پیچ و تاب زندگی
کاکولیات جیسی کتا ب کی تخلیق کے بعد بریگیڈیئر صولت رضا نے غیر فوجی کالم لکھ کر اپنی ادبی، سیاسی، عسکری اور عدالتی امور پر برتری او ر عوامی نبض شناسی کا ثبوت دیا ہے۔نئے قارئین کے لئے عرض ہے کہ ”کاکولیات“ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں ایک جنٹل مین کیڈٹ کے حالات زندگی کی لطیف داستا ن ہے جسے تقریباً پانچ دہائیوں سے بہت پذیرائی ملی ہے۔ہمیں یہ کتاب تیس سال قبل پی ایم اے میں پڑھنے کا موقع ملا۔ کتب بینی سے ہماری لگن دیکھتے ہو ئے برگیڈیئر صولت رضا نے اپنی تینوں کتب ہمیں یکے بعد دیگرے ارسال کیں۔انہوں نے اپنی عسکری ڈیوٹی کے دوران بھی اپنی صحافتی وابستگی جاری رکھی۔ ان کے نانا تقسیم پاکستان کے وقت دہلی سے پاکستان ہجرت کر کے آئے۔مصنف کی والدہ بتایا کرتی تھیں کہ ”دہلی سے پاکستان آنے والی ٹرین میں سفر کے دوران بے پناہ مسرت اور ایک انجانے خوف کی کیفیت طاری تھی۔ہم بہنوں نے خود پاکستان کا پرچم بنایااور بھائی نے ٹرین کے انجن پر لہرایا“۔ بریگیڈیئر صولت رضا کا تعلق ضلع نارووال کے قدیم قصبہ سنکھترہ سے ہے۔ ہم نے بھی گورنمنٹ ہائی سکول سنکھترہ سے 1990ء میں میٹرک کیا تھا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے دور کا ایک اہم واقعہ انجمن حمایت اسلام کا سالانہ جلسہ تھا۔صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان مہمان خصوصی تھے۔
انجمن کے صدر سید محسن شاہ (جسٹس نسیم حسن شاہ کے والد گرامی) اور دیگر اکابرین ڈائس پر موجود تھے۔ ہمیں صدر ایوب خان سے قریب سے ملنے کا موقع ملا۔اس سے قبل کراچی میں قیام کے دوران انہیں برطانوی ملکہ الزبتھ کے ہمراہ کھلی کار میں ڈرگ روڈ(موجودہ شاہراہ فیصل) سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ایوب خان بلند قامت،سرخ و سپید چہرہ،اور اس پر شاندار وردی کی چمک، قریب ہی ملکہ برطانیہ خوبصور ت گڑیا کی مانند ہم رکاب تھیں۔بریگیڈیئر صولت رضانے ایم اے صحافت کے سال آخر میں مشرقی پاکستان کی غیر سرکاری سیر کا پروگرام بنایا۔ بنیادی وجہ حالات کا بچشم خود جائزہ لینا تھا۔ اردو ڈائجسٹ کے مدیر اعلیٰ جناب الطاف حسن قریشی نے اس موقع پر خصوصی مالی امداد کی۔الطاف حسن قریشی صاحب نے حال ہی میں ”مشرقی پاکستان۔ایک ٹوٹا ہوا تارا“نامی ایک ضخیم کتاب لکھی ہے، جو متحدہ پاکستان سے ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پاکستان کے مشرقی بازو کے الگ ہونے پر مصنف بہت افسردہ ہوئے۔ لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ موصوف مزاجاًدانشورا ور صلح جو قسم کی شخصیت تھے۔انہیں چار پانچ زبانوں پر عبور حاصل تھا،کتابوں کے دلدادہ تھے اور انہوں نے بنگالی زبان بھی جلد سیکھ لی تاکہ شیخ مجیب الرحمن اور دیگر بنگالی رہنماؤں سے گفتگو میں آسانی رہے۔بد قسمتی سے جب صاحبزادہ یعقوب خان کو بنگالی زبان پر عبور حاصل ہوا، تب بنگالی عوام نے ان کی باتیں سننے سے انکا ر کر دیا۔