معلوماتی سفرنامہ۔۔۔چھبیسویں قسط

معلوماتی سفرنامہ۔۔۔چھبیسویں قسط
معلوماتی سفرنامہ۔۔۔چھبیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اَلَےْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَشِےْد
ایک روز میں کیسا لوما (اس کا تفصیلی تذکرہ آگے آرہا ہے) جانے کے لیے گھر سے نکلا۔ڈاؤن ٹاؤن پہنچا تو روڈ کے دونو ں کناروں پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بیٹھے دیکھا۔ ارد گرد کی گلیاں پولیس نے بند کررکھی تھیں اور روڈ پر کوئی ٹریفک نہ تھا۔ شاید کوئی جلوس آرہا تھا۔ میں تجسس میں فٹ پاتھ پر آگے کی سمت بڑھتا چلاگیا۔ تھوڑی دیر میں دیکھا تو واقعی ایک جلوس آرہاتھا۔ مگریہ جلوس جنازے کا تھا۔ اور جنازہ شرفِ انسانیت کا تھا جو بڑی دھوم دھام سے نکل رہا تھا۔

معلوماتی سفرنامہ۔۔۔پچیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اوپر جو عنوان میں نے قائم کیا ہے یہ سیدنا لوطؑ کے وہ الفاظ ہیں جب ان کی ہم جنس پرست قوم کے افراد ان کے پاس دوڑے چلے آئے تھے کہ ان نوجوان خوبصورت لڑکوں کو ہمارے حوالے کردو جو تمہارے ہاں مہمان آئے ہیں۔ الفاظ کامدعا یہ ہے کہ کیا تم میں ایک آدمی بھی ایسا سلیم الفطرت نہیں جس پر اپنی حرکتوں اور اس خبیث فعل کی شناعت واضح ہو۔
مغرب میں فرد کی آزادی ایک بنیادی قدر ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں کئی اچھی چیزیں وجود میں آئیں وہاں جنسی بے راہروی میں یہ ہر حد پھلانگ گئے۔ میں پیچھے لکھ چکا ہوں کہ نکاح ہم جنسی کو بھی انہوں نے اب قانونی حیثیت دے دی۔ ایک طرف قانونی جنگ کے ذریعے اس طرح کی چیزوں کو سندِ جواز عطا کیا جارہا ہے تو دوسری طرف میڈیا اپنے سطحی مفادات کے خاطر ان کو خوب ابھارتا ہے۔ اس کے ساتھ انسانوں کی فطرت میں ان بے ہودگیوں کے خلاف جو مزاحمت ہے اسے دور کرنے کے لیے یہ لوگ اس طرح کی پریڈز نکالتے ہیں جیسی اس وقت میرے سامنے تھی۔ یہ ہم جنس پرست عورتوں کی سالانہ پریڈ تھی۔اس سے قبل ہم جنس پرستوں کے بارے میں میری رائے یہ تھی کہ یہ لوگ ایب نارمل ہوتے ہیں۔ مگر اس روز اس جلوس میں شامل عورتوں کی حرکتیں دیکھ کر میری یہ رائے یقین میں بدل گئی۔
ان کی بہت سی حرکات تو ناقابلِ بیان ہیں۔ جو قابلِ بیان ہیں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ شروع میں اسکوٹر سوار عورتیں تھیں، ان کے بعد مختلف ٹولیوں میں بینرز اٹھائے، زور دار میوزک کی آواز پر ناچتی، اچھلتی، کودتی عورتیں گزریں۔ بعض ٹاپ لیس تھیں اور بعض کے ساتھ بچے اور کتے بھی تھے۔ بیچ میں ایک سجی ہوئی گاڑی تھی جس میں دو عورتوں کا ایک نوبیاہتا (یہ اصطلاح کینیڈا کے حالیہ قانون کے حوالے سے استعمال کر رہا ہوں) جوڑا بیٹھا تھا۔
یہ جلوس اس شو کا ایک بہت چھوٹا سا ٹریلر تھا جو اگلے دن ہوا۔ اس دن کو یہاں پرائڈ ڈے پریڈ کے نام سے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ یہ ہم جنس پرست مرد وزن کی بہت بڑی مشترکہ پڑیڈ ہوتی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس دن پریڈ کو دیکھنے کے لیے 10لاکھ افراد ڈاؤن ٹاؤن کی سڑکوں پر جمع تھے۔ شہر کے مےئر نے بھی پریڈ میں شرکت کی۔ مجھے عام لوگوں سے بات کرکے اس کا احساس ہوا کہ حکومت، میڈیا اور سیاستدانوں کی طرف سے جس طرح ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے اس کے نتیجے میں اب اس معاشرے میں بالعموم اس فعل اور اس کے مرتکبین کو قبو ل کرلیا گیا ہے۔ اس سے بڑھ کر مغربی تہذیب کے زیرِ اثر دنیا بھر میں اس چیز کو فروغ مل رہاہے۔ خود ہمارے پڑوس میں اس موضوع پر فلمیں بنائی جارہی ہیں جنہیں ہمارے ملک میں بھی گھر گھر شوق سے دیکھا جاتا ہے۔
کیسا لوما
کسی عباسی خلیفہ غالباً ہارون الرشید نے ایک شاندار محل بنایا۔ اس کی تکمیل کے بعد اس نے ایک بزرگ کو بلاکر یہ محل دکھایا اور دریافت کیاکہ آپ کو ا س محل میں کوئی نقص نظر آتا ہے؟ بزرگ نے جواب دیا کہ ہاں ایک کمی ہے ہوسکے تو اسے دور کردیں۔ وہ یہ کہ محل آپ کے پاس ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اگر یہ رہ گیا تو آپ نہیں رہیں گے۔ یہ واقعہ ٹورنٹو میں واقع کیسا لوما پر پورا صادق آتا ہے۔کیسا لوما اسپینش زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پہاڑی کے محل کے ہیں۔ یہ محل بیسوی صدی کے آغاز پر سرہنری مل پیلٹ نے بنوایا تھا۔ یہ کینیڈا کا بہت بڑا سرمایہ دار اور بارسوخ شخص تھا۔ انگلینڈ کے شاہ ایڈورڈ ہفتم سے نائٹ کا خطاب پانے والا یہ شخص فوج میں میجر جرنل کے عہدے پر فائز رہا۔بیسویں صدی کے آغاز میں ٹرانسپورٹ، جائیداد، انشورنس اور سب سے بڑھ کر بجلی کی فراہمی کے کاروبار میں اس شخص نے بے حد دولت کمائی۔
اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ قرونِ وسطیٰ کے یورپی طرزِ تعمیر کے مطابق ایک عظیم الشان محل ایک بلند پہاڑی پر بنایا جائے تاکہ پورے شہر کا وہاں سے نظارہ کیا جاسکے۔ کئی ایکڑ پر پھیلے ہوئے اس محل کی تعمیر کا آغاز 1911 میں ہوا اور تین سال میں 300 آدمیوں کی شب و روز محنت کے بعد اس زمانے کے 35 لاکھ ڈالر میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔اس نے اور اس کی بیوی لیڈی میری پیلٹ نے اس عظیم الشان محل کو بڑے ارمانوں سے سنوارا۔ یہ ایک طرف یورپ کے قدیم طرزِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ تھا اوردوسری طرف دورِ جدید کی ہر سہولت وہاں مہیا کی گئی تھی۔ اندازہ کیجیے کہ اس زمانے میں بھی 59فون محل میں موجود تھے جن میں سے ایک باتھ روم میں بھی تھا۔ مگر ان میاں بیوی کو اس محل میں دس سال بھی رہنا نصیب نہ ہوا۔ سر ہنری پیلٹ کا کاروبار خسارے میں چلا گیا اور آخر کار اس کے لیے یہ محل سفید ہاتھی بن گیا۔ چنانچہ اسے یہ محل واجب الادا قرضوں کے بدلے میں شہر کی انتظامیہ کے حوالے کرکے ایک اپارٹمنٹ میں منتقل ہونا پڑا۔
آج یہ محل سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے جہاں چالیس ہزار لوگ سالانہ اسے دیکھنے آتے ہیں۔ مگر افسوس اسے تاریخ، حسنِ تعمیر اور کلچر کا ایک نمونہ ہی سمجھتے ہیں۔ کوئی نہیں جو اس سے نصیحت حاصل کرے۔ دنیا کے دوسرے سِرے پر واقع سرزمینِ پاکستان کے ایک باکمال شاعر نے ایسی ہی صورتحال پر بڑی اعلیٰ رباعی کہی تھی۔ یہ رباعی گو کہ تاریخی شہر ہڑپہ کے بارے میں تھی لیکن ہر ایسی جگہ کے بارے میں بھی سو فیصد درست ہے۔
وہ شہرِ بے مثال ہڑپہ ہے جسکا نام
اس قرےۂ خموش و شہر ِ خراب سے
عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہوسکی
کلچر نکل رہا ہے منوں کے حساب سے
محل کی تفصیلات
