’’بدترین سرکاری و مہنگے ترین پرائیویٹ تعلیمی ادارے و ہسپتال‘‘
چند روز قبل ایک بہت ہی قریبی دوست عدنان شیخ نے کال کی اور وہ بہت ہی اہم موضوعات پر مجھے لکھنے کو کہا۔ یہ دو اہم ترین موضوعات ہیں جن سے شاید ہی کوئی ذی روح پریشان نہ ہو۔
جی ہاں بالکل ہمارے ملک کے دو بڑے مسائل تعلیم اور صحت ، جن پر سیاست دان عوام کو بیوقوف بنا کر ووٹ تو لے لیتے ہیں،لیکن الیکشن جیتتے ہی سب دعوے بھلا دیئے جاتے ہیں اور پھر اگلے الیکشن سے پہلے وہی جھوٹے نعرے، جن پر عوام پھر یقین کر لیتے ہیں۔
بہرحال اس میں عوام بھی برابر کے شریک ہیں جو ایسے لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں، اپنے بنک بیلنس بڑھانے اور اپنے کاروبار چمکانے کے لئے الیکشن لڑتے اور جیتتے ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود سے ان کو کوئی سرو کار نہیں، 90فیصد سے زائد عوام اپنی آمدن کا 90 فیصد حصہ صرف تین کاموں میں خرچ کر رہے ہیں۔ بجلی کے بل، بچوں کی فیسیں، علاج و معالجہ، باقی10فیصد میں وہ کھانا پینا و دیگر اخراجات پورے کرتے ہیں یہ تین بڑے اخراجات 90 فیصد پاکستانیوں کے گلے میں ایک پھندے کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔
غریب عوام دن میں 16 سے 18گھنٹے کام کر رہے ہیں اور تقریباً اپنی ساری آمدن انہی تین بڑے اخراجات میں لگا دیتے ہیں۔ شادی بیاہ، غمی خوشی یا کوئی بھی غیر متوقع اخراجات کو پورا کرنے کے لئے یا تو قرضے لیتے ہیں یا پھر کچھ بھی صحیح یا غلط کر کے ایسے وقت کو گزارا جاتا ہے اور یہ ہمارے ملک میں کرپشن کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔
آج کل ٹیکس وصولی کے لئے ٹی وی اور اخبارات میں بہت سے اشتہارات آ رہے ہیں کہ ’’بروقت ٹیکس دیں تاکہ ملک ترقی کر سکے‘‘۔ ’’ایک اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیں اور ٹیکس دیں‘‘۔
میری ایف بی آر اور صوبائی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے سینئر افسران سے یہ گزارش ہے کہ آپ ضرور ٹیکس وصول کریں،کیونکہ آپ صحیح فرماتے ہیں کہ اسی ٹیکس سے پورے ملک کا نظام چلتا ہے،لیکن کیا یہ آپ کا فرض نہیں بنتا کہ آپ تھوڑا یہ بھی خیال رکھیں کہ جو ٹیکس آپ نے اتنی مشکلوں سے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل کیا۔ اس وصول شدہ عوام کے پیسے کو کہاں خرچ کیا جا رہا ہے؟کیا وہ پیسہ عوام پر خرچ ہو رہا ہے؟ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کیا ہو رہا ہے؟ کیا عوام کو بنیادی سہولتیں میسر ہیں؟ جو کہ حکومت کے فرائض میں شامل ہیں،کیا عوام کو بنیادی طبی و صحت کی سہولتیں میسر ہیں؟ کیا معیاری تعلیم و تدریس دی جا رہی ہے؟ ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی حالت کیا ہے؟ عوام کو بروقت انصاف مل رہا ہے؟ کیا بوڑھوں، یتیموں اور بیواؤں کی فلاح و بہبود کے لئے خاطر خواہ اقدامات کئے جا رہے ہیں؟کہیں عوام مہنگائی کے بوجھ تلے تو نہیں دبے جا رہے؟ ملک میں کاروباری حالات کیسے ہیں؟ٹیکس دہندگان کو ایسی کیا سہولتیں میسر ہیں جو ٹیکس نادہندگان کو میسر نہ ہوں؟
جناب اگر تو آپ ٹیکس وصول کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو یہ یقین دہانی بھی کروا دیں کہ آپ سے لیاگیا ٹیکس آپ ہی کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو گا، تو آپ یقین کریں آپ کو ٹیکس وصول کرنے کے لئے کروڑوں روپے کے اشتہارات کی ضرورت نہیں پڑے گی، لوگ خودبخود بہت ایمانداری سے ٹیکس جمع کروائیں گے،کیونکہ اُن کو یقین ہو گا کہ اُن سے لی گئی ٹیکس کی رقم صحیح جگہ پر استعمال ہو گی۔
