سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع کردی، 6 ماہ بعد دوبارہ جائزہ لیں گے: چیف جسٹس آف پاکستان

سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع ...
سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع کردی، 6 ماہ بعد دوبارہ جائزہ لیں گے: چیف جسٹس آف پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6ماہ کی مشروط توسیع کی اجازت دیدی،عدالت نے کہاہے کہ آرمی چیف کی تقرری 6 ماہ کےلئے ہوگی،توسیع کے معاملے کوقانون سازی مکمل ہونے کے بعد دیکھا جائےگا، عدالت نے کہا کہ آرمی چیف کا تقرر صدر وزیراعظم کی مشاورت سے کرتا ہے،حکومت نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کیلئے6 ماہ کا وقت مانگا،آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع 28 نومبر سے شروع ہو رہی ہے۔عدالت نے کہا کہ آرمی چیف کی تقرری چیلنج کی گئی تھی،ہمارے سامنے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ آیا،آئین کے آرٹیکل 243 کا معاملہ سامنے آیا،جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن جمع کرایا گیا،عدالت نے کہاکہ ہم نے آئین کے آرٹیکل 243بی کا جائزہ لیا،آرمی ایکٹ اور اس کے رول کا جائزہ لیا،ہمارے سامنے یہ سوال آیا کہ کیا توسیع دی جاسکتی ہے یا نہیں؟عدالت نے کہاکہ اٹارنی جنرل نے عدالتی سوالوں کا جواب دیا،حکومت ایک سے دوسرا موقف اپناتی رہی،وفاقی حکومت تقرری پر اپنی پوزیشن بدلتی رہی، عدالت نے مزید کہاکہ دستاویزات کے مطابق پاک آرمی کا کنٹرول وفاقی حکومت سنبھالتی ہے،چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر صدر وزیراعظم کی مشاورت سے کرتا ہے،آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کے حوالے سے قانون خاموش ہے،عدالت نے کہاکہ حکومت نے مسلح افواج سے متعلق قوانین میں ترامیم کیلئے6 ماہ کا وقت مانگا،ہم معاملہ پارلیمنٹ اور حکومت پر چھوڑتے ہیں،عدالت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں6 ماہ کی مشروط توسیع کردی،عدالت نے کہاکہ آرمی چیف کی تقرری 6 ماہ کےلئے ہوگی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں وقفہ کے بعد آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی ،چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیاکہ اٹارنی جنرل صاحب بتائیں آپ نے کیا کیا؟اٹارنی جنرل نے تصحیح تشدہ سمری سمیت مطلوبہ ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا۔عدالت نے سابق آرمی چیف جنرل (ر)راحیل شرف اور جنرل(ر)اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزطلب کرلیں،عدالت نے جنرل (ر)اشفاق پرویز کیانی کی توسیع کی دستاویزات طلب کرلیں۔عدالت نے دستاویزات لانے کیلئے 15 منٹ کا وقت دیدیا۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ کہا گیا جنرل کبھی ریٹائرنہیں ہوتا،اگرریٹائرمنٹ نہیں ہوتی توان کاذریعہ معاش کیاہوتا ہے؟۔عدالت نے جنرل (ر)راحیل شریف کی پنشن اور دیگر تفصیلات بھی طلب کرلیں ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی۔اٹارنی جنرل انور منصور خا ن نے کہا کہ دستاویزات کچھ دیر میں پہنچ جائیں گی ۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ نئی تعیناتی آرٹیکل 243 کے سیکشن ”ون “بی کے تحت کی گئی ۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں مطمئن کرناہوگااب ہونے والی تعیناتی کیسے درست ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ سمری میں تو عدالتی کارروائی کا ذکر کردیا گیا ہے،چیف جسٹس نے سمری سے عدالت کا نام نکالنے کا حکم دیدیا،چیف جسٹس پاکستا ن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ عدالت کانام استعمال کیاگیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں،اپنا بوجھ خود اٹھائیں،ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ تعیناتی قانونی ہے یا نہیں اس کا جائزہ لیں گے ۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرمی چیف کا عہدہ آئینی ہے،اس عہدے کو پر کرنا ہے تو ضابطے کے تحت کیا جانا چاہیے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو سمری پیش کی گئی ہے اس میں تنخواہ اورمراعات کا ذکر نہیں،اس معاملے کو دیکھنا ہوگا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم ابھی تک فوج میں 1947 کی روایات لے کر چل رہے ہیں،بھارتی میڈیا نے سارے معاملے کو غلط انداز میں پیش کیا ہے،سمری میں اگر خلا ہے تو اسے بہتر کریں گے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق کیس میں چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے سمری میں 3 سال مدت ملازمت لکھ دی ہے،اگر بہت اچھا بندہ مل جائے تو کیا اس کی مدت ملازمت میں ایسے ہی لکھیں گے؟آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں،جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالیں ،صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 3سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ،اتنے بڑے آفس کی تعیناتی ہورہی ہے قواعد پرعمل کرنا ہوگا،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ نے سمری میں 3 سال کا لفظ لکھا ہے،اب ہرکوئی مستقبل میں ایسا ہی لکھے گا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے جو سمریاں جاری کی گئی تھیں ان میں مدت ملازمت لکھی ہوتی تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے معاملے پرکل آپ واضح نہیں تھے؟چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اس معاملے پرابہام دور کرنے کا فورم کون سا ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابہام دور کرنے کا فورم وفاقی حکومت ہے،اگر مدت مقرر نہ کریں تو تاحکم ثانی آرمی چیف تعینات ہو گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ نے آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب سینے سے لگا کر رکھی ہے،آرمی رولز کی کتاب پر لکھا ہے غیر متعلقہ شخص نہ پڑھے،آئین کی کتاب ہمارے لیے بہت محترم ہے،اسی کتاب سے ہم مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئین کی کتاب ملک کیلئے بائبل کی حیثیت رکھتی ہے،سمری میں تنخواہ،مراعات اورمدت ملازمت واضح کردیں گے،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا،کوئی دیکھ نہیں رہاکہ کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے،آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ نے پہلی بارکوشش کی ہے کہ آئین پرواپس آئیں،اس معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ نہیں دینا چاہیے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دے کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارا کندھا استعمال کیا جارہا ہے،ہم کبھی بھی مشکل میں نہیں رہے،ہمیشہ آئین اور قانون کی پابندی کرنے والے رہے ہیں،آرٹیکل 243کے تحت جوسمری آپ نے بنائی ہے اس میں 3 سال مدت ملازمت لکھ دی ہے،کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے ایجنٹ کہا گیا۔
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہاکہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمیں 5th جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا ،ہماراحق ہے کہ سوال پوچھیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھیں ہوں گے،آپ تجویز کریں آرمی قوانین کو کیسے درست کریں؟
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ہمارے پاس الجہاد ٹرسٹ کی مثال موجود ہے،اس کیس میں اس کا حوالہ دینا ضروری ہے،جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ پارلیمنٹ سے بہترکوئی فورم نہیں جو نظام کو ٹھیک کرسکے،واضح ہونا چاہیے جنرل کو پنشن ملتی ہے یا نہیں؟اٹارنی جنرل پاکستان نے کہاکہ مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہو جاتا ہے،
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کل آپ کہہ رہے تھے جنرل ریٹائر نہیں ہوتا،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپڈیٹ کرے تو نئے رولز بنیں گے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئین میں 18 مختلف غلطیاں نظر آتی ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ غلطیوں کے باوجود آئین ہمیں بہت محترم ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر ضروری تبدیلیاں کریں گے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ابھی قانون بنا کرآئیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جوقانون 72 سال میں نہیں بن سکا وہ اتنی جلدی نہیں بن سکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت میرے پاس کوئی بھی قانون نہیں سوائے ایک دستاویزکے،کوشش کررہے ہیں کہ اس معاملے پر کوئی قانون بنائیں،قانون بنانے کیلئے3 ماہ کا وقت چاہیے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جب کوئی کام آئین کے مطابق ہو جائے تو ہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں،عدالت کاکندھا استعمال نہ کریں آئندہ بھی سپریم کورٹ کا نام استعمال ہو گا،آرٹیکل 243میں 3 سال تعیناتی کا ذکر نہیں،
