توہین مذہب کے نام پر کچھ بھی 

توہین مذہب کے نام پر کچھ بھی 
توہین مذہب کے نام پر کچھ بھی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں نے اپنا فیس بک پیج کھولا تو ایک ویڈیو سامنے آ گئی،دیکھا تو کچھ سمجھ نہیں آیا، ذرا غور کیا تو آنکھوں پر یقین نہیں آیا،خود عورت ہونے کے ناطے اس خاتون کی بے بسی شدت سے محسوس ہو رہی تھی،بھانت بھانت کے آدمیوں کے مجمع میں ایک خاتون شدید پریشان، خوفزدہ، ڈری سہمی اپنے شوہر کے پیچھے کھڑی تھی،اس میں کچھ بولنے کی ہمت تھی نہ ہلنے کی سکت۔لوگ مشتعل تھے اور نعرے لگا رہے تھے، یوں معلوم ہو رہا تھا کہ ابھی کہ ابھی اس کی جان لے لیں گے۔بھلا ہو اے ایس پی گلبرگ شہر بانو نقوی کا جو نجانے کہاں سے فرشتہ بن کر آئیں، مجمع کو چیرتی ہوئی آگے بڑھیں اور پھر بالآخر اس خاتون کو وہاں سے نکال کر لے جانے میں کامیاب ہو گئیں۔اگر اے ایس پی وہاں بروقت نہ پہنچتیں تو کیا ہوتا، اس کا تو تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لئے کافی ہے۔اس خاتون کی جان تو بچ گئی لیکن زندگی بھر وہ شائد ہی اس ڈر خوف سے باہر نکل سکے کہ اپنے ہی ملک میں، اپنے ہی لوگوں نے بغیر کسی گناہ، بغیر کسی خطا کے سزا دینے کا اعلان کر دیا۔

اس خاتون نے محض ایک ایسا کرتا پہن رکھا تھا جس پر عربی لفظ ”حلوہ“ لکھا ہوا تھا، جس کا مطلب خوبصورت، حسین یا نفیس کے ہیں، عرف عام میں اسے کیلیگرافی کہا جاتا ہے اور آجکل ایسے کرتوں اور دوپٹوں کا استعمال تو بے حد عام ہے بلکہ اگر میں کہوں کہ فیشن میں ہے تو غلط نہیں ہو گا۔لیکن بعض  ٹھیکدارانِ مذہب کو ”گمان“ ہوا کہ اس خاتون کی قمیض پر قرآنی آیات درج ہیں، بس پھر کیا تھا، انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو، اس خاتون پر دھاوا بول دیا، ظاہر ہے ان کا حق بنتا تھا، وہ اسلام کے ٹھیکیدار جو ٹھہرے۔یقیناً ان کا تعلیم و تہذیب سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا ورنہ پڑھنے کا تکلف ہی کر لیتے، کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ہوش سے کام لے لیتےلیکن نہیں ہمارے ہاں تو ہوش سے کام لینے کی روایت کہاں ہے، بس جذبات ہی جذبات ہیں اور وہ بھی وقت بے وقت ابھرآتے ہیں خاص طور پر وہاں جہاں ان کا سویا رہنا ہی بہتر ہے۔سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ تھانے میں بیٹھ کر معافی بھی اسی عورت نے مانگی، اس نے یہ یقین دلایا کہ وہ دوبارہ ایسا لباس نہیں پہنے گی اور وہاں موجود حضرات نے ”فراخی دل“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے معاف کر دیا، کیا بات ہے، کیا کہنے، ایسی عظیم شخصیات تو بہت کم ملتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان مولوی حضرات نے مکمل اتھارٹی کے ساتھ تھانے میں وہ کرتا میز پر رکھ کر با قاعدہ اس کا معائنہ کیا، حروف کو بغور دیکھا اور پولیس اہلکاروں کو باور کرایا کہ اس خاتون پر پرچہ کٹنا چاہئے، کیونکہ یہ الفاظ قرآنی آیات کے متشابہ ہیں،یہ ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر دستیاب ہے۔

