مرغی سے انڈہ یا انڈے سے چوزہ؟

مرغی سے انڈہ یا انڈے سے چوزہ؟
مرغی سے انڈہ یا انڈے سے چوزہ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

نون لیگ کی رکن اسمبلی انوشے رحمٰن کی سنیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں ایف بی آر کے افسروں سے پوچھا کہ بازار میں کھلے دودھ کی کیا قیمت ہے تو اس پر وہ افسر کہنے لگے کہ ہم نے کبھی کھلا دودھ خریدا ہی نہیں ہے، اس پر انوشے رحمٰن نے ان سے کہا کہ بازار سے خریداری خود کیا کریں تاکہ آپ کو عوام کی تکالیف کا احساس ہو۔اسی طرح پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کی سنیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ حکومت کو بتاتی پائی جاتی ہیں کہ اگر عوام پر بے تحاشا ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا تو معیشت سکڑ جائے گی اور ملک میں مزید بے روزگاری اور مہنگائی کا طوفان امڈ آئے گا،یہی نہیں بلکہ سلیم مانڈوی والا کی سنیں، فیصل واؤڈا کی سنیں، ایم کیو ایم کی سنیں، حتیٰ کہ شہباز شریف کی سنیں تو پتہ چلتا ہے کہ بجٹ کے حوالے سے ہمارے سیاستدانوں اور عوام کی سوچ ایک ہے۔ ہم سب ایک طرح ہی سوچتے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ عوام بول سکتے ہیں، منہ بھر کر گالی دے سکتے ہیں مگر ان کے نمائندے ایسا نہیں کر سکتے۔ وہ ریاست کی ایماء پر بات کرنے کے پابند ہوتے ہیں ورنہ ریاست انہیں سیاست سے آؤٹ کر دیتی ہے جس طرح ان دنوں عمران خان سیاست سے آؤٹ ہیں۔

گزشتہ کالم میں ہم نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا ہمارے وزیر خزانہ کو بنا بنایا بجٹ ملا ہے تو اس کا جواب وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اسمبلی کے فلور پر دے دیا کہ ہاں واقعی حکومت کو یہ بجٹ آئی ایم  ایف نے ہی تھمایا ہے جس پر عمل درآمد کر کے حکومت کو آٹھ ارب ڈالر کی خطیر رقم مل جائے گی اور یوں پاکستان کی بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کچھ ایسا ہی کینیا کی حکومت نے بھی سوچا تھا اور اس نے آئی ایم ایف کے کہنے پر لگ بھگ تین ارب ڈالر ٹیکسوں کے ذریعے عوام سے بٹورنے کا فنانس بل پیش کیا تھا جس پر وہاں کے نوجوان سیخ پا ہو گئے اور انہوں نے کینیا کی پارلیمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی کینیا کی فلم دہرائی جا سکتی ہے کیونکہ یہاں حلق سے لے کر فلک تک بھوک پھیلی ہوئی ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے گوہر خان بھی خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر بجٹ کو جوں کا توں لاگو کردیا گیا تو لوگ پاکستان چھوڑ کر جدھر منہ سمائے گا، نکل جائیں گے۔ 

بجٹ پر جو باتیں بھی ہمارے عوامی نمائندے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ یا قومی اسمبلی کے فلور پر کر رہے ہیں انہیں دیکھ، سن اور پڑھ کر لگتا ہے کہ ایسے نقطے تو عوام بھی نہیں اٹھا سکتے، جیسے ہمارے معزز پارلیمنٹ اراکین اٹھارہے ہیں لیکن پھر ایسا کیونکر ہوگا کہ جب بجٹ کے پاس ہونے کا وقت آئے گا، پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ کر دیا جائے گااور بقول فیصل واؤڈا کے بجٹ ڈنکے کی چوٹ پرپاس ہوگا اور کسی کے باپ میں جرأت نہیں ہوگی کہ اس کے خلاف ووٹ کرے۔ ایسا ہے تو پھر ایسی سعی لاحاصل سے کیا فائدہ، اس سے کیا مقصوداور کیا مطلوب کہ جب طالب بات کر کے خاموش ہو جائے اور اپنی بات کا پہرہ نہ دے سکے۔

