والد کیساتھ بنکر میں اترا، جنگ کا نظارہ کیسا تھا؟جواب دیا؛ ”بچے! جنگ وطن کی خاطر لڑی جائے تو اس سے بہتر آتش بازی کا نظارہ دیکھنے کو نہیں ملتا“
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:64
رسالدار گنڈا سنگھ دت؛
جنگ ختم ہوئی تو ابا جی ایک روز مجھے گنڈا سنگھ والا باڈر(قصور) لے گئے۔ یہ غالباً فروری27 کی بات تھی۔ گنڈا سنگھ والا کانام تقسیم ہند سے پہلے برٹش آرمی کے رسالدار میجر”گنڈا سنگھ دت“کے نام کی مناسبت سے ہے۔19 بنگال لانسرز کے اس جوان نے دوسری جنگ عظیم کے دوران شاندار فوجی خدمات انجام دی تھیں۔ سرحد کے اس پار بھارتی ضلع فیروز پور کا گاؤں ”حسینی والا“ ہے اور اس طرف گنڈا سنگھ والا۔ 1960ء سے 1970ء تک گنڈا سنگھ والا باڈر ہی پاک بھارت سرحد کامرکزی کراسنگ پوائنٹ تھا۔ اس کی اہمیت ”واہگہ اٹاری“ بارڈر کھلنے سے کم ہو گئی اور بعد میں یہ کراسنگ ہی بند کر دی گئی تھی۔ 71 کی جنگ میں پاک فوج نے ”حسینی والا“ (بھارتی ہیڈورکس پر قبضہ کر لیا تھا) ابھی فوجیں سرحدوں پر ہی موجود تھیں۔ ہندوستانی فوج پسپا ہوتے حسینی والا ہیڈ ورکس کو نقصان پہنچا گئی تھی۔ میں والد کے ساتھ ایک بنکر میں اترا جس میں پاک فوج کی مشین گن پوسٹ تھی۔ بنکر میں پاک جوج کا ایک چاق و چوبند جوان چوکنا کھڑا تھا۔ مجھے اس پاکستانی فوجی جوان کی آنکھوں کی چمک آج بھی نہیں بھولی ہے۔ منہ گرد سے اٹا، چہرے پر گہرا سکون اور ہاتھ کی انگلی مضبوطی سے مشین گن کے گھوڑے(ٹریگر) پر تھی۔ میں نے اس سے پوچھا؛”چاچا! جنگ کا نظارہ کیسا تھا؟“ جواب دیا؛ ”بچے! جنگ وطن کی خاطر لڑی جائے تو اس سے بہتر آتش بازی کا نظارہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔“ نہ جانے وطن کے کس علاقے کی مٹی کا رہنے والا وہ اَن پڑھ سپاہی جنگ کے حوالے سے ایسی بات کہہ گیا تھا جو شاید کوئی دانشور بھی نہ کہہ سکتا۔ موت کے منہ میں آنکھیں ڈالنے واے ایسے بہادروں کو شکست دینا آسان نہیں۔ دور سامنے دریا کے دوسرے کنارے مجھے بھارتی فوج کے مورچے میں کھڑا سپاہی اونگھتا دکھائی دیا تھا یا وہ میری نظر کا دھوکہ تھا۔
ماڈل ٹاؤن؛
اس دور میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی دور دراز آبادیوں میں شمار ہوتا تھا۔ماڈل ٹاؤن کے بڑے گھروں میں بھی زیادہ تر سفید پوش لوگ ہی رہتے تھے۔شرافت، ایمانداری، سادگی اور خاندانی روایات ان کا اثاثہ تھیں۔ یہ خصوصیات بڑے عرصہ تک یہاں کے مکین اپنی جبینوں پر سجائے عرصہ دراز تک آس پاس کے لوگوں کو دکھاتے رہے تھے۔ ماڈل ٹاؤن پر فضا، شاندار بستی تھی جہاں خاندانی لوگ دھائیوں سے رہائش پذیر تھے۔ ہر پلاٹ6 کنال کا تھا۔ پختہ چاردیواری کی جگہ باڑ ہوتی تھی اور گھر کے باہر پانی کے کھالے بہتے تھے جن میں لاہور کی نہر سے باقائدگی سے پانی آتا تھا۔ وقت کے ساتھ دولت مند لوگ ادھر کا رخ کرنے لگے تو یہاں کے واسیوں کو بھی دنیا داری کی ہوا لگ گئی۔ اپنی دولت کے زعم میں شہر کی سب سے شاندار بستی میں مہنگے داموں پلاٹ خرید کر انہوں نے اپنے قد کاٹھ میں اضافہ کی کوشش میں یہاں آن بسے۔ آج کے دور میں پیسہ بولتا ہے شرافت نہیں۔اس بستی کے محل نما گھر ایسے ہی نو دولتیوں کے ہیں۔ یوں یہاں کی روایات بھی سکڑنے لگیں اور آج کا ماڈل ٹاؤن پرانی روایات کی پرچھائیں ہی رہ گیا ہے۔ میرے بچپن میں گنتی کے ماڈل ٹاؤن واسیوں کے پاس اپنی موٹر کاریں ہوتی تھیں۔ موٹر سائیکل ابھی عام نہ ہوئی تھی البتہ ویسپا سکوٹر کا رواج تھا۔ مغرب کے بعد ٹریفک بھی کم ہو جاتی تھی اور تھوڑے لوگ ہی ادھر کا رخ کرتے تھے۔ماڈل ٹاؤن کی اپنی ٹرانسپورٹ(ایم ٹی بی ایس) ماڈل ٹاؤن بس سروس، ماڈل ٹاؤن اور میو ہسپتال کے درمیان چلتی تھی۔ لوگ ماڈل ٹاؤن ٹرانسپورٹ میں ہی سفر کرنا پسند کرتے تھے۔ ماڈل ٹاؤن کا اپنا سکول، اپنا کالج، اپنی ڈسپنسری اور اپنی بجلی تھی(ماڈل سوسائٹی واپڈا سے بجلی خرید کر اپنے مکنیوں کو دیتی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے۔)۔ ہر بلاک کی اپنی مارکیٹ۔ ماڈل ٹاؤن کی بستی گول دائرے میں ڈیزائین کی گئی تھی۔ ہمارے بچپن میں ماڈل ٹاؤن کے مین سرکل پر باون(52) کلو میٹرسائیکل ریس ہوا کرتی تھی جو بعد میں قدافی سٹیڈیم کے قریب بنائے گئے”ائیرو ڈوم“ میں ہونے لگی تھی۔ تقسیم سے قبل ہندؤں کا مندر ڈی بلاک میں تھا جبکہ سکھوں کا گرداوارہ بی بلاک میں۔ اب ان جگہوں پر کئی گھرانے آباد ہیں۔ جامع مسجد اے بلاک میں تھی جہاں 2002ء تک نماز عید ادا کی جاتی رہی بعد میں عید کی نماز سنٹرل پارک ماڈل ٹاؤن میں ادا کی جانے لگی تھی جس کی امامت ہر سال ہر بلاک کی مسجد کے امام کرتے تھے۔ یہ سب میاں عامر محمود کی کاوش کا نتیجہ تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