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت نے توسیع کر دی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی،اٹارنی جنرل نے کہا کہ جہاں مدت کا ذکر نہ ہو وہاں حالات کے مطابق مدت مقرر ہوتی ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ لگتا ہے تعیناتی کےوقت حکومت نے آرٹیکل 243 پڑھتے ہوئے اس میں اضافہ کر دیا،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو دستاویزات صبح منگوائی تھیں وہ آئی ہیں؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ جی ایچ کیو میں کہہ دیا ہے ،کچھ دیر میں آجائیں گی،
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہمارے پاس کوئی بھی نہیں آتا ،پہلی بار ریاض حنیف راہی آیا ہے اس کوچھوڑیں گے نہیں،سب کہتے ہیں عدالت ازخود نوٹس لے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ قوانین 3 ماہ میں تیار کرلیں گے؟اگر 3 ماہ میں قوانین تیار ہوگئے تو پھر آرمی چیف کو 3 ماہ کی توسیع مل جائے گی،کیا ہم آپ کی بات پرلکھ دیں کہ 3 ماہ میں قوانین بنادیں گے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ اپنے فیصلے میں مدت کا تعین نہ کریں وہ ہم کرلیں گے،قوانین بنانے کے بعد انہیں پارلیمنٹ میں بھی پیش کرنا ہے۔
جنرل (ر)کیانی اورراحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کردیاگیا،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جنرل (ر)کیانی کےنوٹیفکیشن میں بھی نہیں لکھا کہ توسیع کس نے دی؟اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہاکہ نوٹیفکیشن سے پہلے سمری تیار کی جاتی ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نوٹیفکیشن تو وہ دستاویز ہوتی ہے جو غلطیوں سے پاک ہونی چاہیے،جن جن لوگوں نے ملک کی خدمت کی وہ ہمارے لیے محترم ہیں،آئین اورقانون سب سے مقدم ہے،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ گزشتہ 3 آرمی چیفس میں سے ایک کو توسیع ملی دوسرے کو نہیں،اب تیسرے آرمی چیف کو توسیع ملنے جا رہی ہے،آرٹیکل 243 کے مطابق تعیناتی کرنی ہے تو مدت نکال دیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کم از کم آرٹیکل 243 پر تو مکمل عمل کریں،کم از کم آرٹیکل 243 پر تو مکمل عمل کریں، مراعات کا تعین نہیں کیا گیا،اٹارجنرل نے کہاکہ غیر معینہ مدت کے لیے بھی تعیناتی نہیں ہو سکتی،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ پہلے بھی جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت کے لیے تعینات کیا گیا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیا قانون بنانے کے لیے وقت لگے گا،آرمی چیف سے متعلق الگ قانون بنایا جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آئین و قانون کو کیا دیکھا ہمارے خلاف پراپیگنڈہ شروع ہوگیا،کہہ دیا گیا کہ تینوں ججز سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں، کہا گیا کہ یہ ففتھ جنریشن وار ہے، ہمیں پوچھنا پڑا کہ یہ کیا ہوتی ہے؟چیف جسٹس نے کہاکہ آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوشل میڈیا کسی کے کنڑول میں نہیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ تین سال کے لیے توسیع دے رہے ہیں،جسٹس مظہر عالم نے کہاکہ پہلے تو کسی کو ایک سال کسی کو دو سال کی توسیع دی گئی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کل ہم کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائر ہوتے ہیں، آپ کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائر نہیں ہوتے، آج کہہ رہے ہیں کہ ہوتے ہیں،آرمی ایکٹ میں ابہام ہے، پارلیمنٹ کو اس ابہام کو دور کرنا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ رولز میں ترمیم کرتے رہے ہیں، پھر ہم نے ایڈوائزری کردار لکھ دیا۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ فروغ نسیم کا بھی مسئلہ حل ہو گیا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کی مداخلت سے مسئلے حل ہو جائیں گے،ہمارے پاس ریاض راہی آئے ہم نے جانے نہیں دیا،لوگ کہتے ہیں عدالت خود نوٹس لے ،ہمیں جانا نہ پڑے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ عدالت کے دروازے کھلے ہیں کوئی آئے تو سہی،آرمی چیف کے حوالے سے تیار کی گئی سمری میں ہمارا ذکر بالکل نہ کریں،یہ کام وزارت دفاع کا ہے،وزارت دفاع کی جانب سے جو سمری آئی ہے اس میں سپریم کورٹ کا ذکر ہے،ہمارا ان سمریوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ سمری سے عدالت سے متعلق لکھاہوالفظ حذف کردیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے جن غلطیوں کی نشاندہی کی آپ نے انہیں بہتر کیا،اٹارنی جنرل نے کہاکہ جو حصہ عدالت نے حذف کرنا ہے کردے،باقی ہم صحیح کرلیں گے،جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ مدت ملازمت کا تعین قوانین کے مطابق کریں،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ نے سمری میں 243 شق کا حوالہ دے کر3 سال کی مدت لکھ دی ہے،سمری میں جس آئین کا ذکر ہونا چاہیے،وہ ہے ہی نہیں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ 243 میں بہتری کرلیں گے،حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ آرٹیکل 243 میں تنخواہ،الاوَنس اور دیگر چیزیں شامل کریں گے،اس کا بیان حلفی بھی دینے کےلئے تیار ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ ہمیں بیان حلفی دیں کہ 6 ماہ میں قانون میں ترمیم کردیں گے،قانون میں ترمیم چیف آف آرمی سٹاف کی تقریر،دوبارہ تعیناتی اور توسیع سے متعلق ہوگی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ آپ تین سال کےلئے توسیع دے رہے ہیں، عدالت کی مداخلت سے مسئلے حل ہو جائیں گے،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ آرمی چیف دفاع پر نظررکھیں یا آپ کےساتھ بیٹھ کرقانونی غلطیاں دورکریں؟چیف جسٹسآپ نے سمری میں آرٹیکل 243 کا حوالہ دے کر3 سال کی مدت لکھ دی ہے،فروغ نسیم نے کہاکہ عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ آرٹیکل243 میں بہتری کرلیں گے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک بجے تک سمری بہتر طریقے سے تیار کرکے لے آئیں،آپ سمری سے 3 سال کی مدت ملازمت کے الفاظ حذف کریں گے،10رکنی فل کورٹ بیٹھے گا تب تک آپ سمری تیار کرکے لے آئیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اگر تاخیرکریں گے تو اس کے ذمے دار آپ ہوں گے،جو کچھ کارروائی میں ہوا ہے ہم ریکارڈ کا حصہ بنا دیں گے
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کو بار بار پڑھتے ہیں تو نئی چیز کھل جاتی ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہم تو پہلی بار پڑھتے ہیں تو کچھ نکل آتا ہے،نوٹیفکیشن میں عدالت عظمیٰ کا ذکر نہ کریں،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 6ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کر لیں،آج ہی سمری لے آئیں ، 3نقاط کا خیال رکھیں ، سمری سے تین سال کی مدت کو بھی ختم کریں ، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ 6ماہ میں قانون سازی کرنے کا بیان حلفی دیں،جو تبدیلیاں کرنی ہیں کرلیں ، ہمارے پاس رات12 بجے تک کا وقت ہے ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6ماہ کی مشروط توسیع کی اجازت دیدی،عدالت نے کہاہے کہ آرمی چیف کی تقرری 6 ماہ کےلئے ہوگی،توسیع کے معاملے کوقانون سازی مکمل ہونے کے بعد دیکھا جائےگا، عدالت نے کہا کہ آرمی چیف کا تقرر صدر وزیراعظم کی مشاورت سے کرتا ہے،حکومت نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کیلئے6 ماہ کا وقت مانگا،آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع 28 نومبر سے شروع ہو رہی ہے۔
عدالت نے کہا کہ آرمی چیف کی تقرری چیلنج کی گئی تھی،ہمارے سامنے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ آیا،آئین کے آرٹیکل 243 کا معاملہ سامنے آیا،جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن جمع کرایا گیا،عدالت نے کہاکہ ہم نے آئین کے آرٹیکل 243بی کا جائزہ لیا،آرمی ایکٹ اور اس کے رول کا جائزہ لیا،ہمارے سامنے یہ سوال آیا کہ کیا توسیع دی جاسکتی ہے یا نہیں؟عدالت نے کہاکہ اٹارنی جنرل نے عدالتی سوالوں کا جواب دیا،حکومت ایک سے دوسرا موقف اپناتی رہی،وفاقی حکومت تقرری پر اپنی پوزیشن بدلتی رہی، عدالت نے مزید کہاکہ دستاویزات کے مطابق پاک آرمی کا کنٹرول وفاقی حکومت سنبھالتی ہے،چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر صدر وزیراعظم کی مشاورت سے کرتا ہے،آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کے حوالے سے قانون خاموش ہے،عدالت نے کہاکہ حکومت نے مسلح افواج سے متعلق قوانین میں ترامیم کیلئے6 ماہ کا وقت مانگا،ہم معاملہ پارلیمنٹ اور حکومت پر چھوڑتے ہیں،عدالت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں6 ماہ کی مشروط توسیع کردی،عدالت نے کہاکہ آرمی چیف کی تقرری 6 ماہ کےلئے ہوگی۔