انصاف تو کریں!
پچھلے دنوں نیٹ پر بجلی کا ایک بل گردش کر رہا تھا جو کسی واپڈا ملازم کا تھا۔بل کے مطابق موصوف نے ایک ہزار دو سوانیس (1219)یونٹیں ”پھونکی“ تھیں لیکن بل محض چھ سو چودہ (614) روپے تھا۔ بل پر میٹر کا حوالہ نمبر بھی موجود تھا لہذا جب اس مہینے کا بل چیک کیا تو مزید حیران رہ گیا۔ اس مہینے میں موصوف نے ایک ہزار پانچ سو سینتالیس (1547) یونٹ”جلائے“ لیکن بل محض تین سو آٹھ (308) روپے ہے۔ان دنوں جبکہ لوگ نہ صرف احتجاج کر رہے ہیں بلکہ خودکشیاں بھی کر رہے ہیں، اس افسر کے استعمال کے ماہانہ یونٹس کا بڑھنا لیکن بل کا کم ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ افسر احساس کی بجائے الٹا عوام کا مذاق بلکہ منہ چڑا رہے ہیں کہ دیکھو ہم نے پچھلے ماہ کے مقابلے میں یونٹ زیادہ ”ساڑے“ لیکن بل کم دیا ہے، تم جو کر سکتے ہو کروہم نہیں رکنے والے۔لوگ سمجھ رہے ہیں کہ اس ظلم کا واحد ذمہ دار صرف واپڈا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس ظلم میں تقریباً سب ہی شامل ہیں اور خوب مال بنا رہے ہیں۔ایک سرسری سا جائزہ پیش خدمت ہے۔
اے میرے منصف! اس ظلم میں حکومت کا نمبر سب سے پہلا ہے۔ارباب حکومت خود کو اور اپنے پیاروں کو نوازنے کے لیے کچھ کھابے لگا کر دیتی ہے۔ بجلی کے باب میں ان کھابوں کا نام I.P.Pہے۔1988میں پیپلز پارٹی کے دور سے جنم لینے والا یہ ڈریکولا ملکی ”ٹھیکداروں“کو اس لیے بھی پسند ہے کہ وہ عوام کا خون چوس کر اسے ”ٹھاہ کداورں“ کے جسم میں اتنی صفائی سے انجیکٹ کرتا ہے کہ ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔I.P.Pکو معاوضہ بجلی پیداوار نہیں بلکہ استعدادکار(Capicity Charges)کے مطابق دیا جاتا ہے۔ یعنی وہ زیادہ سے زیادہ کتنی بجلی پیدا کر سکتے ہیں، اس کے مطابق انھیں اربوں روپیا دیا جاتا ہے چاہے وہ ایک یونٹ ہی کیوں نہ پیدا کریں۔مزے کی بات کہ یہ شہد کی وہ دلدل ہے جسے نہ کرپٹ زرداری اور نواز کے دور میں پار کیا جا سکا اور نہ ہی تبدیلی جہاز کے کپتان نے اسے چھیڑا، البتہ عوام کو سبھی ماموں بناتے رہے۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمارے یاں بجلی کی کل استعداد چوالیس (44)ہزار میگا واٹ ہے جبکہ ترسیل صرف بائیس (22) ہزار میگا واٹ۔یعنی پچاس فیصد بجلی ترسیل سے زائدہے۔اس فالتو بائیس (22)ہزار میگا واٹ میں انیس (19) ہزار I.P.P پیدا کرتے ہیں۔ اب سمجھ میں آیا کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود یہ خون آشام بلائیں کیوں پھل پھول رہی ہیں اور ڈاکا کیسے ڈالا جاتا ہے؟انھیں بند کردیں تب بھی ترسیل سے تین ہزار (3000) میگا واٹ زیادہ ہیں۔کوئی شرم و حیا والا ملک ہوتا تو نہ صرف اس انیس ہزاری بلا بلکہ تین ہزاری اوپری دیو کا بھی خاتمہ کرکے پروڈکشن کو ترسیل کے مطابق بنایا جاتا لیکن یہ پاکستان ہے اور یہاں ساری گندگی، پاکیزگی کے نام پر کھائی جاتی ہے۔
اے مسند انصاف نشین! افسر شاہی جس میں جج، جرنیل اور دیگر افسران شامل ہیں، وہ عوام پر ہونے والے ”بجلی ظلم“ میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ان کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں، گھر مفت ہیں، بچوں کی تعلیم مفت ہیں، آنا جانا مکمل فری ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد کروڑوں کے پلاٹ ملتے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بھی بلائیں ملک کی جان نہیں چھوڑتیں، بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت تک کے بل لاکھوں روپے کے بنتے ہیں، بجلی چلی جائے تو جنریٹر کا ایندھن تک یہ ملک دیتا ہے لیکن انھیں عوام کا ذرا برابر احساس نہیں۔کاش یہ مفت بجلی سے ہی ہاتھ اٹھا لیتے۔انھوں نے اپنی عیاشیوں کے لیے مسجد کے بل میں بھی ٹی وی ٹیکس ڈالا ہوا ہے۔
واپڈا کا نمبر اس ظالمانہ استحصال میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ملازمین کو اگر بجلی مفت ملتی ہے تو انھیں چاہیے کہ وہ اس کا استعمال دیانت داری سے کریں لیکن وہ اتنی بیدردی سے یونٹیں ”ساڑتے“ہیں گویا ملک میں ”یونٹ جلاؤ“ کا ورلڈکپ ہو رہا ہو اور انھیں پہلی پوزیشن پر براجمان ہونا۔ یہ حضرات سالن روٹی کے لیے بھی بجلی والا چولہا استعمال کرتے ہیں اور یوں ”گیس“ کے چند سو روپے بچا کر عوام کو ہزاروں کا ٹیکا لگاجاتے ہیں۔
اے انصاف دہندہ! چوتھا نمبر کاروباری طبقے کا ہے جو اس وقت سب سے زیادہ ڈھول پیٹ رہا ہے۔پہلا پہلو:ان حضرات سے جب شام سات آٹھ بجے تک دکانیں بند کرنے کا کہا جاتا ہے تو ان کے بین شروع ہو جاتے ہیں۔دن ایک بجے دکانیں کھولنا اور رات بارہ ایک بجے بند کرناچہ معنی دارد؟ان کی وجہ سے ان کے گھروں کے ساتھ ساتھ ان کے پلازوں میں بھی بجلی جل رہی ہوتی ہے اور یوں محض ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے عام گھریلو صارفین کے لیے بھی وہ وقت کمرشل کر دیا جاتا ہے۔دوسرا پہلو:اس کی ذمہ دار بھی افسرشاہی کی بیگمات ہیں کہ جن کی شاپنگ اور خریداری کا وقت مغرب کے بعد شروع ہوتا ہے جس کی وجہ گرمی بتائی جاتی ہے۔بندہ پوچھے کو ن سی گرمی؟آپ کے گھر اے سی، جس گاڑی میں آنا اس میں اے سی، جس مال میں خریداری کرنی اور جس ہوٹل میں کھانا کھانا، وہاں اے سی تو گرمی کہاں ہے؟ گرمی تو عوام کا مسئلہ ہے۔اس تاجر طبقے اور ان کے ان بے لگام گاہکوں کو بھی لگام ڈالنے کی اشد ضرورت ہے۔