جماعتوں کی تشکیل اور تقسیم؟

  جماعتوں کی تشکیل اور تقسیم؟
  جماعتوں کی تشکیل اور تقسیم؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان بننے کے بعد بہت سارے کام نوزائیدہ مملکت کو سرانجام دینا پڑے، ان میں سے اس وقت بڑی ذمہ داری فوج کے پاس تھی،بنیادی طور پر افواج پاکستان کی ذمہ داری ملک کی جغرافیائی حدود کی حفاظت تھی لیکن امور حکومت میں دخل اندازی شروع ہو گئی۔آخر کار ملک پر پہلا مارشل لاء 1958ء میں مسلط کر دیا گیا۔حیرت انگیز طور پر اس غیر آئینی مارشل لاء کو آج بھی کچھ تاریخ دان سنہری دور قرار دیتے ہیں اسی دورمیں ملک کے اندر مذہبی منافرت شروع ہوئی۔ سب سے پہلے ’سواد اعظم‘ کے نام سے کراچی میں مختلف مواقع پر قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا۔محرم الحرام کے جلوسوں میں رکاوٹیں اور فائرنگ کے بعد عید میلاد النبیؐ کے جلوسوں پر بھی فائرنگ ہوتی رہی اور یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ لیکن مذہب کے نام پر بدامنی کو روکنے کے لیے حکومت کوئی بہتر نتائج نہ دے سکی۔ پھر کراچی بس حادثے میں ایک یونیورسٹی طالبہ جاں بحق ہو گئی،تو اسے لسانی رنگ دیا گیا، ان دنوں نوجوان لیڈرمقرر کی شکل میں الطاف حسین سامنے آئے، اس پر اس کی سرپرستی شروع کر دی گئی،مذہبی منافرت کے خاتمے کے لیے لسانی پلیٹ فارم ایم کیو ایم تشکیل دیا گیا،جس میں اردو بولنے والوں میں دیوبندی،بریلوی، شیعہ، اہلحدیث مکاتب فکر کے پیر وکار سب اکٹھے ہو گئے۔ جب الطاف حسین کو ملکی اداروں کا سہارا ملا تو بیرونی قوتوں نے بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اس پر سرمایہ کاری شروع کر دی پھر کیا تھا، تھوڑے ہی عرصے میں کراچی شہر کو یرغمال بنا لیا گیا۔ ایم کیو ایم ایک بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آئی۔دہشت گردی،بھتہ خوری،ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے صنعتی تجارتی شہر کے امن اور ترقی کو تباہ کردیا گیا۔پھر جن اداروں نے ایم کیو ایم کو پروان چڑھایا تھا،ا نہیں کے لئے وہ درد سر بن گئی۔پھر انہوں نے اپنے ہی بنائے اس کھلونے کو توڑنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی اور ایم کیو ایم کئی جماعتوں میں تقسیم ہو کر اپنی سیاسی قوت کھو گئی۔


1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد دونوں ممالک کے مذاکرات کے دوران ذوالفقار علی بھٹوکی سحرانگیز شخصیت سیاست کے افق پر نمودار ہوئی،پھروہ وقت بھی آیا کہ1970ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی ایک بڑی قوت بن کر سامنے آئی۔ حکومت تشکیل دی۔ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری حکومت بننے کے ساتھ ہی انتخابی دھاندلی کے نام پر مذہبی جماعتوں کو اکٹھا کیا گیا تو پی این اے کی تحریک کے نتیجے میں بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوا۔ جنرل ضیاء الحق مارشل لاء کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اورلیڈروں پر انتہائی غیر انسانی تشدد کیا گیا۔کچھ لیڈروں کو ورغلایا گیا اور وہ پارٹی سے علیحدہ ہو گئے یاخاموشی اختیار کر لی۔پیپلز پارٹی کے ورکرز نے بڑی جوانمردی کے ساتھ آمر کی بربریت اور ظلم کا مقابلہ کیا۔حرم کعبہ میں کئے گئے انتخابات کے وعدے پر عملدرآمد کی بجائے جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں غیر آئینی ریفرنڈم کروا دیا  اور نعرہ دیا کہ عوام پاکستان میں اسلامی نظام چاہتے ہیں یا نہیں؟اس ریفرنڈم کے جعلی نتائج کو جواز بنا کر ضیاء الحق نے عوامی مینڈیٹ کا دعویٰ کردیاکہ وہ اقتدار میں رہیں گے پھرانہوں نے ملک کے اندر اسلامی نظام بعنوان’فقہ حنفی‘ نافذ کرنے کا اعلان کر دیا جبکہ فوج اوراس کے ادارے ملک میں شریعت نافذ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ 


