ڈیوٹی پر رپورٹ کرنے سے قبل میری تمام تر ٹریننگ بس یہی کچھ تھی!
مینا کیمپ ........صحرا کاگیٹ کیپر
1926ءسے لے کر 1931ءتک کے درمیانی برسوں میں ہزاروں لاکھوں لیبین پناہ گزین سارنیکا سے ہجرت کر کے مصر بھاگ آئے تھے۔ان میں وہ لیبیائی بھی شامل تھے جو جنرل گریزیانی(Graziani) کے سوچے سمجھے قتل عام سے بچ نکلے تھے اور اس طرح اطالوی حملہ آوروں کے خلاف ان کی انیس سالہ جنگ آزادی بالآخر نحلستانِ کفرہ (Kufra) کی اطالوی فتح کے بعد اختتام کو پہنچی تھی۔
اس دردناک انجام کے بعد یہ لیبیائی باشندے، لٹے پٹے اور بغیر مال مویشی، مغربی صحرا کے کنارے پر آباد ہونا شروع ہوئے۔ ان کی یہ آبادی سکندریہ کے مضافات میں برج العرب سے لیکر فیوم (Fayum) بلکہ جنوب میں بنی سیوف تک پھیل گئی تھی۔ ان میں سے اکثر نیم خانہ بدوش اور نزارو خوار تھے۔ ان میں بعض اپنی صحرائی روایات کو ترک کر کے شہری زندگی کی ہماہمی کو اپنا رہے تھے۔ اور اسکندریہ کی بندرگاہ کے گردنواح میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے لیکن ان کی وفاداریاں شیخ ادریس السنوسی کے ساتھ تھیں جو خود ایک معززو محترم پناہ گزین تھا۔ اس کے علاوہ اپنے وطن مالوف میں چراگاہوں کی یادیں اور اپنی صحرائی زندگی کے نقوش ان کے ذہن سے محو نہیں ہوئے تھے اور یہی قدر مشترک تھی جو ان پناہ گزینوں کو متحدرکھتی تھی۔ یہ لوگ سارنیکا کے صحرائی عرب تھے اور اسلام کے سنوسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ خالص مسلمان کہلاتے تھے۔ شراب کو حرام تصور کرتے تھے۔ ان کے نزدیک قسم اٹھانا گناہ تھا اور کسی کو گالی دینا پسند نہیں کرتے تھے۔ پہلے پہل ان لوگوں سے واسطہ پڑا تو میں کہ جو مصری معاشرے میں مروج گالی گلوچ کا عادی تھا، سخت پریشان ہوا۔ ایک بار ایک ریکروٹ کی کسی بے وقوفی پر مجھے سخت طیش آیاتاہم میں نے اپنے آپ کو سنبھالا کہ یہ لوگ گالی گلوچ کو ناپسند کرتے تھے اور مرنے مارنے پر آجاتے تھے لیکن پھر بھی میرے منہ سے غصے میں ”گدھا“ کا لفظ نکل ہی گیا۔ اس کو سننا تھا کہ اس ریکروٹ کا رنگ زرد پڑ گیا۔ اس نے اپنی رائفل مجھے واپس لوٹا دی اور کہا ”اگر میں گدھا ہوں تو پھر کبھی بھی سپاہی نہیں بن سکتا“۔ .... اس کے بعد وہ تین دن تک اپنے خیمے میں پڑا، اس گالی کا سوگ مناتا رہا اور جب تک میں نے سب لوگوں کے سامنے اپنی اس غلطی کی معافی نہ مانگ لی اور یہ اقرار نہ کر لیا کہ ہم برطانویوں کے ہاں گدھا بہت بہادر اور قابل احترام جانور ہے اور شیر کے بعد اسی کا نمبر آتا ہے، اس کا غصہ فرو نہ ہوا۔ سارنیکا کے قبائلی عربوں کو میں نے اکثر جگہ مختلف ناموں سے یاد کیا ہے مثلاً سنوسی عرب، لیبیائی عرب، جبل عرب وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ یہ اتنے سارے نام خاصے پریشان کن لگتے ہیں لیکن اس قبائلی معاشرے میں یہ فرقے بندیاں اتنی زیادہ تھیں کہ میرے یہ مختلف نام ان کی کثرتِ تعداد کے سامنے کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔
میرا خیال ہے پہلے پہل ان پناہ گزینوں کی فورس قائم کرنے کا خیال کرنل بارمی لو کوآیا ہو گا۔ جب میں لیبین عرب فورس میں شامل ہوا تو اس کو وجود میں آئے تین ماہ ہو چکے تھے اور اس میں تین ہزار رضا کار عرب تھے۔ اچھی تنخواہ، اچھی خوراک اور نیز جنگی جوش وولولہ وہ عناصر تھے ، جو ان عربوں کو اس فورس میں بھرتی ہونے پر اکسانے کا باعث ہوئے۔ ان عربوں کے ساتھ کس طرح کا برتاﺅ کیا جائے اور ان کا استعمال کیا ہو اس بارے میں متضاد آراءپائی جاتی تھیں۔ کرنل برومی لو ایک تجربہ کار کیولری آفیسر تھا جس کا مشاہدہ اور تخیل وسیع تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ ان عربوں کو تربیت دے کر منظم گوریلا یونٹوں میں تبدیل کر دیا جائے اور برطانوی افسروں کے زیر کمان یہ گروپ ہماری باقاعدہ افواج کے بازوﺅں پر چھوٹے موٹے آپریشنز کرتے رہیں۔ ان کے ذمے دشمن کے علاقے میں جاسوسی اور دیکھ بھال کی خدمات بھی سونپی جائیں۔ دراصل اسی کام کو نگاہ میں رکھ کر ہم لوگوں کو بھرتی کیا گیا تھا۔ کل ملا کر ہم دس برطانوی افسر اس فورس کے ساتھ تھے۔ جب ہمیں یہ بتلایا گیا کہ اس فورس کا کام صرف نیم عسکری فوجیوں جیسا ہو گا تو ہم دس کے دس افسروں نے اس فورس کو چھوڑ دیا اور سب نے ادھر ادھر کے دوسرے جاب اختیار کر لیے کہ جنہوں نے جنگ کے اختتام تک ہم سب کو خوشگوار طور پر مصروف کار رکھا۔ ان میں دو افسروں یعنی باب یونی (Bob Yunnie) اور جین کیزی (Jean Caneri) نے بعد میں میرے ساتھ خدمات انجام دیں۔.... ان کا ذکر اس داستان میں اکثر آئیگا۔
مڈل ایسٹ ہیڈکوارٹر نے اپنی ان لیبیائی بٹالینوں کی جنگی صلاحیتوں اور لڑاکا اہلیتوں پر شبہ کرتے ہوئے انہیں مصر میں صرف حفاظتی ڈیوٹی پر متعین کرنا مناسب سمجھا اور وہاں سے برطانوی سپاہیوں کو فارغ کر کے صحرائی جنگ میں استعمال کیا۔ اس کے علاوہ ”دشمن کے مقبوضہ علاقوں کی تنظیم (Occupied Enemy Territory Administtation) نے بعض سیاسی وجوہات کی بناءپر ان لوگوں کی خدمات سارنیکا کی فتوحات کے دوران بطور پولیس بھی استعمال کیں۔
