پاکستان میں مہنگائی (افراطِ زر)
پاکستان کا شمار ایک ترقی پذیر ملک میں ہوتا ہے جو کہ اِس وقت کئی قسم کے مسائل کا شکار ہے جس میں مہنگائی یا افراطِ زر سرفہرست ہے۔مہنگائی عام طور پر اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ملک میں زر کی مقدار اشیاء کی مقدار کے مقابلے میں زیادہ ہو جائے جس سے اشیاء کی طلب ان کی رسد کے مقابلہ میں بڑھنے سے افراطِ زر یا مہنگائی جنم لیتی ہے،اس کے علاوہ اشیاء کی لاگت میں اضافہ سے بھی یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کے مشہور ماہر معاشیات ڈاکٹر رفیق احمد (مرحوم) سابقہ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی اکثر کہا کرتے تھے کہ ”پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جس میں معاشیات کے زیادہ تر اصول فیل ہو جاتے ہیں یہاں ہم سب سے پہلے وہ وجوہات یا اسباب کا جائزہ لیں گے جو کہ موجودہ مہنگائی کی وجہ بن رہے ہیں اور پھر اس کا حل تجویز کریں گے“۔
پاکستان میں مہنگائی کی بڑی وجہ حکومتوں کا دھڑا دھڑ یا تیزی کے ساتھ نوٹ چھاپنا ہے جو کہ بغیر کسی اصول یا ضابطے کے تحت چھاپ لئے جاتے ہیں اور پھر زر کی مقدار اور گردش میں اضافہ ہونے سے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے نیز ملکی اخرجات کو پورا کرنے کے لئے اندرونی اور بیرونی ذرائع سے قرضے لئے جاتے ہیں، جبکہ عوام کی فلاح پر خرچ کرنے کی بجائے غیر پیداواری کاموں مثلاً سیاسی جلسوں، حکومتی نمائندوں، بیرونی دوروں پر صرف کر دیا جاتا ہے اور یہی پیسہ گردش کرتا ہوا عوام کے پاس بلاضرورت پہنچ جاتا ہے اور اشیاء کی طلب ناحق بڑھنے سے مہنگائی جیسا مسئلہ جنم لیتا ہے۔
پاکستان میں اِس وقت بڑے بڑے مافیا سرگرم ہیں مثلاً گندم مافیا، چینی مافیا، آئل اور گھی مافیا،ادویات مافیا وغیرہ یعنی کہ ہر چیز کے اوپر ایک مافیا کی حکومت ہے، جو اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کر کے ملک میں مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں اور ان اشیاء کی پھر من مانی قیمت وصول کرتے ہیں اس کے علاوہ یہی مافیا سمگلنگ کر کے یا بلاوجہ اشیاء کو بیرونی ممالک کو سستا برآمد کر کے مہنگے داموں درآمد کرتے ہیں،جس سے ایک طرف تو اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے دوسری طرف یہ بڑے بڑے مافیا ناجائز منافع خوری کی وجہ سے مالدار،بلکہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت ٹیکس پالیسی انتہائی ناقص ہے، سیلز ٹیکس(بالواسطہ ٹیکسوں) کی بھرمار ہے سیلز ٹیکس درحقیقت کارخانہ داروں اور اشیاء پیدا کرنے والے افراد پر لگایا جاتا ہے، لیکن وہ ان ٹیکسوں کو اشیاء کی قیمت میں شامل کر کے عوام سے وصول کرتے ہیں پاکستان میں ہر چیز پر ٹیکسوں کی بھرمار ہے، جس سے اشیاء تو مہنگی ہوتی ہی ہیں، لیکن دوسری طرف عوام کی قوتِ خرید بھی روز بروز کم ہو رہی ہے۔
مہنگائی کی ایک بڑی وجہ ایندھن،یعنی تیل، کوئلہ، گیس اور بجلی کا مہنگا ہوتا ہے ان طاقتی وسائل کے مہنگا ہونے سے اشیاء کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں نمودار ہوتا ہے پاکستان میں آئے روز پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اس سے حکومت کا خزانہ تو بہتر ہو جاتا ہے، لیکن بے چارے عوام بلاوجہ مہنگائی کی چکی میں پِس جاتے ہیں۔
پاکستان میں اِس وقت برآمدات میں کمی اور درآمدت میں زبردست اضافہ دیکھنے کو آیا ہے، یعنی ہم اِس وقت ایک درآمدی ملک بن چکے ہیں یہ درآمدات ایک طرف تو روز بروز مہنگی ہو رہی ہیں اور دوسری طرف جب یہ اشیاء ہمارے ملک کے بارڈر کراس کرتی ہیں تو ان پر بھاری بھر کم ٹیکس ڈیوٹی اور ایکسائز ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے، جس سے درآمدی اشیاء مزید مہنگی ہو جاتی ہیں، جس کا بوجھ یقینا عوام پر پڑتا ہے۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مہنگائی کا علاج کیا ہے؟ تو اِس ضمن میں سب سے پہلے ہمیں اپنے سیاسی حالات کو بہتر کرنا ہو گا، کیونکہ سیاسیات اور معاشیات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔اِس وقت ملک کے سیاسی حالات کو بہتر بنانے کے لئے گڈ گورننس (عوام دوست حکومت) کو قائم کرنا ضروری ہے جو کہ عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرنے کی بجائے اپنے اخراجات میں کمی کرے اور درست معاشی فیصلوں کی بنیاد رکھے،بہتر معاشی اقدامات ہی سے زر کی مقدار میں کمی اور اشیاء کی رسد کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔
سیلز ٹیکس یا بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی کر کے براہ راست ٹیکسوں کو فروغ دینا ہو گا جس سے ایک طرف تو اشیاء سستی ہوں گی تو دوسری طرف براہ راست ٹیکسوں (انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، ویلتھ ٹیکس) کے عام ہونے سے امیر اور غریب کے درمیان فرق بھی کم ہو گا۔برآمدات کو فروغ دینے والی پالیسیا اختیار کریں اور درآمدات کا نعم البدل اپنے ملک میں تیار کریں، جس سے بیرونی افراطِ زر سے بچا جا سکتا ہے اِس کے علاوہ ہمیں تیل، کوئلہ،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لئے ان وسائل کو اندرون ملک تلاش اور تیار کرنا ہو گا تاکہ اشیاء کی لاگت میں کمی لا کر اشیاء کو سستے داموں تیار کیا جا سکے، نیز اس کے علاوہ دھڑا دھڑ نوٹ چھاپنے اور اندرونی و بیرونی قرضوں سے بچا جا سکے، صرف انتہائی ناگزیر حالات میں پیداواری کاموں اور انکم دینے والے منصوبوں یا پراجیکٹ کے لئے ہی نوٹ چھاپیں اور قرض لیں۔