اقلیتوں کے حقوق اور پاکستان

اقلیتوں کے حقوق اور پاکستان
اقلیتوں کے حقوق اور پاکستان
کیپشن: kashif darwesh mandrani

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جنابِ من !مسلمانان ہند کی بے لوث قربانیوںاور جدوجہد کے نتیجہ میں قائداعظمؒکی ولولہ انگیز قیادت میں 14اگست 1947ءکو ایک نیا اسلامی ملک دنیا کے نقشے پر ابھرا ۔قبل ازیں یہ وسوسہ اور خدشہ لوگوں کے درمیان جنم لے چکا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جائے گا اور زمین باوجود فراخی کے ان کے لئے تنگ ہو جائے گی ۔اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے بڑی شدت سے اس خدشہ کو رد کیا اور دو ٹوک الفاظ میں اپریل 1941ءمیں ارشاد فرمایا :”اقلیتیں جہاں بھی ہوں ان کے تحفظ کا انتظام کیا جائے گا۔ مَیں نے ہمیشہ یقین کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ میرا ایقان غلط نہیں ۔کوئی حکومت اور مملکت اپنی اقلیتوں کو اعتماد اور تحفظ کا یقین دلائے بغیر کامیابی کے ساتھ ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتی ۔کوئی حکومت ناانصافی اور جانبداری کی بنیاد وں پر کھڑی نہیں رہ سکتی ۔اقلیت کے ساتھ ظلم و تشدد اسکی بقا کا ضامن نہیں ہو سکتا ۔اقلیتوں میں انصاف و آزادی ،امن و مساوات کا احساس پیدا کرنا ہر انتخابی طرز حکومت کی بہترین آزمائش ہے “۔
حضرت قائداعظم ؒ کے مندرجہ بالا الفاظ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کے لئے امن و سلامتی اور حریت فکر کے ضامن ہیں ۔خواہ وہ نسلی اعتبار سے اقلیت میں ہیں ،خواہ گروہی اعتبار سے ،خواہ لسانی اعتبار سے یا عقیدہ اور مسلکی لحاظ سے اقلیت میں ہیں، مگر انتہائی افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعصب اور نفرت کی ہمہ گیر فضا نے اقلیتوں سے ان کے بنیادی حقوق تک چھین لئے ہیں اور وہ یا تو بیرون ملک مجبور ہو کر پناہ لے رہے ہیں یا اس سوسائٹی کا عضو معطل ہونے کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں اور کوئی ان کا پُرسان حال نہیں مثلاًمسیحی برادری جو کہ ملکی آبادی کا تقریباً ایک فیصد ہے اس وقت شدید عد م تحفظ کا شکار ہے اور پچھلے سال22ستمبر2013ءکو پشاور کے ایک چرچ پردو خود کش بم دھماکوں کے نتیجہ میں اسی (80)سے زائد افراد اپنی جان سے گزر گئے، جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی ۔دہشت گردی کے اس حملے کی تلخ یاد ابھی تک ان کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی، حالانکہ اسلام اس طرح کے سفاکانہ اقدامات کی قطعاًاجازت نہیں دیتا ۔
 ہادی عالم ،رحمت اللعالمین نے واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ:”جو مسلمان کسی ایسے غیر مسلم کے قتل کا مرتکب ہو گا، جو کسی معاہدہ کے نتیجہ میں اسلامی حکومت میں داخل ہو چکا ہو وہ قیامت کے دن جنت کی ہوا سے بھی محروم رہے گا۔“ (بخاری :کتاب الجہاد (حیرت ہوتی ہے ان ظالم لوگوں پر کہ جو اس طرح کے انذار کے باوجود اقلیتوں کو اپنے مظالم کا نشانہ بناتے ہیں اور ذرا بھی خدا کا خوف ملحوظ خاطر نہیں رکھتے ۔اِسی طرح ہندو جو زیادہ تر سندھ کے علاقوں میں بود و باش رکھتے ہیں اور زیادہ تر غریب لوگ بے چارے تھر پارکر میں غربت اور قحط کا شکار ہو کر لقمہ ¿ اجل بن رہے ہیں ۔ان میں سے کئی خاندان نفرتوں کے ماحول سے مجبور ہو کرانڈیا چلے گئے، مگر ہمارے ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔بے حسی اور تغافل شعاری کی انتہاءکر دی ۔دراصل ہمارے ہاں غریب اور کمزور طبقہ کو استحقار اور تذلیل کا نشانہ بنانا گویا ایک رواج بن چکا ہے مثلاً یہ کہ دیہی علاقوں میں مزدور اور محنت کش لوگوں کو ”کمی کمین“کہہ کر ان کی تحقیر اور تذلیل کی جاتی ہے، جبکہ اسلام کے نزدیک توقیر اور اکرام کا معیار” تقویٰ“ ، یعنی پرہیزگاری کو قرار دیا گیا ہے ۔

