضیٰ صدیقی
یادوں کا ایک جھونکا آیا ہم سے ملنے برسوں بعد
پہلے اتنا روئے نہیں تھے جتنا روئے برسوں بعد
ہماری محفلوں کے رو ح رواں ہندوستان کے ایک ڈاکٹر صاحب تھے، ڈاکٹر محمد مرتضیٰ صدیقی صاحب! تعلق حیدرآباد دکن سے تھا اور اپنی قومیت کے حوالے سے وہ اتنے حساس تھے کہ کبھی بھی اپنے آپ کو ہندوستانی شہری کہلوانا پسند نہیں کیا،ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ میں آزاد ریاست حیدرآباد دکن سے تعلق رکھتا ہوں جس پر ہندوستان نے غاصبانہ قبضہ کر رکھاہے۔ پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستان، قائداعظم اور علامہ اقبال کے شیدائی تھے اور ان کی خاطر ہر وقت لڑنے مرنے کو تیار رہتے۔ صدیقی صاحب نے امریکہ سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی اور بعد ازاں پوسٹ  پی ایچ ڈی کیا ہوا تھا۔ وہ علم کا چلتا پھرتا دریا تھے، جس سے سیراب ہونے کے لیے اک جہان بیتاب رہتا تھا۔
 انھیں محفل لوٹنے کا فن خوب آتا تھا۔ کسی بھی مجلس میں، جہاں ایک بھی فرد ان کا یا ایک دوسرے کا شناسا نہ ہوتا تھا، وہ اپنی خوبصورت اور نپی تلی عالمانہ گفتگو سے فوراً ہی سب کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے تھے۔ مجھے یہ  اعتراف کرنے میں کوئی  امرمانع نہیں ہے کہ ہم سب نے زندگی میں ان کی صحبت میں رہ کر بڑا کچھ سیکھا تھا اور گنوایا کچھ بھی نہ تھا۔ علم، تجربے اور اخلاق کا ایسا حسین امتزاج تھا جہاں سے فکرو نظر کے موتی پھوٹتے تھے۔ 
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -