بھارتی دوا سازکمپنیوں کی ناقص کارکردگی
کچھ عرصہ سے بھارتی دوا ساز کمپنیاں اپنی ناقص کارکردگی کی بنا پر عالمی سطح پر بے نقاب ہو رہی ہیں۔حال ہی میں ہندوستانی ادویات بنانے والی کمپنی Intas کے معیار میں شدید کمی سامنے آئی۔یہ امریکہ کے لئے کینسرکی دوائیں بنا رہی تھی،حال ہی میں امریکہ نے بھارت کے فارماسوٹیکل سسٹم کی خرابیوں کے باعث چین سے ادویات کے لئے رابطہ کیا ہے۔
بھارت کی ناقص ریگولیٹری نگرانی،اینالاگ پریکٹس اور ڈیٹا کی سالمیت کے مسائل کی وجہ سے سینکڑوں بچے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔غیر معیاری کھانسی کے شربت سے بچوں کی اموات اور عالمی منشیات کی تجارت بھارت میں ایک نیا موڑ لے رہی ہے۔ امریکی معالجین کا کہنا ہے کہ کینسر کی دوائیوں کی کمی ہزاروں اموات کا باعث بن سکتی ہے۔اس بحران نے واشنگٹن کوچین کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا ہے جس کے لئے چینی فارماسیوٹیکل کو اس کمی کو پورا کرنے کے لئے بلایا گیا ہے۔
امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی انسپکٹروں کی ایک ٹیم مغربی ہندوستان میں ایک دوا ساز فیکٹری کی چھان بین کررہی تھی، جس دوران یہ سب معاملات سامنے آئے۔ مینوفیکچرنگ اورڈرگ ٹیسٹنگ کے اعدادوشمار سے یہ ظاہر ہوا کہ Intas کے ایگزیکٹوز نے ڈیٹا میں ہیرا پھیری کی اور اسے چھپانے کی کوشش کی۔ ٹیسٹنگ کے چھ ماہ بعد ایف ڈی اے نے ادویات کو ملاوٹ والی قرار دیا اور پلانٹ سے درآمدات روک دی، جس سے امریکہ میں کینسر سے زندگی بچانے والی ادویات کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔
بھارت کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی غیر معیاری ادویات کی بدولت دنیا بھر میں سیکڑوں بچے موت کا شکار ہوگئے، کمپنیوں کی جانب سے دواؤں کی تیاری میں مضر صحت اجزا کے استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔ان غیر معیاری ادویات کی بدولت دنیا بھر میں سینکڑوں بچے موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق 2022ء سے اب تک ازبکستان، انڈونیشیا سمیت افریقی ممالک میں سینکڑوں بچے بھارتی ادویات سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
18 دسمبر 2022ء میں ازبکستان میں 18 بچے زہریلی بھارتی دوا کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اکتوبر 2022ء میں افریقی ملک گیمبیا میں بھارتی تیار کردہ کھانسی کے سیرپ نے 69 بچوں کی جان لی۔ اکتوبر 2022ء میں ہی انڈونیشیا نے 99 بچوں کی اموات کے بعد بھارت سے ہر قسم کی ادویات کی درآمدات پر پابندی عائد کردی تھی۔ اِسی طرح 15 جون 2023 ء کو لائبیریا اور نائجیریا نے زہریلا ہونے کی وجہ سے بھارتی تیار کردہ پیراسیٹامول سیرپ کے250 سے زائد کنٹینرز ضبط کر لئے۔
امریکی ادارے ایف ڈی اے کے مطابق رواں سال فروری میں بھارت میں تیار کردہ آنکھوں کے قطرے امریکہ میں آنکھوں کی وبا پھیلانے کا باعث بنے۔بھارتی دواساز کمپنیوں کی جانب سے بچوں کی اموات چھپانے کے لئے 60 ہزار ڈالرز کی رشوت دینے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔جعلی ادویات بنانے والی بھارتی فارما کمپنیاں آندھرا پردیش، بہار، دہلی، گوا، گجرات، ہریانہ، ہماچل پردیش، کرناٹک، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، پڈوچیری، پنجاب، راجستھان، سکم، تامل ناڈو، تلنگانہ، یوپی، اتراکھنڈ اور مغربی بنگال میں واقع ہیں۔غیر معیاری اور مضر صحت ادویات کی وجہ سے بھارتی کمپنیوں کے آرڈر ختم ہوتے جا رہے ہیں اور بیشتر ممالک بھارت سے دیگر مصنوعات کی درآمد کرنے پر بھی نظر ثانی کر رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ سال دسمبر میں غیر معیاری بھارتی ادویات پر گلوبل الرٹ بھی جاری کیا تھا۔
ازبکستان کی ایک عدالت نے مضر صحت عناصر کی ملاوٹ والے کھانسی کے شربت کی وجہ سے 68 بچوں کی موت کے مقدمے میں 23 افراد کو سزا سنائی ہے۔ تاشقند سٹی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ مدعا علیہان ٹیکس چوری، غیر معیاری یا جعلی ادویات کی فروخت، عہدے کے غلط استعمال، غفلت، جعل سازی سے لے کر رشوت خوری تک کے جرائم کے مرتکب ہیں۔ ملزمان کو دو سے 20 سال کے لئے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ان 23 افراد میں قرمیکس میڈیکل کے انڈین ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنگھ راگھویندر پرتار بھی شامل تھے۔ انہیں 20 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، جن دیگر ملزمان کو طویل سزائیں سنائی گئیں ان میں سابق سینئر افسر بھی شامل ہیں جو درآمد شدہ ادویات کو لائسنس دینے کے ذمہ دار تھے۔عدالت نے 63 ہزار پاؤنڈ (ایک ارب ازبک رقم) کا معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا جو شربت کے استعمال سے مرنے والے 68 بچوں کے خاندانوں اور معذور ہونے والے چار دیگر بچوں کو بھی ادا کیا جائے گا۔
گذشتہ سال ملاوٹ والی ادویات کی وجہ سے تقریباً 18 بچوں کی موت کی خبر آئی تھی۔بھارت میں ماریون بائیوٹیک کی تیار کردہ اور ازبکستان میں قرمیکس میڈیکل کے ذریعے تقسیم کردہ کھانسی کے سیرپ میں ملاوٹ کا پتا لگایا گیا تھا۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک تحقیق میں ماریون بائیوٹیک کے کھانسی کے دو سیرپ ’غیر معیاری‘ پائے گئے تھے۔رپورٹ میں دو عناصر ڈائتھیلین گلائکول اور/ یا ایتھیلین گلائکول کی ناقابل قبول مقدار پائی گئی۔ دونوں انسانوں کے لئے زہریلے ہیں اور اگر استعمال کیا جائے تو جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں۔اگرچہ کمپنی نے ملاوٹ کے الزامات سے انکار کیا ہے، لیکن بھارت کی وزارت صحت نے اس کی پیداوار روک دی ہے اور شمالی ریاست اتر پردیش میں فوڈ سیفٹی ڈپارٹمنٹ نے کمپنی کا لائسنس معطل کردیا ہے۔