مصنف پاکستان ملٹری اکیڈمی سے کمیشن کے بعد 23 فیلڈ رجمنٹ میں پوسٹ ہوئے جو کہ پاک فوج میں ”گنز آف واہگہ“ کے تعارفی نام سے مشہور ہے۔ اس یونٹ نے ستمبر 1965ء کی جنگ میں لاہور کے محاذ پر حملہ آور دشمن کے خلاف پہلا گولہ فائر کیا تھا۔ بریگیڈیئر صولت رضا اٹک سازش کیس میں آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس رپورٹ تیا ر کرنے کیلئے منتخب ہوئے تھے۔
اٹک سازش کیس اٹک قلعہ میں میجر جنرل ضیاالحق (شہید1988ء)کی عدالت میں ایک جانب ملزمان کی صورت میں پاک آرمی کے اہم افسر تھے۔ ان میں سے کئی بھارتی قید سے سرنگ کھود کر فرار ہوئے تھے۔ کچھ جنگی ہیروز بھی تھے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف بغاوت کا منصوبہ بنایا تھا۔ استغاثہ کے مطابق بغاوت پر آمادہ آرمی افسروں کا خیال تھا کہ سقوطِ ڈھاکہ میں پیپلز پارٹی کے بانی نے منفی کردار ادا کیا، جس کے باعث بھارتیوں اور باغیوں کو مذموم عزائم کی تکمیل میں بھرپور مدد ملی۔ مقدمہ کی کارروائی روزانہ کی بنیاد پر جاری ہوتی تھی۔ ملزمان کے وکلا میں شیخ منظور قادر صاحب، ایس ایم ظفر صاحب(کئی کتب کے مصنف)،اعجاز حسین بٹالوی صاحب اور بیرسٹر اعتزاز احسن صاحب جیسے صف ِ اوّل کے وکلا بھی شامل تھے۔ عدالت کا ماحول بے حد دوستانہ تھا۔ تمام وکلا عدالت میں ادب و احترام کے تمام تقاضوں پر عمل پیرا تھے۔کیپٹن کی حیثیت سے صولت رضا نے بلوچستان میں مری،بگٹی اور مینگل قبائل کے زیر نگیں علاقے دیکھے اور وہاں کے عوام کے مسائل سمجھے۔ مری علاقے کے اہم قصبے ”کوہلو“ میں ان کا بریگیڈ ہیڈکوارٹر تھا۔ بریگیڈئیر محمد عثمان(ستارہ جرأت) کمانڈ کر رہے تھے۔ بریگیڈ میجر، میجر سلیم حیدراور سٹاف آفیسر کیپٹن ضرار عظیم تھے۔ یہ دونوں سٹاف آفیسرز بعد میں لیفٹیننٹ جنرل کے رینکس سے ریٹائر ہوئے۔لیفٹیننٹ جنر ل سردارایف ایس لودھی(فاروق شوکت خان) بلوچستان کے گورنر تھے۔انہیں منصب سنبھالے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ ایک روز ضروری میٹنگ کے بعد اسلام آباد سے کوئٹہ جارہے تھے کہ خراب موسم کے باعث طیارہ بھکر کے دشوار گزارعلاقہ میں گر کر تباہ ہو گیا۔جہاز کا عملہ اور گورنر بلوچستان کے اے ڈی سی جاں بحق ہو گئے،صرف لیفٹیننٹ جنرل لودھی زندہ بچ گئے، لیکن شدید زخمی تھے۔ علاقے میں موجود ایک بکریاں چرانے والے بچے نے جہاز کو گرتے ہوئے دیکھ لیا، وہ گاؤ ں بھاگا اور چند بڑوں کو بلا لایا۔انہوں نے شدید زخمی گورنر کو ٹریکٹر ٹرالی میں ڈالااور قریبی شفا خانے کی جانب روانہ ہو گئے۔راستے میں انہیں تیل اور ہلدی کا محلول پلاتے اور زخموں پر لگاتے رہے۔موسم ٹھیک ہوتے ہی ہیلی کاپٹر پہنچا اور جنرل لودھی کو ملٹری ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔یہ کتاب چھ دہائیوں کے واقعات کا مرقع ہے۔رنگین تصویروں سے مزین یہ کتاب قلم فاؤنڈیشن لاہور نے شائع کی ہے۔
٭٭٭٭٭