جس طرح لوگ زکوٰۃ بہت ایمانداری سے ادا کرتے ہیں،لیکن زکوٰۃ ادا کرتے وقت ان کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ زکوٰۃ کو صحیح حقدار تک پہنچائیں،لیکن بدقسمتی سے ہمارے عوام یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان سے لیا گیا ٹیکس حکمرانوں کی جیبوں میں جائے گا۔
گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا برا حال ہے ایک وقت تھا جب کوئی طالب علم یہ بتاتا کہ وہ کسی پرائیویٹ سکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہے تو سب سے پہلے یہ خیال آتا تھا کہ یہ اتنا نالائق ہے کہ اسے کسی اچھے گورنمنٹ سکول/ کالج میں داخلہ نہیں ملا، پرائیویٹ سکول یا کالج میں تعلیم حاصل کرنا ہتک سمجھا جاتا تھا اور آج حالات بالکل الٹ ہو چکے ہیں۔
اب غریب سے غریب آدمی بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکول میں تعلیم دلوائے گا کیونکہ گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں نہ تو استاد ہوتے ہیں، نہ فرنیچر، نہ لائٹ، نہ پنکھے۔ کئی دوسرے صوبوں میں تو سرے سے سکول یا ہسپتال موقع پر موجود ہی نہیں ہوتے لیکن فائلوں میں وہ موجود ہیں جنہیں Ghost Schools کا نام دیا جاتا ہے۔ کاغذوں میں سکول بھی موجود ہیں، استاد و دیگر عملہ بھی موجود ہے جو کہ ماہانہ تنخواہیں و مراعات بھی حاصل کر رہے ہیں۔
اسی طرح بنیادی مرکز صحت بھی صرف کاغذوں میں بنے ہوئے ہیں، موقع پر گاؤں کے چودھری کا قبضہ ہوگا جس میں گائے بھینس بندھی ہوں گی۔
گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں سے تنگ عوام پرائیویٹ سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں تعلیم و علاج دونوں میسر ہیں لیکن اس قیمت میں کہ عام آدمی تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ حکومتی اداروں کے برے حالات دیکھ کر عام آدمی بھی پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں میں جانے کے لئے مجبور ہیں اور یہ پرائیویٹ سکول/ کالج و ہسپتال عوام کا خون چوس رہے ہیں۔
گورنمنٹ سکولوں میں پہلی جماعت سے آغاز ہوتا ہے جبکہ پرائیویٹ سکول 3 سال مزید کمائی کرتے ہیں، 3 سال میں پلے گروپ، نرسری اور پریپ پڑھائے جاتے ہیں پھر جا کر پہلی جماعت میں پہنچتے ہیں یعنی پرائیویٹ سکول 13 سال کی بجائے 13 سال تک عوام کو لوٹتے رہتے ہیں۔ فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ ایک بچے کی فیس والدین کے پورے مہینے کی تنخواہ سے زیادہ ہوتی ہے۔
ظلم کی انتہا یہ ہے کہ گرمیوں کی تین ماہ کی چھٹیوں میں بھی پوری فیس لی جاتی ہے اور کئی سکولوں میں لیٹ فیس جرمانہ بھی لازماً وصول کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ آئے دن کے اخراجات علیحدہ ہیں، سکول یونیفارم سے لے کر کتابوں تک ہر چیز سکول سے خریدنا پڑتی ہے، مجبور والدین اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لئے یہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں چاہے اس کے لئے وہ اپنے آپ کو ہی کیوں نہ بیچ دیں۔
یہی حالات پرائیویٹ ہسپتالوں کے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک جب پرائیویٹ ہسپتالوں کا رواج نہیں تھا تو 95 فیصد بچے نارمل پیدا ہوتے تھے اور اب ان پرائیویٹ کلینکس اور ہسپتالوں کی ستم ظریفی دیکھیں کہ تقریباً 95 فیصد بچے آپریشن کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں جی ہاں کیونکہ نارمل ڈلیوری سے ہسپتال کو صرف 20 سے 25 ہزار کمائی ہوتی ہے جبکہ آپریشن کی صورت میں 50 ہزار سے لاکھ روپے تک کمائی تو لازماً ہے۔ روم چارجز علیحدہ، سینئر ڈاکٹر Visit اور دیگر ٹیسٹ وغیرہ شامل کرکے ایک مریض سے لاکھوں نکلوا لیتے ہیں۔
ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے یہ حالات دیکھ کر عوام اتنے مایوس ہو چکے ہیں کہ اب انہیں کوئی امید نظر نہیں آتی لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ ابھی کچھ عرصے میں امید کی ایک کرن پھر نظر آئی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ شاید مہنگائی میں دھنسی ہوئی عوام کی آواز اعلیٰ عدلیہ کے کانوں تک پہنچ چکی ہے، شاید ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے خلاف بھی کوئی کریک ڈاؤن ہو، حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن رفتار بہت آہستہ ہے۔ آج فیس بک پر ایک بہت خوبصورت طنزیہ بات لکھی تھی جو کچھ یوں تھی:
’’DHQ کے ڈاکٹرز کو صرف اس بات کی لاکھوں روپے تنخواہ دی جاتی ہے کہ وہ مریض کے لواحقین کو یہ بتا سکیں کہ آپ اپنے مریض کو لاہور لے جائیں۔‘‘
یہ تو حالات ہیں سرکاری ہسپتالوں کے، آوے کا آوہ ہی بگڑا پڑا ہے کہ چھوٹے شہر تو دور کی بات ہے پاکستان کے کسی بھی بڑے سے بڑے ہسپتال میں ہمارے سیاست دانوں اور ان کے عزیز و اقارب کا علاج ممکن نہیں۔ آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ پورے پاکستان میں ایک بھی اعلیٰ درجے کا ہسپتال موجود نہیں جہاں پر ان بڑے بڑے لوگوں کا علاج ہو سکے۔ نہ کوئی ایسا حکومتی تعلیمی ادارہ ہے جہاں پر ان وی آئی پیز کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہوں۔ سب سیاست دانوں کے بچے اعلیٰ ترین پرائیویٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں یا پھر بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔
جب غریب عوام کو نہ اچھی اور معیاری تعلیم میسر ہو اور نہ ہی طبی سہولت تو پھر ایسے حالات میں یا تو وہ اپنے بچوں کو پڑھاتے ہی نہیں، بلکہ انہیں کسی روزگار پر لگا دیتے ہیں تاکہ گھر کی روزی روٹی چل سکے۔
اسی طرح جب کوئی غریب آدمی بیمار پڑ جاتا ہے تو وہ مہنگے پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج نہیں کروا سکتا تو ایسے حالات میں یا تو وہ پیروں فقیروں اور دم درودوں کے چکر میں پڑ جاتا ہے یا پھر نیم حکیموں کے ہتھے چڑھ کے اپنی زندگی کو جلدی گنوا لیتے ہیں۔
ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میری وزیراعظم پاکستان، وزیراعلیٰ پنجاب، وفاقی و صوبائی وزراء صحت و تعلیم، وفاقی و صوبائی سیکرٹریز برائے صحت و تعلیم سے گزارش ہے کہ خدارا تعلیم اور صحت پر توجہ دیں۔ اگر آپ سرکاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا معیار نہیں بڑھا سکتے، جہاں پر غریب عوام کو جدید تعلیم و صحت کی سہولیات میسر ہوں، کتابیں و ادویات مفت دی جائیں۔ اگر آپ ان میں بہتری نہیں لا سکتے تو ملک میں موجود تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں، ان پرائیویٹ اداروں میں پڑھانا اور علاج کروانا ناممکن ہو چکا ہے۔ مڈل کلاس لوگ قرضے اٹھا کر زیور اور پراپرٹی بیچ کر اپنے بچوں کو مہنگی تعلیم دلوانے پر مجبور ہیں۔
پرائیویٹ ہسپتال تو مریض کا آپریشن نہیں کرتے جب تک ان کی مکمل فیس نہ جمع کروائی جائے۔
کیا آپ تمام وزارتیں و ادارے مل کر ان کی فیسوں میں کمی نہیں کروا سکتے۔ کیا آپ میں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو پرائیویٹ اداروں کو نارمل سطح پر لا سکے۔