دوسری طرف یہ مطالبہ بھی سامنے آ گیا کہ اہل سنت کے لئے ’فقہ حنفی‘ ہے تو اہل تشیع کے لئے’فقہ جعفری‘ کیوں نہیں؟اس کی عملی جدوجہد کے لئے بھکر کے شیعہ کنونشن میں مفتی جعفر حسین مرحوم کی قیادت میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی بنیاد رکھ کر جدوجہد شروع کر دی گئی۔ضیا الحق نے بظاہر زکوٰۃ و عشر آرڈیننس جاری کر کے فقہ حنفی کو نافذ کرنے کا عملی اقدام بھی کر دیا مگر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے مزاحمت کی کہ فقہ جعفری میں کرنسی نوٹوں پر نہیں، زرعی اجناس اور مال مویشی پر زکوٰۃ ہوتی ہے،جبکہ سالانہ بچت پر خمس ادا کیا جاتا ہے۔وفاقی سیکرٹریٹ اسلام آباد کا گھیراؤ کیا گیا۔مذاکرات کی میز پر شیعہ عقیدے کے مطابق زکوٰۃ سے استثنیٰ کی ترمیم کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا۔اس طرح ضیاء الحق کے مارشل کو طول دینے کے لئے معاشرے میں اختلافات پیدا کرنے کی غرض سے بہت سے اقدامات کئے گئے جن کا ذکر میری کتاب ”سیاسی بیداری“ میں تفصیل سے موجود ہے۔ مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد قیادت نوجوان عالم دین علامہ عارف حسین الحسینی کی شکل میں سامنے آئی۔تنظیم سازی کے ذریعے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ملک بھر میں منظم تنظیم اور علامہ عارف الحسینی طاقتور قائد کی حیثیت سے سامنے آئے،تو اسی دوران ایجنسیوں کی کارکردگی نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔حق نواز جھنگوی کو سپاہ صحابہ کی تنظیم سازی کے لئے سہارا دیا گیا۔اور اس انتہا پسند تنظیم کانعرہ آج بھی گھٹیا سوچ کے حامل ایک خاص گروہ کے منہ سے کبھی کبھار سنا جا سکتا ہے۔یہ قوتیں ملک کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوئیں تو انہیں توڑ کر نئی مذہبی جماعتوں کو تشکیل دیا گیا۔مسلم لیگ(ن) کے ووٹ بینک کو کم کرنے کے لئے نفرت کی دیواریں کھڑی کی گئیں۔راولپنڈی میں مذہبی جماعت کے ملک گیر اجتماع کو حکومت گرانے کے لئے استعمال کیا گیا پھر یہ جماعت بھی تقسیم ہو گئی۔


تحریک انصاف کو حکومت پر براجمان کرواکر جب تناور درخت بنا یا گیا تو اس نے اپنے ہی ’سرپرست کاریگر‘ کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں تو وہ جو پی ٹی آئی کو تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر لائے تھے۔ اب وہی سرپرست ادارے اس فکر میں ہیں کہ کس طرح اس پودے کا خاتمہ کیا جائے۔اس طرح اپوزیشن کی ساری جماعتوں کو اکٹھا کر کے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار ان کے حوالے کر دیا کیا گیا لیکن اب بھی حمایت کی وجہ سے ہی پی ٹی آئی نے بڑے بڑے جلسے کئے اور لانگ مارچ کر رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ دھرنے بھی دے۔
میں اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ اداروں کا کام ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ہے،وہ اس پر توجہ دیں۔جب وہ اچھی نیت سے اقتدار میں حصہ دار بننے کا تجربہ کرتے ہیں۔ادارے کچھ قوتوں کو سہارا دے کر ان سے مقاصد حاصل کرتے ہیں،بعد میں لگائے ہوئے پودے کو ملک کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہوئے اس کی شکست و ریخت پر کام شروع کر دیا جاتا ہے۔جیسے کہ ایم کیو ایم اورسواد اعظم کے علاوہ مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ہوا۔ اداروں سے گذارش ہے کہ غیر فطری سیاسی عمل کے بجائے  اپنے ملک کی سکیورٹی پر توجہ دیں۔آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کریں۔عوامی مسائل سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیں۔ ہمیں شکست وریخت کی بجائے تعمیر کی طرف توجہ دینی چاہیے۔دوسری طرف افسوسناک بات ہے کہ سیاسی جماعتوں نے بھی ماضی سے سبق سیکھا ہے اور نہ ہی سیاسی قائدین نے اپنی مبینہ کرپشن سے توبہ کی ہے۔ ماضی کی الزاماتی سیاست ان دنوں پھر عروج پر ہے۔ مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے ادارو ں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب ہمیں ماضی کی تلخیوں سے سبق لیتے ہوئے مزید گند سے پرہیز کرنا چاہئے۔

مزید :

رائے -کالم -