بجٹ میں ترقیاتی کام اسی لئے رکھے جاتے ہیں تاکہ اراکین اسمبلی کو پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دینے کے عوض ان کو نوازا جا سکے۔ وگرنہ اصل میں بجٹ ٹیکسوں کے نام پر عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ 

ٹیکسوں پر حشر عوام ہی اٹھاتے ہیں، سیاستدان یہ جرأت نہیں کر پاتے کیونکہ انہیں پارٹی لائن پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ نواز شریف نے نانبائی کی دکان پر کھڑے ہو کر روٹی کی قیمت تو کم کروادی مگر تنخواہ دار طبقے کی جیب پر ٹیکس کے نام پر پڑنے والے ڈاکے کے خلاف کچھ نہیں کر سکے،سوال یہ ہے کہ کیا سیاستدان کچھ کرنے کے لئے بھی ہوتے ہیں؟ کیاوہ عوام کے سگے ہوتے ہیں یا اپنے اپنے عوامی گروہوں کے مفادات کا تحفظ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ سیاستدان عوام سے آگے ہوتے ہیں یا عوام سیاستدانوں سے آگے ہوتے ہیں؟ عوامی مفاد سیاستدان کا مفاد ہوتا ہے یا سیاستدان کا مفاد اس کے ترجیحی عوامی گروہوں کامفادبن جاتا ہے۔

 دوسری جانب عوامی لیڈر ہوتا ہے جسکے نام پر ووٹ پڑتا ہے۔ لیڈر کسی کا مفاد نہیں دیکھتا بلکہ اس کے مفاد کے لئے لوگ قیدوبند کی صعوبتیں اٹھاتے ہیں، کوڑے کھاتے ہیں، حتیٰ کہ قتل گاہوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ سیاست میں اسے جمہوری جدوجہدکہا جاتاہے حالانکہ یہ سب کچھ جمہور کے لئے کم اور لیڈر کے لئے زیادہ ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ ناچ تماشہ ہے، کبھی کسی کا ٹھمکا تو کبھی کسی کا، ہنستے کھیلتے گاتے روتے کٹ جاتی ہے اور حاصل جمع احساس زیاں کے علاوہ کچھ نہیں ہو پاتا۔

عین اس وقت جب کہ وفاقی حکومت قومی اسمبلی سے فنانس بل پاس کروانے جا رہی ہے، امریکی سینٹ نے پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے دعووں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آزادانہ تحقیقات کی قراردادپاس کردی ہے۔ اس ایک قرارداد نے ہمارے عوام اور میڈیا کی توجہ بجٹ سے ہٹا کر عمران خان پر لگادی ہے۔ ممکن ہے اس سے آئی ایم ایف پاکستان میں کینیا میں جو کچھ ہوا اس کا repeat telecastکچھ دیر کے لئے موخر کر لے لیکن اگر بجٹ اسی حالت میں پاس ہوگیا تو تین ماہ بعد عوام سڑکوں پر ہوں گے۔ وفاقی حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ بجٹ کو پارلیمنٹ سے پاس کروانے سے پہلے اس میں بڑی تبدیلیاں لے کر آئے اور آئی ایم ایف کے کہنے پر عوام کے جسموں سے خون نہ نچوڑے۔ 

جہاں تک استحکام کا تعلق ہے تو وہ نہ تو سیاست  اور نہ معیشت کے محاذ پر ہے اور حکومت کا حال یہ ہے کہ اسے سمجھ نہیں آرہی ہے کہ پہلے مرغی میں سے انڈہ لینا ہے یا انڈے میں سے چوزہ!

مزید :

رائے -کالم -