کرنل برومی لو نے جس مقصد کے لیے اس فورس کو قائم کیا تھا اسے پورا کرنا کوئی مشکل نہ تھا۔ تاہم وہ ایک ریگولر آفیسر تھا اور اسے اپنا مستقبل بھی دیکھنا تھا۔ جلد ہی اس کی پروموشن ہو گئی اور اسے عراقی فوج کی کمان دے دی گئی۔ اس کے بعد جو کمانڈنگ آفیسر تعینات ہوئے ان کو ان عرب بدووں کو کمان کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور نہ ہی ان کو ان لوگوں میں کوئی دلچسپی تھی۔ وہ اس پوسٹ پر محض اگلے رینک میں ترقی پانے کے لیے آتے تھے اور اس عہدے کو صرف پہلی سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ پھر” دشمن کے مقبوضہ علاقوں کی تنظیم“ کا بھی اپنا نظریہ تھا۔لہٰذا جلد ہی یہ” لیبین عرب فورس“ ایک قسم کی ژاندارمری (بارڈر پولیس) میں تبدیل ہوکے رہ گئی۔ لیکن جب 10 اکتوبر 1940 ءکو میں نے مینا (Mena) کے نزدیک اسکندریہ روڈ پر کلو میٹر 9 پر واقع سنوسی کیمپ میں حاضری رپورٹ دی تو مجھے متذکرہ بالا معاملات و مسائل کا کچھ علم نہ تھا۔ میں دل ہی دل میں اپنے آپ کو مبارک باد دے رہا تھا کہ میں نے ان دوستوں کو خوب غچہ دیا کہ جو مجھے بطور سٹاف آفیسر دیکھنے کے درپے تھے۔ عرب قبائل پر مشتمل ایک گوریلا فورس میرے لئے بڑا اچھا آغاز تھا اور میں نے اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔
اس اثناءمیں شوگر کمپنی کے ایک مصری ڈائریکٹر سے میرا انٹرویو خاصا بدمزہ اور تلخ رہا۔ مجھے اس نے بتایا کہ” جب میں کسی بدو ملازم کو بھی نکالنا چاہوں تو اسے ایک ہفتے کا نوٹس دیتا ہوں۔اس کے مقابلے میں آپ کی تنخواہ کی شرح سے آپ کو ہمیں کم از کم ایک ماہ کا نوٹس دینا چاہیے تھا۔ آپ کا موجودہ رویہ سکینڈل سے بھرپور ہے۔ جلد ہی آپ کو پتہ چل جائے گا“۔ پتہ تو مجھے مہینوں گزرنے کے بعد بھی کچھ نہ لگا البتہ کمپنی کو ہم نے اس قسم کی صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے چند تجاویز ارسال کر دیں جو مغربی ممالک میں مروجہ قواعد و ضوابط کے طور پر قبول کی جاتی تھیں۔
میجر ایمرے (Emery) نے مجھے عسکری زندگی کی مبادیات سے مختصراً آگاہ کر دیا تھا۔ مثلاً سیلوٹ کیسے کیا جاتا ہے اور کیسے لوٹایا جاتا ہے۔ افسران بالا سے تخاطب کا طریقہ کیا ہے، میس (Mess) میں داخل ہوں تو ٹوپی کا کیا کرنا ہوتا ہے، میس میں کن کن باتوں اور کن کن مواقع پر بطور جرمانہ احباب کو شراب پیش کرنا پڑتی ہے اور اسی نوع کی دوسری باتیں.... اس تمام کارروائی میں صرف پانچ منٹ صرف ہوئے تھے۔ لیکن ایمرے کی بریفنگ اس قدر جامع تھی کہ اس نے مجھے بعد کی تمام عسکری زندگی میں تمام شرمساریوں سے بچائے رکھا۔ ڈیوٹی پر رپورٹ کرنے سے قبل میری تمام تر ٹریننگ بس یہی کچھ تھی!