کرتا میز پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس خاتون سے وہ لے لیا گیا تھا،ایسے لوگوں کی سوچ پر تو عقل دنگ ہی رہ جاتی ہے، ایسی ”ثابت قدمی“ دیکھ کر تو الفاظ ہی کم پڑ جاتے ہیں۔ ارے بھئی اگر بالفرض اس خاتون نے کچھ غلط کیا بھی تھا، اس کے لباس میں کچھ قابل اعتراض تھا بھی تو ایک راہ چلتے عام شخص کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ اس کو سزا دینے کا فیصلہ کر لے، لوگوں کو اکٹھا کر لے، موقع پر ہی الزام لگائے، مقدمہ بنائے، فیصلہ سنائے اور سزا دینے کا اہتمام بھی کر لے۔ایسا تو کسی جنگل میں بھی نہیں ہوتا، وہاں بھی کچھ نہ کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں تو یہ روایت زور ہی پکڑتی جا رہی ہے، ہر معاملے، ہر محاذ پر ہر کوئی خود ہی فیصلے کا اختیار چاہتا ہے۔ یہ کیسے مسلمان ہیں، مثالیں تو نبی کریم کی دیتے ہیں، عاشق رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کی سنت پر عمل کرنے کے روادار نہیں ہیں۔عورت کی عزت و تکریم تو اسلام کا خاصہ ہے، جتنے حقوق اسے یہاں حاصل ہیں کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔ان مرد حضرات کو قرآنی الفاظ نظر آئے لیکن یہ معلوم نہیں کہ اسلام تو ایک کے بعد دوسری نظر غیر عورت پر ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا،ہمارے پیارےحضورؐ تو اپنی بیٹی کی آمد پر اٹھ کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے، پھر عورت کی ایسی بے توقیری۔وہ بھی مذہب کے نام پر۔۔۔
   ماضی میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جب توہین رسالت اور توہین مذہب کے نام پر معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، ان کی جان لے لی گئی لیکن کوئی کچھ نہیں کر سکا، افسوس کی بات ہے کہ الزام لگانے والے کے لئے کوئی سزا نہیں ہے، ہر الزام لگانے والے کو پتہ ہے اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، ویسے تو ہمارے ملک میں کہیں کوئی کچھ بھی کر دے سزا کا ڈر کسے ہے، عمر گزر جاتی ہے مقدموں کا فیصلہ ہوتے ہوتے، مظلوم انصاف کی امید پر دنیا سے ہی چلا جاتا ہے اور ظالم دندناتا پھرتا ہے۔ ریاست کہیں تو اپنی رٹ قائم کرے،الزام تراشی اور بہتان لگانے والے کے لئے سخت سزا ہونی چاہئے، ریاست پر لازم ہے کہ ایسی قانون سازی کرے کہ کسی میں دوسرے پر جھوٹا الزام لگانے کی جرات نہ ہو، قانون ہاتھ میں لینے کی ہمت نہ ہو، الزام لگانے والا معافی مانگ لیتا ہے اور بری الذمہ ہو جاتا ہے۔۔۔اس معاملے میں تو خیر  الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا حساب ہے۔۔۔
اس سارے واقعے کے بعد دماغ میں مسلسل یہی بات گھوم رہی ہے کہ اب ہر کپڑا خریدنے سے پہلے آنکھیں کھول کھول کر غور کرنا پڑے گا کہ کہیں کسی کونے میں ایسا کوئی حرف تو نہیں، کوئی ایسا لفظ تو نہیں جو کسی کو بھی دوسرے پر فتویٰ لگانے کی آزادی دے دے۔بلکہ کپڑا ہی نہیں ہر چیز پر غور کرنا پڑے گا، لڑکیاں تو اکثر ایسی جیولری کا استعمال کرتی ہیں جن پر الله، محمدؐ یا کلمہ کندہ ہوتا ہے، کیا یہ بھی توہین اور بے حرمتی کے زمرے میں آتا ہے؟؟؟خدارا جیو اور جینے دو، سانس لینے دو، پہلے کیا اس معاشرے میں مسائل کی کمی ہے جو اسے مزید گھٹن زدہ بنانے پر تلے ہیں۔۔۔یہ جو تمام علما اعتراف کر رہے ہیں، برملا اظہار کر رہے ہیں کہ اس خاتون کے ساتھ غلط ہوا ہے وہ ایسے عناصر پر قابو پانے کے لئے ریاست کی مدد کریں، شدت پسندی کو روکیں، اسلام تو امن کا پیغام دیتا ہے، دشمنوں کے ساتھ بھی صلہ رحمی کا درس دیتا ہے پھر اس کے نام پر یہ ناانصافی کیوں، یہ بے رحمی کیوں؟؟؟ دوسروں کی بیٹیوں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنی بیٹیوں کے بارے میں ضرور سوچ لیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک بات جو شدت سے دل میں آ رہی ہے کہ اس دو سے تین منٹ کی ویڈیو میں میں نے عورت کے دو روپ دیکھے،ایک با اختیار، با حوصلہ، با ہمت، نڈر اور ایک بے اختیار، کم حوصلہ، کم ہمت، ڈری ہوئی۔۔۔بے شک اے ایس پی شہربانو نقوی کو یہ اعتماد ان کی تعلیم وتربیت نے دیا، ان کی وردی نے دیا، ان کے عہدے نے دیا تو پھر آج یہ تہیہ کر لیں کہ اپنی بیٹیوں کو مضبوط بنائیں گے، انہیں اعتماد دیں گے، ان کی تعلیم پر توجہ دیں گے، ان کی تربیت کو اولین جانیں گے تاکہ مردوں کے اس معاشرے میں  جہاں کبھی بھی، کہیں بھی، کچھ بھی ہو سکتا ہے، وہ اپنی ڈھال آپ بنیں،انہیں کسی سہارے کی ضرورت نہ ہو ، ان میں اتنی جرات ہو کہ وہ اپنا تحفظ خود کر سکیں۔

مزید :

رائے -کالم -