اب اس محل میں کوئی نہیں رہتا بلکہ یہ ایک مقامی کلب کی ملکیت ہے جس نے دس ڈالر ٹکٹ لگاکر اسے ایک تماشہ گاہ بنادیاہے۔ گو یہ محل اپنی پرانی شان و شوکت کھوچکا ہے۔ مگر اب بھی اسے دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے زمانے میں یقیناََ یہ ایک شاہکار عمارت ہوگی۔ یہ ایک تین منزلہ عمارت ہے جس میں تہہ خانہ بھی موجود ہے۔ تہہ خانے سے 800فٹ لمبی ایک سرنگ نکلتی ہے جو زمین سے 18فٹ نیچے تعمیر کی گئی ہے۔ یہ سرنگ مشکل وقت میں خفیہ طریقے سے بھاگنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہ ایک اصطبل پر ختم ہوتی ہے۔ یہ سرنگ قرونِ وسطیٰ کے مخصوص حالات کا تقاضہ تھی۔ تاہم جدید دور کی رعایت سے اصطبل کے ساتھ گاڑیوں کا گیراج بھی بنادیا گیاہے۔
عمارت کے کمرے بڑے بڑے ہیں جہاں اس زمانے کا بہترین فرنیچر ابھی تک رکھا ہے۔ برطانیہ کے شاہی خاندان کے افراد کے لیے خصوصی کمرے بنوائے گئے تھے تاکہ وہ جب کبھی یہاں آئیں تو ان میں قیام کریں۔محل میں ایک بڑی لائبریری ہے جہاں مختلف علوم و فنون کی کتابیں رکھی گئی ہیں۔ سر ہنری پیلٹ کے فوجی پس منظر کے اعتبار سے ایک بڑا میوزیم بھی موجود ہے جس میں اس کے زیرِاستعمال رہنے والی رائفلیں وغیرہ رکھی گئی ہیں۔ محل سے ملحق ایک بہت بڑا باغ ہے جس میں فوارے اور رنگ برنگے پھول لگے ہوئے ہیں۔تاہم باغ صرف گرمیوں میں کھلتا ہے۔اسی لیے اس وقت کھلا تھا۔ محل کی ایک اور خصوصیت اس کے دو بڑے مینار ہیں۔ جن سے پورے شہر کا شاندار نظارہ کیا جاسکتاہے۔
اسے دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں سیاح آئے ہوئے تھے۔ ایک اچھا انتظام یہ تھا کہ سیاحوں کو ایک نقشہ اور موبائل فون دے دیا جاتا۔ نقشے میں ہر کمرے کا نمبر ہوتا جسے فون پر دبانے سے اس کمرے کے متعلق تمام تر تفصیلات بیان کردی جاتی۔ یہ معلومات کئی زبانوں میں دستیاب تھیں۔ میں یہاں کافی دیر رہااور محل کے تمام حصوں میں گھوما۔ سرنگ اور مینار مجھے سب سے زیادہ غیر معمولی لگے۔ مینار سے پورے شہر کا نظارہ ممکن تھا۔جبکہ سرنگ میں چلنا ایک بڑا دلچسپ تجربہ تھاگو کہ وہاں چلتے ہوئے گھٹن کا احساس بھی ہوا۔جن لوگوں کو قدیم یورپی فنِ تعمیر میں کوئی دلچسپی ہو یا اسلامی فنِ تعمیر سے اس کا موازنہ کرنا چاہتے ہوں ان کے لیے یہ ایک اچھی جگہ ہے۔ میرا یہاں جانے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ عبرت حاصل کروں اور یہ دیکھوں کہ اس محل میں بھی اور ہر اس گھر میں جسے دو افراد اپنی جنت کے طور پرتعمیر کرتے ہیں ایک بنیادی خامی ضرور ہوتی ہے۔ محل نہیں رہتا یا محل والے نہیں رہتے۔
کینیڈا میں کھانے پینے کے مسائل
مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے کھانے کا مینو اللہ میاں نے خود سیٹ کیاہے۔اس مینومیں چند چیزیں حرام قرار دے دی گئی ہیں۔ ان میں سرِ فہرست سوریاخنزیر کا گوشت ہے۔مسلمانوں کو اس سے اتنی کراہیت ہے کہ کوئی مسلمان زنا کرسکتا ہے، سود کھا سکتا ہے ، شراب پی سکتا ہے مگر سور کا گوشت نہیں کھاسکتا۔ یہاں موجود مسلمانوں میں اس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں کہ سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس میں اس کی آمیزش ہوگی وہ ناجائز ہے۔ تاہم یہاں دستیاب دیگر حلال جانوروں کے گوشت میں دو ایسی چیزیں موجود ہیں جو قرآن میں ضروری قرار دی گئی ہیں لیکن یہا ں نہیں کی جاتیں۔ اول یہ کہ جانور کا تذکیہ (المائدہ 5:3) نہیں ہوتا۔