دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر40
اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے کہ مجھے مدھو بالا اچھی لگی تھیں۔لوگ چہ میگوئیاں کرتے تھے۔اخبارات سکینڈل چھاپتے تھے۔میں اتنا جانتا ہوں کہ مدھو میں ساری خوبیاں تھیں جو ایک عورت میں ہونی چاہئیں۔اس نے میری زندگی کا وہ خلا بھر دیا تھا جو خالی تھا۔میرا شرمیلا تھا اور مجھے اس نے اعتماد دیا تھا ۔
ایک جیسے کردار کرتے رہنے کا مجھ پر نفسیاتی اثر ہوا تھا اور میں کسی ماہر نفسیات سے ملنا چاہتا تھا ۔میں جو فٹ بال کا بڑا شوقین تھا اور کرکٹ بھی کھیلا کرتا تھا ،مجھے ان سے بے زاری ہونے لگی ،تنہائی کی عادت پیدا ہونے لگی۔اشوک بھیا حیران ہوئے کہ مجھے ایسے کام کی ضروروت نہیں۔میں نے انہیں سمجھایا کہ ایک جیسے کردار ادا کرتے ہوئے مجھ پر اب کرداروں کا اثر ہونے لگا ہے اور میں الجھ رہا ہوں ۔ابھی میری عمر ہی کیا تھی۔بیسا سال کی عمر تک میری فلمیں کامیابی کے ڈنکے بجا چکی تھیں۔ذہن پر دباؤ آگیا تھا ۔ میں نے انگلستان کے ماہر نفسیات سے مشورہ لینا شروع کیا تھا ۔محبوب صاحب اور ناشاد صاحب اس پر نالا ں تھے کہ میں خود کو پاگل کیوں سمجھنے لگا ہوں ۔انہوں نے باور کرایا کہ ہالی ووڈ کے کئی بڑے اداکار بھی ایسے کردار ادا کرتے ہیں لیکن انہیں ماہر نفسیات سے ملنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر39 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
انہوں نے کئی اداکاروں کے نام گنوائے جو ایک جیسی فلموں میں کام کرتے تھے۔میں کافی مایوس ہوا اور گھر واپس آیا تو مجھ پر افسردگی طاری تھا۔میں اس کے سحر سے نکلنا چاہتا تھا ۔کوئی نیا کام کرکے یکسانیت کا خول توڑنا چاہتا تھا ۔
اگلے چند دن بعد میں ایس مکھرجی سے ملنے گیا اور انہیں باتیا کہ کل رات ایک تامل پروڈیوسر سری رامولیندوانے مجھے وہ تامل فلم دکھائی ہے جس کو اب وہ ہندی میں فلمانا چاہتا ہے اور مجھے اس میں کاسٹ کرنا چاہتا ہے۔اس وقت انکے پاس خان آصف بیٹھے تھے۔انہوں نے مسکرا کر میری جانب دیکھا اور سر ہلاتے ہوئے کہا ’’ کرنے دو اسے‘‘
ایس مکھر جی کی سوچ بھی یہی تھی ۔انہوں نے کہا’’ آگے بڑھو ۔ایک اداکار کا کام اداکاری کرنا ہے ۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ اسے مزاحیہ اداکاری کرنی ہے یا المیہ ۔اصل چیز اداکار کی صلاحیت اور قابلیت ہے‘‘
ان کی باتوں سے مجھے حوصلہ ملا ۔اس فلم میں میراکردارمزاحیہ تھا ۔اس میں میناکماری ہیروئن تھی۔’’آزاد ‘‘ (1955)کے نام سے یہ فلم بہت کامیاب رہی (اس فلم میں اس دور کے مطابق کئی نئی چیزیں بھی شامل تھیں جس کو عوام پسند کرسکتی تھی مثلاً سؤر اور چیتے کی لڑائی اور ایک چیتے اور پہلوا ن میں لڑائی،ا س فلم میں دلیپ کمار نے کئی روپ بہروپ بھرے تھے )۔
پروڈیوسر بہت مسرور تھا اور اس نے مجھے کہا کہ میں اگر چاہوں تو اب نئی فلم کے اسکرپٹ میں مزاحیہ سکرپٹ میں اضافہ بھی کرسکتا ہوں ۔مجھے اس کردار سے ذہنی طور پر قوت محسوس ہوئی۔میں یہی تبدیلی چاہتا تھا جو مجھے مل گئی تھی ۔انسان کو زندگی میں جب بھی یکسانیت سے کوفت ہواور اسکے اثرات ذہن پر جمود قائم کردیں تو کام کو تبدیل کردینا چاہئے۔
’’آزاد‘‘نے مجھے آزادی دے دی تھی۔اس فلم کی کامیابی کے بعد مجھے حقیقی شعور ملا تھا ۔اور میں نے اپنا گھر بنانے کا سوچنا شروع کردیا ۔
اماں کے بعد آپا سکینہ نے گھر کا سارا انتظام سنبھال لیا تھا۔وہ سگھڑ اور منتظم تھیں۔سب لوگ ان سے ڈرتے تھے۔چھوٹے بھائی بہنوں کی پڑھائی اور معمولات پر ان کی گہری نظر ہوتی۔وہ دادی کا پرتو تھیں ،جابر اور چابکدست۔میں نے کئی بار سوچا کہ وہ اماں پر کیوں نہیں گئیں۔لیکن پھر میں نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔سکینہ آپا سے میری پھوپھیاں بھی ڈرتی تھیں ۔سوائے چاچا عمر کے ان سے سب ڈرتے تھے،انہوں نے بہترین طور پر گھر سنبھالا تھا۔وہ میرے ساتھ کام کرنے والی بعض اداکاراوں کو سخت ناپسند کرتی تھیں لیکن نرگس کو بڑا پسند کرتی تھیں۔نرگس کی والدہ جدن بائی مجھے پرنس کہہ کر پکارتیں تھی اور انکی سکینہ آپا سے بھی اچھی دوستی تھی۔جنہیں وہ ناپسند کرتی تھیں وہ اداکارائیں جب کبھی ہمارے گھر آتیں تو سکینہ آپا انکی خاطر داری خود کرتی تھیں ۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
ایک دن سکینہ آپا نے مجھ سے سوال کیا ’’یوسف کیا تم جانتے ہو نرگس اور راج میں کیا چل رہا ہے‘‘ میں نے نفی میں سرہلا دیا۔اس لئے کہ میں نے کبھی کسی کے نجی مسئلہ کو جاننے کی کوشش نہیں کی نہ مداخلت کرتا تھا ۔ایک بار میں نے اشوک کمار اورنالینی جے ونت کی جاسوسی کرنے کی غیر ارادی کوشش کی تھی ۔اس وقت جب دونوں پہلے اکٹھے گپ شپ لگانے کے بعد واش رومز کی جانب گئے تھے تومیں چھپ کر انہیں دیکھنے چلاگیا ،میں اچانک ان کو چونکا دینا چاہتا تھا لیکن پھر خیال آیا کہ یہ بہت بری حرکت ہوگی اور میں واپس لوٹ آیا۔کبھی اشوک بھیا کو اس بارے نہیں بتایاکہ میں نے انہیں واش رومز میں نالینی کے ساتھ دیکھاتھا ۔ویسے بھی میں جانتا تھا اگر انہیں بتا بھی دیتا تو وہ کب اسکی پرواہ کرتے تھے کہ کون ان کے بارے کیا سوچ رہا ہے۔ (جاری ہے)
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر41 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں