ڈاکٹر نذیر احمد شہید سے وابستہ یادیں
والد صاحب بتلایا کرتے تھے ہم بچپن میں یتیم ہو گئے۔ یتیموں کا کوئی سہارا نہیں ہوتا ضلع جالندھر میں والدین کا تہنگ نام کا گاؤں تھا میں اور میرا بڑا بھائی غلام قادر دربدر ہوتے ہوتے مختلف جگہوں پر دیہاڑی روزی کرتے کرتے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیر محل کے قریب اپنی بڑی بہن کے گاؤں میں آ گئے۔ میرا بھائی یہاں سے مجھ سے بچھڑ گیا۔ یہ علاقے قبل ازیں پنجاب کے لوگوں کو یہاں گوگیرہ برانچ نیلی بار لاکر انگریزی حکومت نے آباد کئے تھے۔ مال مویشی چراتے چراتے میں ہل چلانے کے قابل ہو گیا۔ جب میرے پاس چند پیسے جمع ہو گئے تو میں نماز روزہ کے ساتھ حج بیت اللہ کی تڑپ بھی رکھتا تھا۔ اگرچہ میں بلکہ پورا خاندان ددھیال ننھیال سب ان پڑھ تھے۔ ان دنوں حج کا سفر کئی مہینوں کا ہوتا تھا۔ کوئی راہ میں مرکھپ جاتے قسمت والے حج بیت اللہ زیارت روضہئ رسولؐ پر سلام کر کے سلامت لوٹ آتے۔ میں بخریت خدا کے فضل و کرم سے حج کی سعادت حاصل کر کے آ گیا۔ ضلع جالندھر میں انوکھروال گاؤں میں میری شادی ہو گئی۔
ضلع لائل پور موجودہ فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں دور پرے کے ایک تعلق دار زمیندار وکیل کے ہاں مزارعہ گری کے لئے کاشت پر زمین لے لی۔ کچھ عرصہ بعد چودھری صاحب مالک نے سب مزارعین سے کہا کہ اپنی عورتوں کو بھیجیں وہ میرے مکانات کی چھتوں کی لپائی کریں۔ میں نے اس قسم کی بیگار کرنے سے انکارکر دیا۔ معمولی رشتہ داری و تعلق داری کی پروا نہ کرتے ہوئے میں کاشتہ فصل چھوڑ کر جڑانوالہ کو خیر باد کہہ کر آ گیا پیر محل کے قریب گاؤں میں کاشت شروع کر دی۔ ڈاکٹر نظام الدین ہومیوپیتھک ڈاکٹر لاہور رہتے تھے ان سے بھی رشتے داری کے ذریعے تعلق داری تھی۔ ڈاکٹر نظام الدین کی کتاب مخزن علاج اردو میں نایاب کتاب ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے لاہور افسران سے تعلقات تھے۔ اس کی بنیاد پر ضلع ڈیرہ غازی خان میں پنجابی کاشتکاروں کو لا کر جدید طرز پر کاشت کاری کا منصوبہ بنا جس پر 13 افراد کو زمین دی گئی۔ میرے بھائی غلام قادر بھی مجھے مل گئے ہر ایک کو سو بیگھے سرکاری زمین بعض شرائط پر دی گئی۔ پچاس بیگھے آبادی، سکول، مسجد، قبرستان وغیرہ کے لئے مختص کئے گئے۔ نئی زمین پر محنت کر کے آبادی کی۔ فصلیں بہت اعلیٰ ہوئیں شرقاً غرباً شمالاً جنوباً ہر گلی 40 فٹ چوڑی رکھی گئی۔ ہر گھر دو کنال کا ایک کنال رہائشی اور دوسرا جانوروں کے لئے مرحوم والد صاحب نے بستی نظام آباد میں پہلا کنواں، فاضل پور شہر اڈہ پر ایک مسجد اورکنواں کھدوایا یہ اللہ کا خصوصی کرم تھا۔ والد صاحب فرماتے ہمارے خاندان میں پہلا بچہ جو سکول میں داخل ہوا وہ میرا نذیرا حمد تھا بہت محنتی شریف شروع ہی سے نمازی نیک فطرت، دسویں میں اول آیا، ملتان ایمرسن کالج میں داخل کرا دیا۔
مجھے اور میرے چھوٹے بھائی میاں نور اللہ بیرسٹر یو کے کو پیر محل کے نزدیک غوثیہ اسلامیہ ہائی سکول میں داخل کرا دیا۔ بھائی صاحب نذیر احمد 1946ء میں ملنے وہاں سکول آئے سکول کے دو استاد جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے ان سے ملے ہمیں بتلایا کہ ہندوستان میں صوبہ بہار میں ہندوؤں نے مسلمانوں کے گھر جلا دیئے مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ میں ایمرسن کالج چھوڑ کر جماعت اسلامی کے وفد کے ساتھ صوبہ بہار جا رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب ملتان ایمرس کالج میں بھی ڈاکٹر عبدالجبار شاکر کے ساتھ مولانا خان محمد ربانی مرحوم کی زیر تربیت جماعت کا کام کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالجبار شاکر مرحوم جسٹس خلیل الرحمن رمدے اور اٹارنی جنرل چودھری محمد فاروق مرحوم کے ماموں تھے۔ڈاکٹر نذیرا حمد صوبہ بہار میں 5 ماہ ریلیف کا کام جماعتی وفد غازی عبدالجبار صاحب مرحوم کی سربراہی میں کرتے رہے بیمار ہو کر واپس آئے۔ لاہور میں ہومیوپیتھک کالج میں داخلہ لے کر دن رات ایک کر کے علم حاصل کیا۔
والد صاحب بہت رنجیدہ تھے کہ میرا بیٹا میری خواہش کے مطابق تعلیم نہ حاصل کر سکا۔ ڈاکٹر صاحب لاہور سے فارغ ہو کر مولانا مودودیؒ کی خواہش کے مطابق ڈیرہ غازی خان شہر میں کرایہ کا گھر اور ایک دوکان لے کر مطب کھول کر بیٹھ گئے۔ مہاجرین کے کیمپ میں مہاجرین کے علاج معالجہ کی فکر بھی کرتے اور شہریوں کے ذریعے مہاجر بھائیوں کی ضروریات کی فکر بھی کرتے یہاں شہر میں اس وقت کوئی ایک گھر بھی ہمارا رشتہ دار یا تعلق دار نہ تھا۔ والد صاحب نے اپنے نمازی تہجد گزار بیٹے کو پہلے صوبہ بہار مسلمانوں کی خدمت اور اب یہاں دن رات مہاجر کیمپ میں خدمت کرتے اور اپنا کلینک کرتے دیکھا تو ڈیرہ غازی خان شہر میں آکر گلے لگا لیا۔ ماتھا اور سر چوما۔ پیار کیا۔ دعائیں دیں۔ فرمایا میں تمہیں پڑھا کر کیا بنا لیتا۔ اپنی خواہش اور خاندان کی تعلیم سے محرومیوں کا مداوا کرتا۔ لیکن میرے رب نے میرے بیٹے کو اپنے فضل و کرم سے جو کچھ بنا دیا اس کا میں کس زبان سے شکر ادا کروں۔ چنانچہ قائد اعظم روڈ بلاک 12 میں پلاٹ لے کر مستری لگا دیئے 4 کمرے دوکانوں کے پیچھے بہترین پختہ تین کمروں، برآمدہ، کچن سٹور اور ساری ضرورتوں پر مشتمل گھر بنا دیا شادی کر دی ابتدائی اجتماعات اور جماعت کی تربیت گاہیں ہمارے ہی مکان میں منعقد ہوتی تھیں سارے انتظامات اور اخراجات والد بزرگوار اٹھاتے۔
