علامہ اقبال ٹاؤن میں وسیع و عریض خالی جگہ تھی جگہ جگہ گڑھوں میں پانی کھڑا رہتا تھا، ہم نے یہاں گلشن اقبال پارک بنا دیا   افتتاح جنرل ضیاء الحق نے کیا 

علامہ اقبال ٹاؤن میں وسیع و عریض خالی جگہ تھی جگہ جگہ گڑھوں میں پانی کھڑا ...
علامہ اقبال ٹاؤن میں وسیع و عریض خالی جگہ تھی جگہ جگہ گڑھوں میں پانی کھڑا رہتا تھا، ہم نے یہاں گلشن اقبال پارک بنا دیا   افتتاح جنرل ضیاء الحق نے کیا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:86
برسوں بعد جب ریس کورس کو ایک خوبصورت پارک میں تبدیل کرنے کا میرا خواب پورا ہوا تو تب میں وہاں موجود نہیں تھا اور ایل ڈی اے چھوڑ گیا تھا۔ لیکن بعد ازاں یہ پارک انہی خطوط پر مکمل کیا گیا تھا جس کا ڈیزائین ہم نے ابتداء میں بنایا تھا، اور یہ بات میرے لیے انتہائی مسرت اور اطمینان کا باعث تھی کہ لاہور کی آرائش کے اس پراجیکٹ میں بھی میرا حصہ تھا۔ 
ایک دن جب میں علامہ اقبال ٹاؤن میں ایل ڈی اے کی ایک بڑی ہاؤسنگ سکیم کا معائنہ کر رہا تھا تو وہاں میں نے ایک وسیع و عریض   خالی جگہ دیکھی جس کے درمیان میں جگہ جگہ بنے ہوئے گڑھوں میں پانی کھڑا ہوا تھا اور درمیان میں اینٹوں کا ایک متروک بھٹہ بھی موجود تھا۔ میں نے اس منصوبے کے نقشے میں دیکھا تو علم ہوا کہ اس جگہ کو پارک کے لیے رکھا گیا تھا۔ میں نے جنرل انصاری سے مشورہ کیا کہ کیوں نہ اس زمین کو کام میں لایا جائے اور یہاں کوئی منصوبہ شروع کیا جائے۔ وہ فوراً میرے اس مشورے پر عمل کیلئے راضی ہوگئے اور اس مقصد کیلئے انھوں نے تھوڑی سی رقم بھی مختص کی تاکہ کام شروع کیا جا سکے۔ میں نے ایک بار پھر باغبانی کے جاپانی ماہر سے رابطہ کیا اور اسے اس خالی زمین پر کچھ ڈیزائین کرنے کیلئے کہا۔ اس سلسلے میں میں نے اسے اپنے سوچے ہوئے ڈیزائین سے آگاہ کیا جو بہت سیدھا سادہ تھا۔ وہاں اوپر نیچے زمین کی 4 مختلف سطحیں تھیں۔ میں نے اُسے کہا کہ ان میں جو سب سے گہری سطح ہے وہاں جھیل بنا دی جائے۔ اور جو سطح زمین سے 6 انچ نشیب میں واقع ہے اس پر کھیلوں کے میدان بنا دئیے جائیں۔ سطح ارضی کو پھولوں کے تختوں اور باغات کے لیے استعمال کیا جائے اور جہاں پر انیٹوں کا بھٹہ تھا اس کو ایک چھوٹی پہاڑی کی شکل دے دی جائے۔ مطمع نظر یہ تھا کہ اس جگہ کے قدرتی حسن کو ابھار کر سامنے لایا جائے۔ اس کا ایک اور فائدہ بھی تھا کہ نشیبی علاقوں کی بھرائی کیلیے باہر سے مٹی لانے کی ضرورت نہیں تھی جس کے لیے ایک بہت بڑی رقم درکار تھی۔ اس باغبانی کے ماہر جاپانی آرکیٹیکٹ نے میرا سارا ڈیزائین سمجھ لیا اور اس کو بنیاد بنا کر ایک خوبصورت منصوبہ تیار کرلیا۔ میں نے بلا تاخیر کام شروع کروا دیا۔ میں وہاں کام کی رفتار اور معیار کو پرکھنے کیلئے ہر اتوار کے دن وہاں پہنچ جاتا تھا،کیونکہ عام دنوں میں بے تحاشہ مصروفیات سے وقت نکالنا مشکل تھا۔ میں نے یہ کام بہت دلجمعی اور جوش و جذبے کے ساتھ مکمل کیا۔ لیکن اس کے با ضابطہ افتتاح سے قبل ہی اس ملازمت کو الوداع کہنا پڑ گیا۔ لیکن یہ پارک لاہور کے چند خوبصورت ترین پارکوں میں سے ایک ہے۔ 67 ایکڑ (270,000m2) پر پھیلا ہوا یہ خوبصورت پارک لاہور کے لوگوں کیلئے ایک بہت پرکشش مقام بن گیا ہے۔ دوسرے شہروں سے بھی بے شمار لوگ اِس کو شوق سے دیکھنے آتے ہیں۔ اس پارک کا نام گلشن اقبال رکھا گیا اور اس کا افتتاح جنرل ضیاء الحق نے کیا تھا۔
ایل ڈی اے میں ٹاؤن پلانر کا ایک عہدہ ہوتا ہے جس کے ذمے ادارے کے کسی بھی منصوبے کی تفصیلی حکمت عملی پر گہری نظر رکھنے کے علاوہ بلڈنگ کنٹرول، ناجائز تجاوزات کا خاتمہ اور چھوٹی ہاؤسنگ سکیموں کی کارکردگی کو بھی پرکھنا ہوتا ہے۔ یہ عہدہ میرے ایک بہت ہی پرانے اور عزیز دوست اشفاق احمد خان کے پاس تھا۔ مجھے شروع ہی سے روزمرہ اور معمول کے ایسے کاموں سے ذرا بھی رغبت نہیں رہی تھی جس میں چیلنج کا ذرا سا بھی پہلو نہ ہو۔ چیف میٹروپولیٹن پلانر کی حیثیت سے میری دلچسپیوں کا محور وسیع و عریض اور باریک بینی سے کی گئی منصوبہ بندی، اپنی حکمت عملی مرتب کرکے اسکی وضاحت کرنا اور اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پالیسیاں اور طریق کار بنانا شامل تھا اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً شہر کی توسیع اور بالیدگی کے انتظامی امور پر بھی نظر رکھنا ہوتی تھی۔ اشفاق ایک بہت ہی محنتی شخص تھا لیکن میری ایل ڈی اے میں موجودگی کے دوران 2دفعہ ایسا ہوا کہ وہ کچھ معاملات میں سخت مشکلات میں گھر گیا۔ایک دفعہ تو شاہد حامد صاحب کے دور میں اور پھر اس وقت جب جنرل انصاری صاحب ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ دونوں مرتبہ اس کو ملازمت سے معطل کر دیا گیا تھا اور مجھے اس کا کام سنبھالنے کو کہا گیا تھا۔ اور یوں یہ تیسرا دفتر ہوتا تھا جہاں مجھے باقاعدگی سے جانا پڑتا تھا کیوں کہ اس دفتر میں ایک تسلسل کے ساتھ عوامی معاملات دیکھے جاتے تھے اور لوگوں کا تانتا بندھا رہتاتھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -