دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاک افغان تعاون

دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاک افغان تعاون

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


افغانستان کے مشیر برائے قومی سلامتی امور ڈاکٹر رنگین داد فر سپانتا نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اورآرمی چیف جنرل راحیل شریف سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ملاقاتوں میں شمالی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور زیر غور آئے جن میں پاک افغان سرحد پر سیکیورٹی کا معاملہ بھی شامل ہے۔ ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والے بیانات کے مطابق دونوں ممالک نے اِس بات پراتفاق کیا کہ دہشت گردی کے خلاف سخت سے سخت اقدامات کی ضرورت ہے ۔ دونوں ممالک نے دہشت گردی کو سانجھا دشمن قرار دیتے ہوئے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دونوں ممالک میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ اُن کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے۔ان ملاقاتوں میں سرحد پار سیکیورٹی کے لئے جوائنٹ ورکنگ گروپ بنانے اور بارڈر سیکیورٹی سے متعلقہ اداروں کا اجلاس 3 جولائی کو بلانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ۔ملاقات میں افغان قومی سلامتی کے مشیر نے وزیراعظم نوازشریف کو افغان صدر حامد کرزئی کا خط پہنچایا اور افغان حکومت کی جانب سے پاکستانیوں کے خدشات دور کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی۔ پاکستانی فوج کی طرف سے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب 15 جون سے جاری ہے، جس میں آئی ایس پی آر کے مطابق اب تک 200 سے زائد شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔اِس صورت میں جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہے، یہ پیشرفت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
دوسری جانب دفترخارجہ کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان وفود کی سطح پر مذاکرات بھی ہوئے، جس میں قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز اور سیکریٹری خارجہ نے بھی شرکت کی۔ مذاکرات میں دو طرفہ سیکیورٹی تعاون مضبوط کرنے پر غور کیا گیا ،جبکہ دونوں ممالک کے وفود نے اِس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے بغیر خطے میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ وزارت خارجہ نے اپنی بریفنگ میں کہا کہ پاکستان کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ افغان صدر حامد کرزئی نے بھی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے 20 جون کو ٹیلی فون پر اِس سلسلے میں بات کی تھی۔ خبروں کے مطابق گفتگو کے دوران دونوں رہنماؤں نے شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن پر بھی تبادلہ خیال کیا۔اس سے قبل پاک افغان فوجی سربراہان اور افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے کمانڈر کے درمیان کابل میں گذشتہ ماہ سہ فریقی مذاکرات ہوئے تھے۔ جن میں پاک افغان سرحدی علاقوں میں بدامنی اور افغان صوبے کنڑ میں مبینہ طور پر پاکستان کی جانب سے راکٹ حملوں پر بات چیت کی گئی تھی۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ نے چند روز قبل کہا تھا کہ شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی جانب سے جاری آپریشن کے پیش نظر پاک افغان سرحد پر نگرانی بڑھا دی ہے۔ اُنہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کا افغانستان کی جانب فرار روکنے کے لیے بھی وہ پوری طرح تیار ہیں۔ انہوں نے ایک بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کو دیئے جانے والے انٹرویو میں بتایا تھا کہ آپریشن میں امریکہ براہ راست پاکستان کی کسی قسم کی مدد نہیں کر رہا تاہم پاک افغان سرکاری سطح پر معلومات کا تبادلہ بڑھا دیا گیا ہے۔
دونوں ممالک کی جانب سے امن کے لئے کی جانے والی کاوشیں یقیناًقابل تحسین ہیں،لیکن یہاں یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں کسی حد تک اضافہ ہوا ہے ۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان اڑھائی ہزار کلو میٹر سے بھی طویل سرحد موجود ہے ۔ اس طویل سرحد پر نہ تو مکمل طور پر نظر رکھی جا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی دیوار تعمیر کی جا سکتی ہے۔ ایسے میں دونوں ممالک اپنے اپنے داخلی مسائل کو اپنی اپنی سطح پر حل کر کے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ پاکستان میں جاری اس جنگ کے نتیجے میں دہشت گرد سرحد پار کر کے افغانستان میں جا کر پناہ لے لیں۔ اس لئے سرحد پر سیکیورٹی دونوں ممالک کو سخت کرنی پڑے گی۔ ویسے بھی پاکستان افغان سرحد پر شدت پسندوں کی آمد و رفت دونوں ممالک میں سیکیورٹی حکام کے لیے اہم مسئلہ رہی ہے ۔پاکستان کا دعویٰ رہا ہے کہ افغان صوبے کنڑ میں پاکستانی سرزمین پر حملے کرنے والی تحریکِ طالبان پاکستان کو پناہ گاہیں حاصل ہیں ۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے وفد نے بھی افغان قیادت سے درخواست کی تھی کہ وہ کسی بھی دہشت گرد کواپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکنے کے لئے سرحد پر نہ صرف موثراقدامات کرے، بلکہ شمالی وزیرستان میں پاکستانی فورسز کی جانب سے جاری آپریشن کے نتیجے میں فرار ہونے والے دہشت گردوں کو روکنے کے لئے سرحد پرسیکیورٹی سخت کرے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو کامیاب بنانا ہے تو پاکستان میں دہشت گردی پھیلاکر واپس جانے والوں کو حملوں سے پہلے روکنے کی اولین ذمہ داری افغان حکومت کو احسن طور پر نبھانا ہو گی۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ماضی میں افغان صدر کی جانب سے مختلف ادوار میں پاکستان پر الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں تاہم اُن کی جانب سے کسی قسم کے ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کئے گئے۔ افغانستان کو ہمسایہ ممالک اور خصوصاً بھارت کے ساتھ تعلقات انتہائی سمجھ داری سے استوار کرنا چاہئیں، کیونکہ افغانستان کسی صورت بھی پاک بھارت معاملات سے آنکھ چرا کرپاکستان سے دیرپا اور کامیاب تعلقات استوار نہیں کر سکتا۔ دونوں ممالک کے درمیان معاملات بھی اُسی صورت میں بہتر طریقے سے چلائے جا سکتے ہیں ،جب دونوں طرف سے ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کیا جائے اور مشترکہ اہداف حاصل کرنے کے بعد ہی دوران عمل کی گئی کاوشوں پر دوبارہ نظر دوڑائی جائے نہ کہ ہدف حاصل کئے بغیر ہی دشمن کی جانب سے چلی جانے والی چالوں پر ہی پریشان ہو کر بیچ دوراہے اعتماد کو الزامات سے قتل کر دیا جائے۔
  *

مزید :

اداریہ -