کس کی ہارہوئی ،کس کی جیت۔۔۔؟

کس کی ہارہوئی ،کس کی جیت۔۔۔؟
 کس کی ہارہوئی ،کس کی جیت۔۔۔؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

23دسمبر کو این اے 154لودھراں میں ہونے والا ایک بڑا انتخابی اور سیاسی معرکہ تھا۔ اگرچہ اس انتخابی و سیاسی دنگل میں 20امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل تھے، لیکن اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے صدیق بلوچ، جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے جہانگیر ترین نے اس معرکے میں حصّہ لیا۔ گو کہ یہ ضمنی الیکشن تھا، لیکن دونوں فریقوں نے اسے جنرل الیکشن کی طرح لڑا اور جیتنے کے لئے پورا زور اورتوانائیاں صرف کر دیں۔ کوئی بھی کسر نہ چھوڑی گئی، پورا میڈیا بھی اس ضمنی الیکشن کے پیچھے تھااور پل پل کی خبردے رہا تھا۔ الزامات بھی لگ رہے تھے اور ہر کوئی اپنے حریف کو نیچا دکھانے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کر رہا تھاجو اُس کے بس میں تھا۔ دونوں امیدواروں نے پیسے کا بھی بے دریغ استعمال کیا، اس طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مقرر کردہ اُس ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی کی، جس کے مطابق قومی اسمبلی کے کسی بھی حلقے سے انتخاب میں حصہ لینے والا کوئی بھی امیدوار15لاکھ روپے سے زیادہ رقم اخراجات کی مد میں استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ اس حلقے میں عمران خان خود آئے۔ نہ صرف ایک ریلی کی قیادت کی، بلکہ ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب بھی کیا۔ حمزہ شہباز شریف اور وفاقی و صوبائی وزراء اور مسلم لیگ(ن) کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی ایک پوری کھیپ بھی لودھراں میں موجود رہی اور ہر طرف ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دیا۔

عمران خان نے 2013ء کے جنرل الیکشن میں مبینہ انتخابی دھاندلی کے حوالے سے جو چار حلقے کھولنے کی بات کی تھی، اُن میں این اے 154 لودھراں کا یہ حلقہ بھی شامل تھا، جہاں سے صدیق بلوچ آزاد حیثیت سے قریباً 96000ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، جبکہ اُن کے مدمقابل پی ٹی آئی کے امیدوار جہانگیر ترین کو قریباً 86000ہزار ووٹ حاصل ہوئے، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو یہاں سے 45000ووٹ ملے۔ بعد میں صدیق بلوچ اپنی آزاد حیثیت ختم کر کے حکومتی جماعت مسلم لیگ(ن) میں شامل ہو گئے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں دوبارہ انتخاب ہوا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکم پر فوج بھی یہاں تعینات کی گئی تھی۔ ضمنی الیکشن والے دن فوج کی تعیناتی پی ٹی آئی کا بھی مطالبہ تھا۔ حلقے کے 303پولنگ سٹیشنوں پر سارا دن ووٹروں کا رش رہا۔ دونوں جماعتوں کے کارکن، سپورٹر اور ووٹر پُرجوش رہے اور ہاتھا پائی کے ایک دو واقعات کے سواکوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا۔مجموعی طور پر لودھراں میں امن رہا۔


پانچ بجے پولنگ ختم ہوئی تو ووٹوں کی گنتی شروع ہو گئی اور جوں جوں نتائج آنا شروع ہو ئے تو محسوس ہونے لگا کہ مسلم لیگ (ن) این اے 154سے اپنی نشست کھو رہی ہے۔ جہانگیر ترین ووٹوں کی گنتی میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار صدیق بلوچ سے کہیں آگے تھے۔ رات گئے تک جو آخری رزلٹ آیا، اُس نے نہ صرف پی ٹی آئی کی برتری ثابت کر دی ،بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ پی ٹی آئی جنوبی پنجاب میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔ کافی عرصے کے بعد پی ٹی آئی کو ایسی کامیابی نصیب ہوئی ہے، ورنہ ماضی کا رزلٹ گواہ ہے کہ پی ٹی آئی کراچی، پنجاب اور ہری پور سمیت ہر ضمنی الیکشن میں اپنی سیاسی مقبولیت کھوتی جا رہی تھی۔ لودھراں کے حوالے سے حکومتی جماعت بہت پُرامید تھی کہ صدیق بلوچ بڑے مارجن کے ساتھ کامیاب ہوں گے،مگر نتائج نے ثابت کیا کہ صدیق بلوچ اپنے مدمقابل پی ٹی آئی کے امیدوار جہانگیر ترین کے ہاتھوں بڑے مارجن کے ساتھ ہارے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے اس شکست کو تسلیم کیا ہے، جبکہ بڑے عرصے کے بعد پی ٹی آئی کے حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ا گر کہا جائے کہ پی ٹی آئی سیاست کو این اے 154میں کامیابی سے نئی زندگی ملی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ پے در پے شکستوں کے بعد پی ٹی آئی کے کارکن، سپورٹر اور ووٹر مایوس ہونے لگے تھے، لیکن اس ’’فتح‘‘ کے بعد وہ پھر سے چارج ہو گئے ہیں۔


لیکن ’’ابھی امتحان اور بھی ہیں‘‘ پی ٹی آئی اس کامیابی کو حرفِ آخر نہ سمجھے۔ وہ مزید کامیابیاں حاصل کرنا چاہتی ہے تو عمران خان کو اپنے سیاسی طرزِ عمل میں تبدیلی لانا ہو گی۔ وہ فکر بھی تبدیل کرنا ہو گی جو اُن میں پائی جاتی ہے۔ الزامات یا الزام تراشی کی سیاست کے بجائے انہیں اپنے منشور اور پروگرام سے عوام کو متاثر کرنا ہو گا۔ ایک صوبے میں عنان حکومت اُن کی جماعت کے پاس ہے۔ اگر 2018ء کے عام الیکشن تک خیبرپختونخوا کو ایک مثالی صوبہ بنانے میں کامیاب رہے اور اسے ایک فلاحی اور رفاہی صوبے کے طور پر پیش کیا تو پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بھی پی ٹی آئی کو پذیرائی حاصل ہو گی اور اُن کے لئے الیکشن جیتنا آسان ہو جائے گا۔ این اے 154کے ضمنی الیکشن میں حکومتی امیدوار کی ہار سے حکومتی جماعت کو بھی کچھ سبق حاصل کرنا چاہئے۔ اس حلقے میں وزیراعظم خود تشریف لائے۔ اڑھائی ارب روپے کا کسان پیکیج دیا۔ دیگر کئی ترقیاتی کام بھی شروع ہوئے، لیکن اس کے باوجود لوگوں نے انہیں پذیرائی نہیں دی۔ کیا صدیق بلوچ اپنے مدمقابل جہانگیر ترین کے مقابلے میں موزوں امیدوار نہیں تھے یا حلقے کے لوگوں نے مسلم لیگ(ن) کو ہی مسترد کر دیا۔ یہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لئے سوچنے کی بات ہے۔

مزید :

کالم -