تذکیہ کا مطلب یہ ہے کہ جانور کو اس طرح ذبح کیا جائے کہ اس کا خون اچھی طرح بہہ جائے۔جیسا کہ بقر عید پر ہر شخص دیکھتا ہے کہ جانور کی شہہ رگ کاٹ کر چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے جسم کا پورا خون بہہ جاتا ہے اور گوشت خون سے پاک ہوجاتا ہے۔ اسے ذبح کہتے ہیں۔جبکہ اونٹ کی صورت میں نحر کیا جاتا ہے۔ اس سے بھی یہی مقصد حاصل ہوتا ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ یہاں اللہ کا نام لیے بغیر جانور کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ایسے جانور کو کھانے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں منع کیا ہے (الانعام6:121)۔
تذکیہ کے سلسلے میں سنا ہے کہ یہاں صحت کے نقطۂ نگاہ سے جانور کے خون بہانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ البتہ دوسرا مسئلہ بہرحال موجود ہے۔ اس سلسلے میں عرب علما کے زیرِ اثر ایک رائے یہ ہے کہ اس کو کھالینے میں حرج نہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ گوشت کھاتے وقت اس پر اللہ کا نام لے لیا جائے۔ دلیل کے طور پر ایک حدیث پیش کی جاتی ہے۔ جس کے مطابق حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ بدوی لوگ ہمارے پاس گوشت لایا کرتے تھے اور ہمیں خبر نہ ہوتی تھی کہ انہوں نے اس پر اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر کھالیا کرو، ( صحیح مسلم باب الضحایہ )۔ تاہم خود یہ حدیث ایک ایسی صورتحال کا ذکر کررہی ہے جہاںیہ بات غیر یقینی ہے کہ اللہ کا نام لیا گیا یا نہیں۔ لیکن یہاں تو یہ بات معلوم ہے کہ اللہ کا نام لیا ہی نہیں گیا۔سورۃ الانعام کی مذکورہ بالا آیت واضح طور پر کہتی ہے کہ ’’اور اس (جانور کا گوشت) مت کھاؤجس پر(ذبح کے وقت) اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یقیناََ یہ فسق کا کام ہے‘‘۔اگر کھاتے وقت اللہ کا نام لینے سے مسئلہ حل ہوجاتاتو آیت کا نزول ہی بے معنی ہے یا پھر آیت کو اس طرح ہونا چاہیے تھا کہ اللہ کا نام لیے بغیرگوشت مت کھایا کرو۔لیکن ہمارے عرب بھائی کہتے ہیں کہ یہ مغرب ہے اور یہاں ایسا ہی گوشت دستیاب ہوتا ہے اور چونکہ دین میں آسانی ہے اس لیے ایسے گوشت کو کھالینے میں کوئی حرج نہیں۔ ان کے کہنے سے اور بالخصوص حدیث کے سننے کے بعد بیشتر پاکستانی حضرات بھی بے تکلف یہ گوشت کھانے لگے ہیں۔تاہم مذکورہ بالا اصول یعنی ’’دین آسان ہے ‘‘ کو بنیاد بنایا گیا تو گوشت ہی نہیں اور بھی بہت کچھ حلا ل ہونا شروع ہوجائے گا۔ رہی حدیث تو اس کا موقع محل میں واضح کرچکاہوں۔
بہرحال میں نے دونوں طرف کے دلائل سامنے رکھ دیے ہیں۔ قارئین خود فیصلہ کرسکتے ہیں۔ اس ساری بحث سے قطع نظر مسلمان اتنی بڑی تعداد میں یہاں آچکے ہیں کہ اب حلال کھانے پینے کی اشیا کا کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوتا۔ جگہ جگہ حلال گوشت دستیاب ہے اور مسلم ریسٹورنٹ بھی بڑی تعداد میں کھل چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی دکان سے فش برگر اور بغیر پنیر کا پزا کھا یا جاسکتا ہے۔ پنیر کے متعلق سنا یہی ہے کہ اس میں سؤر کی چربی کے اجزا ہوتے ہیں۔ کینیڈا میں قیام کے دوران میری پسندیدہ غذا کنگ برگر کی بین الاقوامی چین کا فش برگر تھا۔ فش برگر میں نباتاتی تیل استعمال کیا جاتا ہے۔

ستائیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)