دودھیا پانی والا سمرنالا ۔۔۔جس کے شور میں کچھ سنائی نہیں دیتا
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:173
سُمَّر نالا:
سمرنالا پہنچے تومقامی مسجد میں عشا ءکی اذان ہو رہی تھی۔ سمر نالا ایک خوبصورت جگہ ہے۔ پہاڑوں کے درمیان ایک تند و تیزآبشار نما نالا جس کا دودھیا پانی پتھروں سے ٹکرا تاہے تو ہوا کے ساتھ پھوار دور دور تک جاتی ہے اورشور میں کچھ سنائی نہیںدیتا۔ چلاّس سے داسو کے درمیان جو 57 کلو میٹر کا سخت کٹھن اور بور علاقہ ہے اس پر یہ واحد سٹاپ ہے، ڈرائیور یہا ں رک کر آرام کرتے اور کھانا وغیرہ کھاتے ہیں۔
نالے کے دونوں طرف چند ہو ٹل تھے جو اس وقت برقی قمقموں کی روشنی میں جگمگ جگمگ کر رہے تھے۔ ہو ٹلوں کے باہر ،سڑک کے دونوں طرف ،مسافر گاڑیاں اور ٹرک پارک تھے۔ہماری ویگن ایک ہو ٹل کے باہر روکی گئی۔ اس راہ سے آتے جاتے، میری مدت سے تمنا تھی کہ کبھی سمر نالے پر رکا جائے۔ آج یہ تمنا بھی پوری ہو گئی تھی۔ ہم سب ہوٹل کے ہال میں بیٹھنے کے بجائے پچھلے صحن میں چلے گئے۔ صحن کیا تھا چشمے کے پر شور اور مونھ زور پانیوں کے اوپر لکڑی کے تختوں کو بَلّیوں کی ٹیک دے کر ایک چھجا سا بڑھا یا ہوا تھا۔ تختوں پر صفیں اور دریاں بچھی تھیں اور بہت سے تکیے رکھے تھے۔ہم سب وہیں دراز ہوگئے اور تکیوں سے ٹیک لگائے لگائے نیم دراز حالت میں رات کا کھانا کھایا، وہی ماش کی دال اور آلو بھنڈی ۔ یہاں ہوا خوشگوار تھی جس میں کبھی کبھی سُمّر نالے کی پھوار بھی شامل ہو جاتی۔گرمی اور بے زاری بھرے سفرکے بعد یہ جگہ بہت آسودگی بخش تھی ۔ مجھے اونگھ آنے لگی ،جی چاہتا تھا کل صبح پو پھٹنے تک انہی تکیوں پر سر رکھ کر مزے سے سویا جائے۔ کھا نا کھاتے کھاتے تیز ہوا چلنے لگی جو یک دم آندھی میں بدل گئی ۔ دن بھر کی تپش میں جھلسنے کے بعد یہ آندھی جسم کو اچھی لگ رہی تھی۔ وضو کر کے الگ سے مخصوص عرشے کے تختوں پر عشاءکی نماز پڑھی۔ ہوا کے ساتھ تھوڑی تھوڑی کِن مِن بھی ہونے لگی تھی۔ سجدہ کرتے ہوئے تختوں کے نیچے سمر نالے کا پُر شور اور تیزبہتا پانی دکھائی دیتا تو لگتا کہ یہ تختے زیادہ دیر اس پانی کا بہاؤ برداشت نہیں کر پائیں گے اور میرے جیسا گناہ گار آدمی سجدہ مختصر کر دیتا۔ اب تیز آ ندھی کے ساتھ یہ کِن مِن کانی موٹی مو ٹی بوندوں میں تبدیل ہونے لگی۔ ہم نے جلدی جلدی سلام پھیرا اور سائبان تلے آ کھڑے ہوئے۔ موسم کے تیور بدلتے دیکھ کر ایّوب نے بھی گاڑی سٹارٹ کی اور ہارن بجاکر مسافروں کو جلدی جلدی اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا لیکن جتنی دیر میں مسافر بھاگم بھاگ ویگن میں سوار ہوئے اور گاڑی سُمّر نا لہ سے چلی، تیزبوندیں بارش میں بدل چکی تھیں۔
For death lurks there.... !
یہ شاہراہِ ریشم کا وہ حصہ ہے جو رات کے سفر میں مجھے ہمیشہ خوف زدہ کر تا ہے۔دائیں ہاتھ گھپ اندھیرے میں گم سیاہ ہیبت ناک پہاڑ ، بائیں جانب کہیں گہرائی میں دریائے سندھ کا دھندلا پانی جو کبھی دکھائی دیتا ہے اور کبھی صرف اپنے ہونے کا نا گوار احساس دلاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک پتلی سی سڑک جس میں غزل کے روایتی محبوب کی زلفوں سے زیادہ بل ہیں۔ جس کی چوڑائی اتنی ہے کہ عام طور پر اس کے اوپر ایک وقت میں ایک ہی گاڑی چل سکتی ہے۔ یہاں سے گزرتے وقت رات کے خاموشی اور تا ریکی میں جب سب مسافر سو جاتے ہیں تو شاید ڈرائیور کے علاوہ میں واحد آدمی ہو تا ہوں جو جاگ رہا ہوتا ہے اور گاڑی کے اندھیرے میںکھڑکی سے لگا باہر تاریکی میں مخالف سمت دوڑتے سڑک کے کنارے پر نظریں جمائے ذہن میں آرتھر رِم باڈ کی نظم دہراتا ہے :
But beware the night
For death lurks there,
Waiting, waiting, waiting.
گھات میں بیٹھی موت کا خوف۔ سڑک کا کنارہ کبھی تو ٹائروں سے چند انچ دور ہوتا ہے اور کبھی سمٹ کر بالکل ٹائروں کے نیچے آ جاتا ہے۔میرے دل میں یہ خوف ایک کوڑیالے سانپ کی طرح پھنکارتا، اپنے کنڈل کھولتا اور کستا رہتا ہے کہ اگر ڈرائی ور ذرا سا بھی غا فل ہوا یا اونگھا توپلک جھپکتے میں سب لوگ دریا کی تہ میں ہوں گے۔ (جس طرح کچھ سال پہلے سکردو کے راستے میں ایک بس کے ساتھ ہوا تھا )۔ ایسے میں میرا ذہن خوف کے تانے با نے سے نئے خدشات بُننے لگتا ہے۔ ہمارے مرنے کی اطلاع کتنی دیر میں لوگوں کو ہوگی؟ کیا رات کے اندھیرے میں کسی کو پتا چلے گا یا صبح یہ خبر پھیلے گی؟ گھر والوں کو اطلاع دینے کےلئے مسافروں کی شناخت اور ان کے نام پتے کہاں سے ملیں گے؟ یہاں تو سفر سے پہلے کسی کا نام پتا درج ہی نہیں کیا جاتا۔ بچوں کی یاد داشت بہت چھو ٹی ہوتی ہے۔ کیا چھے ماہ، سال بعد میں،منّان اور عائشہ کو یاد رہوں گا؟ بس ایسی ہی الٹی سیدھی ہول ناک سوچوں کا زہر نگلتے ہوئے اور راستہ جلد از جلد کٹنے کی دعا کرتے ہوئے میں یہ وقت گزارتا ہوں لیکن آج میرے خوف میں موسم کی خرابی بھی شامل ہو گئی تھی۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