بہر حال پاکستان میں بسنے والے پرامن اور عددی لحاظ سے اقلیت ہونے کی وجہ سے بہت سے طبقات بڑی بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ہزارہ کمیونٹی اس کی ایک مثال ہے کہ جو شیعہ کمیونٹی کی ایک شاخ ہے۔ 2013ءمیں ایک سو سے زائد افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور اس سال کا آغاز ہی ہزارہ قبیلے کے لئے کوئی اچھی خبر لے کر نہیں آیا اور21جنوری2014ءکو درین گڑھ کے نزدیک حملہ میں 30سے زائد افراد راہی ملک عدم ہو گئے اور 37افرد زخمی ہو گئے ۔یہ حقیقت ہے کہ تعصب اور نفرت کے شعلوں نے ہماری اعلیٰ اقدار اور روایات کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے، محض مسلک اور مذہب یا نسلی اور گروہی اختلاف کی وجہ سے کسی بھی اقلیت کو مظالم کا نشانہ بنانا کہ گویا وہ ایک عضو مفلوج کی طرح سوسائٹی میں موجود ہو دنیا کا کوئی انصاف یا قانون اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا اور پھر اس طرح کا تعصب اور اس طرح کی نفرت سوسائٹی کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہوتی ہے اور ایسا معاشرہ پھر جمود کا شکار ہو جاتا ہے اور اس طرح کی رجعت پسندی سے ارتقاءاور نشو و نماکا عمل رک جاتا ہے اور معاشرے سے رواداری اور تحمل عنقا ہو جائے تو صرف مسلک ،مذہب ،رنگ اور نسل کے اختلاف کی وجہ سے انسانوں کا قتل بالکل معمولی خیال کیا جاتا ہے۔
جن معاشروں میں ایسی حالت پیدا ہو جائے اورکمزور اور معصوم لوگوں کا سانس لینا تک دشوار ہو جائے ایسے معاشرے پھر خدا کے غضب کا شکا ر ہو کر اپنے منطقی انجام سے دو چار ہوتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہمارے ملک میں رواداری اور مساوات کی ہمہ گیر فضا پیدا ہو اور حقیقی معنوں میں یہ قائداعظمؒ کا پاکستان بن جائے اور ہمارے ارباب اختیار بجائے ذاتی مفاد کی خاطر اسی طرح کا پاکستان بنانے کے لئے کمر کس لیں کہ قائداعظم ؒ نے 11اگست1947ءکو فرمایا ”آپ آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں اور آزاد ہیں کہ مسجدوں میں یا پاکستان کی حدود میں کسی عبادت گاہ میں جائیں ۔آپ کا تعلق کسی مذہب ،کسی عقیدے سے یا کسی ذات یا قبیلے سے ہو ۔اس کا مملکت کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں“۔ خدا کرے ایسا ہی ہو اور ہمارا پاکستان ایک ایسا ملک بن جائے کہ ہر شہری امن اور سلامتی سے زندگی بسر کر سکے۔ آمین۔ ٭

مزید :

کالم -