لیبین عرب فورس (Libyan Arab Force) کی حالت پتلی تھی۔ نام کو تو اس کو ریگولر انفنٹری یونٹوں کی طرح بٹالینوں اور کمپنیوں میں تقسیم کیا ہوا تھا، لیکن اس کے بعد کچھ نہ تھا۔ ہمیں سکھلائی دینے والا بھی کوئی نہ تھا۔ افسروں کی بیشتر تعداد ان جوشیلے سویلین لوگوں پر مشتمل تھی جو ہمہ وقت ہر قسم کی بکواس کرنے اور ہر قسم کی بے عزتی برداشت کرنے کے لیے تیار رہتے تھے ۔جو گنے چنے ریگولر آدمی ہمارے پاس تھے وہ اس صورت حال سے سخت نالاں تھے۔ اور ہر وقت دوسری جگہ پوسٹنگ کروانے کی فکر میں ہاتھ پاﺅں مارتے رہتے تھے۔ مجھے یکے بعد دیگرے کئی عہدے دیئے گئے۔ اب میں ایک نوتشکیل شدہ بٹالین میں ایک کمپنی کمانڈر کے عہدے پر فائز تھا۔ ہمارا سی او (کرنل) ایک درازقامت اور سن رسیدہ شخص تھا۔ پورٹ سعید میں اس کا گھر تھا اور وہ ہمارے کاموں میں برائے نام ہی دلچسپی لیا کرتا۔ بعض اوقات وہ ہمیں شاباش بھی دے دیتا۔ بعد میںوہ ریٹائر ہو گیا۔ اب ہم تمام کمپنی کمانڈر جو سویلین تھے، ہر صبح یہ کوشش کرتے کہ اپنے میس تک راستہ نہ بنا سکنے کے بہانے ڈھونڈیں۔ تاہم اس کے بعد مصری فوج سے کچھ انسٹرکٹر ہمیں دے دیئے گئے۔ ہم لوگ اپنے آدمیوں (ٹروپس) کو تمام دن ڈرل کرواتے رہتے۔ سنوسیوں نے بھی ہماری طرح جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا ۔ ہم لوگ جب اپنے خیموں میں آرام کی خاطر جاگھستے تو یہ سنو سی رنگروٹ ایک دوسرے کو ڈرل سکھلایا کرتے۔ ان لوگوں کے (عربی زبان) کے ورڈز آف کمانڈ ہمیں اپنے خیموں کے اندر گویا لوریاں دے کر سلایا کرتے۔
مغربی ممالک میں ایک فوجی سپاہی کا جو ضابطہ کار مروج ہے اس قسم کے ڈسپلن سے یہ لوگ کم آگاہ تھے۔ ان کے لیے یہ سمجھنا دشوار تھا کہ جب ان کے اہل خانہ کو ان کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر مہینے دو مہینے کے لیے انہیں گھر کیوں نہیں جانے دیا جاتا اور ان کی رخصت وغیرہ کے روکنے کا کیا جواز ہے ( ان کو کیا خبر کہ حالت جنگ میں چھٹی چہ معنی دارد؟) جب اس قسم کے بلاقانون رخصت کے بعد وہ واپس یونٹ میں آتے اور انہیں بھگوڑوں کی طرح سزا دی جاتی تو ان کا حال زار دیدنی ہوتا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ وہ اپنی مرضی سے اس فورس میں شامل ہوئے ہیں اس لئے کسی کے غلام نہیں۔
فوج کی ابتدائی تربیت کے حصول کے علاوہ ہمارے پاس وقت نہیں تھا۔ ہم لوگ انتظامی امور کو درست کرنے ہی میں اس قدر الجھے رہتے تھے کہ تربیت کے لیے وقت نکالنا مشکل تھا۔ مثلاً ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ ہمارے پاس کل کتنے آدمی ہیں اور نہ ہی یہ پتہ تھا کہ کتنوں کی تنخواہ بقایا ہے۔ ہمیں بس اس قدر معلوم تھا کہ ایک بالا ایجنسی ہے (جو ہماری سمجھ سے بالا تر تھی) جو ہمیں راشن، وردی اور دوسرا سازو سامان بہم پہنچاتی ہے۔ اس کے سکیل کا بھی کسی کو علم نہ تھا۔ ایک بار ہم جوتوں کے سکیل کے سلسلے میں خاصے تضاد کا شکار ہوئے۔مسئلہ یہ تھا کہ ان سنوسیوں کو سینڈل ایشو کئے جائیں یا فوجی بوٹ ....خود سنو سیوں کو تو کوئی شک نہیں تھا۔ یہ لوگ نوکیلی چٹانوں اور صحراﺅں کے باسی تھے۔ ان کا انتخاب، ظاہر ہے، آرمی بوٹ تھے نہ کہ سینڈل ۔ یہ سینڈل تو ان کے لیے بمنزلہ سکیٹس (Skates) کے تھے لیکن اس کا کیا علاج کہ ہمیں سینڈل ایشو کیے جا رہے تھے!.... دراصل اس قسم کی اشیاءایشو کرنے سے قبل کسی سنوسی سے کوئی مشورہ نہیں لیا جاتا تھا۔ ایک بار چائے بنانے پر جھگڑا ہو گیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ آیا یہ لوگ اپنی اپنی چائے دانیوں میں چائے تیار کریں یا جس طرح کہ فوج کا طریقہ ہے کہ ایک بڑے سے دیگچے میں ایک ہی بار چائے تیار کر کے پھر مگوں میں تقسیم کر دی جائے۔ موخرالذکر طریقہ میں، ان کے خیال کے مطابق، پتی کا بے دریغ ضیاع ہوتا تھا! ہمارے کرنل صاحب کو ایک اور بہتر عہدے کی پیش کش ہو چکی تھی۔ اس لیے اب وہ یونٹ میں کم کم دلچسپی لیتے تھے اور ہمیں یہ احساس ہو رہا تھا کہ ہم یہ بٹالین صرف چند خوبصورت، پولو کے گھوڑوں کی خاطر چلائے جا رہے ہیں۔
اپنی بے علمی کی وجہ سے اورنیز اس سبب سے بھی کہ میں فوج میں ہر قسم کی بات سننے کے لیے تیار تھا، میں ایک شام چھٹی لے کر قاہرہ چلا گیا اور ایمرے سے بٹالین کمانڈر اور اس کے کمپنی کمانڈروں اور دوسرے افسروں کے فرائض، حقوق اور اختیارات کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ اسے بھی ان باتوں کا بس واجبی سا علم تھا کیونکہ اس نے بھی کبھی کسی یونٹ میں نوکری نہیں کی تھی۔ بہرحال اس نے ادھر ادھر سے ماہرین کی آر اکٹھی کیں ۔ جب میں واپس یونٹ لوٹا تو متعلقہ امور کے بارے میں مجھے خاصا علم ہو چکا تھا اور میرے پاس اب کنگز ریگولیشن (King,s Regulation) کی ایک کاپی بھی تھی۔ سرخ رنگ کی یہ مجلد کتاب بڑی معلومات افزا اور بڑے کام کی چیز تھی۔ ان تازہ معلومات کی روشنی میں میں نے کچھ منصوبے تیار کیے اور پھر موقع کی تلاش میں تاک لگا کر بیٹھ گیا۔ یہ موقع جلد ہی ہاتھ آگیا.... اس روز بٹالین میں سب سے سینئر افسر میں ہی تھا (کچھ روز قبل مجھے کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے دی گئی تھی) ہوا یہ کہ ہمارے ایک ڈرائیور نے سپاہیوں سے بھرے ہوئے ٹرک کو بیچ سڑک کے الٹ دیا۔ دو آدمی موقع پر ہلاک ہو گئے اور بہت سے زخمی ہوئے۔ مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میں نے اس حادثے کی رپورٹ براہ راست قاہرہ میں اپنے فورس ہیڈ کوارٹر کو بھیج دی۔
