خواہشات اور ضروریات کی فہرست لامحدود ہے،کامیابی ان کو حاصل ہوتی ہے، جو اس کے خواہاں ہوتے ہیں، جو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ مانگتے ہیں 

خواہشات اور ضروریات کی فہرست لامحدود ہے،کامیابی ان کو حاصل ہوتی ہے، جو اس کے ...
خواہشات اور ضروریات کی فہرست لامحدود ہے،کامیابی ان کو حاصل ہوتی ہے، جو اس کے خواہاں ہوتے ہیں، جو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ مانگتے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر ڈیوڈ جوزف شیوارڈز
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:134
خواہشات اور ضروریات کی فہرست لامحدود ہے۔ اس باب کے مطالعہ کے دوران کامیابی کا یہ اصول ہمیشہ ذہن میں رکھییئ: 
”کامیابی ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے، جو اس کے خواہاں ہوتے ہیں، یہ لوگ جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے وہ مانگتے ہیں، خواہش کرتے ہیں اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ وہ کامیابی اور ترقی سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔“
”مانگو، تلاش کرو، دستک دو“ پر مبنی طریقہ کار اور ترکیب کے ذریعے آپ یقینی طور پر زیادہ سے زیادہ خوشی، شادمانی، مسرت، دولت حاصل کر سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ آپ اس طریقے اور ترکیب کو مکمل طور پر اپنا لیں۔ یہ طریقہ و ترکیب، آپ کے تحت الشعور کا ایک ایسا لازمی حصہ بن جانا چاہییئ کہ آپ اسے اپنے کام، اپنے گھر، اپنے دوستوں، حتیٰ کہ اجنبیوں کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں خود کار نظام تحت اپنالیں۔
آئیے اب میں آپ کو ان چند لوگوں کی مثالیں پیش کرتا ہوں جنہوں نے کامیابی، ترقی اور عروج صرف اس بنا ء پر حاصل کر لیا کیونکہ انہوں نے ”مانگنے/خواہش کرنے“ میں مہارت حاصل کر لی تھی۔
جان ایس نے ایک پیشہ ور مشیر کو اپنا اتالیق بنالیا اور اس عمل کے ذریعے اس کی آمدنی میں زبردست اضافہ ہوگیا:
دولت حاصل کرنے کا تصور، تعلیم یا علم کے ساتھ منسلک نہیں ہے۔ درحقیقت، دنیا میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن انہیں طمانیت بھری زندگی اور دولت میسر نہیں ہے۔ دولت حاصل کرنے کے لیے علم اور تعلیم کے علاوہ فہم و فراست اور دانشمندی بھی درکار ہے۔ فہم و فراست، عقل مندی اور دانش کے حصول کے لیے کافی وقت مطلوب ہے اور اس کا حصول بھی نہایت مشکل ہے، لیکن بہرحال، فہم فراست، عقل مندی اور دانش حاصل کرنے کے لیے مختصر تراکیب اور طرائق بھی موجود ہیں۔
حال میں ایک کاروباری دوست نے مجھے فون کیا اور میرے ساتھ لنچ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ لنچ کے دوران اس دوست نے میرے ساتھ ایک درمیانے درجے کے بنک کے ایک صدر کا تذکرہ کیا، جس سے وہ مجھے ملانا چاہتا تھا۔ میرے دوست نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ”وہ غیر معمولی طور پر ذہین شخص ہے، تمہیں اس کے ساتھ گفتگو کرکے خوشی ہوگی۔“
جب میری اس بینکار، جارج اے (George A) کے ساتھ ملاقات ہوئی تو میں اس کی نو عمری اور جوانی دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا۔ اور میری حیرت اس پر صاف ظاہر ہوگئی۔ میں نے جارج سے اپنے اس رویے پر معذرت چاہ لی کہ میں کسی ادھیڑ عمر شخص سے ملاقات کا منتظر تھا۔
وہ ہنسا اور مجھ سے یوں مخاطب ہوا ”اس قسم کا واقعہ میرے ساتھ روزانہ ہی پیش آتا ہے، آئندہ ہفتے میری عمر تینتیس برس ہو جائے گی اور جلدہی میری عمر اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ لوگ حیران ہونا ترک کر دیں گے۔
میرے تحت الشعور میں یہ خیال اور تصور موجود تھا کہ اس بنک میں ضرور کوئی نہ کوئی اس بینکار کا عزیز اور رشتہ دار موجود ہوگا جس کے پاس اس بنک کے بہت زیادہ حصص (Shares) موجود ہوں گے، جس کے اثر و رسوخ کے باعث اس بنکار نے اس قدر تیزی کے ساتھ ترقی اور کامیابی حاصل کی ہوگی۔ لیکن جلد ہی مجھے معلوم ہوگیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ اس نوجوان بینکار نے یہ ترقی اور کامیابی خود اپنی محنت کے باعث حاصل کی تھی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -