کلام اقبال (شرح بال جبریل)غزل نمبر: 9 (2)
چھٹے شعر میں علامہ فرماتے ہیں:
اگرچہ بحر کی موجوں میں ہے مقام اس کا
صفائے پا کی طینت سے ہے گہر کا وضو
ایک گہر بحر کی اتھاہ گہرائیوں میں رہتا ہے اور سمندر کی تہہ میں بہت سی کثافتیں، عفونت، میل کچیل موجود ہوتا ہے لیکن چونکہ گہر فطری پاکی، اچھائی، رعنائی کی وجہ سے خود کو سمندر کی کثافتوں سے آلودہ نہیں کرتا اور اپنی رعنائی و خوبصورتی کو برقرار رکھتا ہے اور دیکھنے والوں کے لیے اس کی جاذبیت مستقل برقرار رہتی ہے۔
اسی طرح پاک طینت لوگ بھی دنیا کی آلودگیوں سے خود کو محفوظ رکھتے ہیں اور کبھی جھوٹی انا کے خول میں رہ کر اپنے مقصد حیات سے غافل نہیں ہوتے بلکہ دنیا کی دل لبھانے والی چیزوں کے درمیان رہ کر بھی اللہ کی بندگی اور وحدانیت کے پرستار رہتے ہیں۔اس شعر کا قرآنی محرک سورۃ آل عمران میں ہے۔ فرمایا:
ترجمہ: ’’لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں ، اولاد ، سونے چاندی کے ڈھیر، چنیدہ گھوڑے، مویشی، زرعی زمین بڑی خوش آئند اور پرکشش ہیں مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ اصل ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے‘‘: ساتویں شعر میں علامہ فرماتے ہیں:
جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے
نگاہِ شاعرِ رنگیں نوا میں ہے جادو!
شاعرِ رنگین نوا۔ جادو اثر والی شاعر کی آواز
شاعر کی آواز جادو کا سا اثر رکھتی ہے۔ اس کی نگاہ کائنات کے ظاہر پر پڑتی ہے تو اس کی ظاہری خوبصورتی ظاہری حسن کو دیکھتی ہے تو عام آدمی کی طرح وہ بھی اس کی خوبصورتی اور رعنائی سے متاثر ہوتا ہے لیکن وہ اس کی ظاہری خوبصورتی اور رعنائی سے محض متاثر ہو کر رہ نہیں جاتا بلکہ اس کی نگاہ اصل حقیقت کا ادراک کر لیتی ہے اور خالق کائنات کا شعور و ادراک اس کو حاصل ہو جاتا ہے جو اس کو خالق کائنات کی معرفت، پہچان اور شعور عطا کرنے میں ممدومعاون ہوتا ہے۔
اس لیے علامہ فرماتے ہیں کہ گل و لالہ خوبصورت پھول ہیں۔ ایک عام آدمی ان کی خوبصورتی کو دیکھ کر متاثر ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ان پھولوں کی خوبصورتی کو دیکھ کر یا خوشبو کو سونگھ کر تعریف کرے گا لیکن ایک شاعر جو ہر چیز کی اصل تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ صرف پھولوں کی خوبصورتی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ اس پھول کی خوبصورتی کی تہہ میں چھپی ذات یعنی خالق کائنات کی ذات کا ادراک حاصل کر لیتا ہے۔
یہ اس شاعر کی صلاحیت کا کمال ہے۔جس طرح انسان کسی خوبصورت عمارت کو دیکھ کر اس عمارت کی خوبصورتی میں رطب اللسان ہوتا ہے تو بظاہر تو تعریف خوبصورت عمارت کی ہی ہوتی ہے لیکن اصلاً تعریف اس عمارت کے معمار کی ہوتی ہے جس نے اس کی تعمیر میں خوبصورتی پیدا کی۔
اسی طرح اس کائنات کی ہر چیز کا حسن دراصل اس کے خالق کی صفت خالقیت کا مظہر ہے۔ اس طرح نیک فطرت، نیک طبیعت، اعلیٰ صلاحیت، اعلیٰ ذوق کے حامل لوگ، متقی لوگ بھی بدکار اور دنیا داری کے ماحول میں رہ کر نیکی اور پاکیزہ زندگی کے خوگر رہتے ہیں اور اپنے دامن کو گناہوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔
قرآنی محرکات:علامہ اقبال کے ہاں اس غزل کا مرکزی خیال قرآن مجید کی سورۃ حشر کی آخری آیات میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’وہ ایسا معبود ہے کہ اس کے سوا کوئی اور معبود بننے کے لائق نہیں۔
وہ جاننے والا ہے پوشیدہ چیزوں کا اور ظاہر چیزوں کا، وہی بڑا مہربان اور رحم والا ہے۔ وہ ایسا معبود ہے کہ اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے، سب عیبوں سے پاک ہے، سالم ہے، امن دینے والا ہے، نگہبانی کرنے والا ہے، زبردست ہے، خرابی کا درست کر دینے والا ہے، بڑی عظمت والا ہے، اللہ تعالیٰ لوگوں کے شرک سے پاک ہے۔‘‘
ترجمہ: ’’سو تمہیں دنیا کی زندگی ہرگز دھوکے میں نہ ڈال دے اور دھوکہ دینے والا (شیطان) تمہیں اللہ سے ہرگز دھوکہ نہ دے‘‘۔۔۔اسی بات کو علامہ نے ایک اور جگہ بھی اس طرح بیان کیا:
نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا
لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الااللہ کا
توحید خالص اسلام کی اصل ہے۔ یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جس پر سارے اسلام کا دارومدار ہے۔ اسی نکتہ توحید پر اسلام کی عمارت وجود پکڑتی ہے۔ اگر اس سے نکتہ توحید نکال دیا جائے تو اسلام کی عمارت باقی نہیں رہتی۔
اسی کو رسول اللہﷺنے اپنے فرمان میں فرمایا:
ترجمہ: ’’روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ یہ شہادت دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کی جائے، زکوٰۃ ادا کی جائے، رمضان کے روزے رکھے جائیں اور بیت اللہ کا حج کیا جائے‘‘۔۔۔اگرچہ اسلام کے بنیادی ارکان پانچ ہیں، لیکن ان پانچوں میں بنیادی رکن عقیدہء توحید ہی ہے۔پہلے ہی شعر میں علامہ فرماتے ہیں:
مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو
پلا کے مجھ کو مؤ لا الٰہ الاّ ھو
صوفیاء کے ہاں اللہ کی ذات کے حوالے سے دو اصطلاحات بہت معروف ہیں۔ ایک وحدت الوجود، دوسرے وحدت الشہود۔ وحدت الوجود کا مطلب ہے کہ اس کائنات میں قائم بالذات وجود اللہ ہی کا ہے۔
’’اللّٰہ لا الٰہ الا ھو الحی القیوم‘‘ میں اسی بات کا تذکرہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی بس زندہ حقیقت ہے اور وہ قیوم ہے یعنی قائم بالذات ہے۔
وحدت الوجود کے قائل ہر موجود چیز کی نفی کرتے ہیں اور چشتیہ سلسلے کے لوگ اسی کو دور بھی کراتے ہیں۔دنیا کی تمام چیزیں آسمان، زمین حتیٰ کہ عرش و فرش کرسی سب اسی کے سہارے قائم ہیں۔
باقی تمام چیزیں اسی اللہ کی ذات کے سہارے سے قائم ہیں۔ وہ اللہ کسی کے سہارے سے قائم نہیں، اپنی ذات ہی میں قائم ہے۔ اسی لیے دنیا میں موجود ہر چیز کو فنا ہے، بقا صرف اللہ کی ذات کو حاصل ہے۔
دنیا عالم محسوسات ہے۔ ہر محسوس ہونے والی چیز دراصل نظر کا دھوکہ ہے۔قرآنی محرکات میں اس بات کی دلیل قرآن کی آیت ہے:
ترجمہ: ’’دنیوی زندگانی محض دھوکے کا اسباب ہے۔‘‘
مراد یہ ہے کہ جب ہر چیز کا وجود ہی معدوم ہو گیا تو میں اور تو کا امتیاز بھی باطل ٹھہرا یعنی کسی بھی حوالے سے اپنی برتری کا احساس بھی ختم یعنی دنیا میں بنائے سب امتیازات کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے حتی کہ عقل کے قائم کردہ حصار جو کسی نہ کسی حوالے سے زمانے یا مکان کے حصار میں مقید ہیں سب لاشئیہیں اگر وجود ہے تو صرف اللہ ہی کا ہے جس کے سہارے سے تمام عالم اور اس کی ہر چیز سہارا پکڑے ہوئے ہے۔