اگلے روز ایک سینئر افسر ہماری یونٹ میں پہنچ گیا اور انکوائری شروع ہو گئی۔ اگلے چند دنوں میں ملٹری مشین اپنے قوانین و ضوابط کے مطابق حرکت میں آتی رہی۔ جہاں تک میرا تعلق تھا مجھے اس تمام کاروائی سے بے خبر رکھا گیا ۔ کچھ دنوں بعد کرنل صاحب یونٹ میں تشریف لائے۔ ایک کانفرنس بلائی جس میں بٹالین کے تمام افسر شامل ہوئے۔ انہوں نے تمام افسروں کے تعاون کا شکریہ ادا کیا۔ اسی شام میس (Mess) میں ہم نے ایک ہنگامہ خیز پارٹی کا اہتمام کیا.... اس کے بعد کرنل صاحب ہمیشہ کے لیے ہماری زندگیوں سے نکل گئے۔ اب تک میں ایک ایسے ڈرامے کی گویا ریہرسل کر رہا تھا جس کے پلاٹ کے بارے میں میرے سوا کسی اور کو کچھ علم نہیں تھا۔ لیکن جب یونٹ میں نیا کمانڈنگ آفیسر آیا تو میں نے بھی ایک باقاعدہ سپاہی کی طرح کام کرنا شروع کر دیا۔ لیفٹیننٹ کرنل پیلی(Paley) نے کہ جس کا تعلق کسی رائفل بریگیڈ سے تھا اس یونٹ کو کباڑ خانے سے اٹھا کر ایک منظم ملٹری فارمیشن میں تبدیل کر دیا۔ اس سے بھی اہم تر بات یہ ہوئی کہ کرنل صاحب نے مجھے عسکری پیشے کے اسرار و رموز سکھانے شروع کر دیئے۔ دراصل ان کی اور میری شناسائی قبل ازیں بھی تھی۔ ہیڈ کوارٹرز میں کرنل صاحب شعبہ انٹیلی جنس کے سربراہ تھے۔ اور گزشتہ چند مہینوں سے ان کی اور میری ملاقاتیں اکثر رہتی تھیں۔ ایمرے اس شعبے میں ان کا سکینڈ ان کمانڈ تھا۔ میں اس نئے عہدے کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کے سلسلے میں ان کی یوں مدد کر سکتا تھا کہ مجھے عربی زبان پر دسترس تھی اورعلاوہ ازیں سنوسی رنگروٹوں کے مزاج سے بھی خاصی آشنائی تھی۔ اس کے عوض وہ مجھے فوجی پیشے کی مبادیات سکھلا سکتے تھے۔
ان کی صحت کچھ اچھی نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی وہ اس مصری آب و ہوا میں کہ جو کچھ ایسی سازگار نہ تھی دن رات کام کر رہے تھے۔ دفتری کاموں کی بجا آوری کے لئے انہوں نے دن کی گرم ترین ساعتوں کا انتخاب کیا تھا کہ یہ وقت ٹروپس کے آرام کا تھا۔ وہ لوگ جب خیموں میں آرام کر رہے ہوتے تو کرنل صاحب کو ان کے انتظامی امور طے کرنے کا موقع مل جاتا۔ پہلے پہل تو دفتری کام کاج کا انہوں نے خاص خیال نہ کیا۔ لیکن بعد میں ہم لوگ روزانہ اپنے آدمیوں کی لیٹرینیں، باورچی خانے اور شب خوابی کے کوارٹروں کی انسپکشن کیا کرتے۔ صاف ستھری لیٹرینیں گویا میرے لیے عسکری اہلیت کی علامت بن گئیں ۔ یہ عادت اب اتنی راسخ ہو چکی ہے کہ جب بھی میں نئی کمان سنبھالتا ہوں تو بے ساختہ یہ فقرہ زبان پر آجاتا ہے :” آیئے! لٹرینیں دیکھتے ہیں“۔ ہم ٹروپس کی سک (Sick)رپورٹیں دیکھتے ، ان کا کھانا اور چائے ٹیسٹ کرتے اور ان کی شکایات سنا کرتے۔ اس طرح جب ان کی جسمانی دیکھ بھال منظم ہو گئی تو ہم نے ان کی چھٹیوں کو بھی منظم کیا۔ رخصتی پارٹیاں (Leave Parties)، ترتیب دیں اور پڑوس والے انڈین آرمی کیمپ میں ان کو فلمیں دکھانے کا بندوبست کیا۔ ہر راﺅنڈ کی واپسی پر ہم لوگ ایک نظر دوبارہ لیٹرینوں کو دیکھ لیتے تھے۔ (جاری ہے)