ڈاکٹر صاحب شہید کو نئی ہرکولیس سائیکل خرید کر دے دی شمال میں ڈیرہ اسماعیل خان کی حدود سے لگتا ہوا اور جنوب میں ضلع جیکب آباد سے لگتا ہوا ضلع ڈیرہ غازیخان کا چپہ چپہ ڈاکٹر صاحب نے کھنگھال مارا کوئی فرد بھی واقف نہ تھا۔ یہاں سید عطا اللہ شاہ بخاری کے احرار کے سوا کوئی جماعت نہ تھی۔ پیروں کی گدیاں تھیں مرید تھے۔ تمندار سردار وڈیرے تھے اور ان کے دست بستہ ہمسائے اور رعایا تھی۔ ڈاکٹر صاحب بتلایا کرتے کہ کئی دفعہ مجھے بعض جگہوں پر مسجدوں سے نکال دیا گیا۔ مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی کے خلاف اس قدر زہریلا پراپیگنڈہ تھا کہ یہ گستاخ رسول اور صحابہ کی توہین کرنے والے ہیں۔ تحصیل تونسہ کے ایک دیہات میں عشاء کی نماز میں مجھے صف سے باہر نکال دیا۔ ان دنوں بجلی تو یہاں ڈیرہ غازی خان شہر میں نایاب تھی میں نے ٹھنڈے پانی سے منہ دھویا دوبارہ وضو کیا طبیعت سنبھلی لوگ نماز سے فارغ ہوئے میں نے ایک کونے میں نماز ادا کی۔ لوگ چلے گئے امام مسجد دروازے بند کرنے لگا تو میں باہر آ گیا۔ رات کا وقت کہاں جاؤں ایک دوکان کے تھڑے پر چادر بچھا کر لیٹ گیا۔ سائیکل ساتھ کھڑی کر لی۔ بے خوابی کی شکایت مجھے کافی عرصہ سے تھی۔ کافی دیر کے بعد ایک آدمی آیا مجھے مجبور کر کے ساتھ لے گیا۔ اپنے مکان کے باہر کھلے صحن میں چارپائی ڈال دی بستر دیا۔ سائیکل کی کوئی ہوا نکال گیا تھا۔ صبح اس شخص نے ناشتہ کرایا۔ سائیکل میں ہوا بھروائی اور سارا تعارف حاصل کرنے کے بعد کہا کہ اب آپ جب بھی آئیں میرے مہمان ہوں گے۔ اس طرح آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ڈاکٹر صاحب فرماتے مجھے ساتھی اور ہمدرد ملتے گئے۔حاجی محمد داجلی مرحوم نے ٹویوٹا جیپ برانڈ نیو خرید کر کے حوالے کر دی۔
پورا ضلع (ڈیرہ اور راجن پور) آئے روز کے مقدمات، پیشیاں، دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی دیکھتا تو لوگ سوچنے لگے کہ لالچ کے بغیر ڈاکٹر صاحب نہ چندہ مانگتے ہیں نہ دعوتیں اڑاتے ہیں، رہائش اور کھانا اور رابطہ و تعلق بھی کسی سردار و ڈیرے سے نہیں غریب طبقہ اور جماعت سے تعلق رکھنے والے اور علاقے کے شریف غریب سے رکھتے ہیں۔ کھدر کی شلوار اور قمیض واسکٹ اور کھدر کی چادر اور سادہ چپل ہمیشہ استعمال کرتے ہیں روز اول سے ایم این اے بننے تک یہی سلسلہ رہا جیل میں جیل کا کھانا ہمیشہ استعمال کیا نہ کوئی مطالبہ نہ بیماری کا بہانہ 2 سال کی سزا ہوئی جس کی اپیل سیشن جج چودھری رفیق تارڑ نے منظور کر کے سزا ختم کرا دی تین درجن مقدمات بھگتے 44 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