درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 45
میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔گیارہ بج رہے تھے اور فضا میں دم بہ دم سردی بڑھتی جارہی تھی۔پھر ہوا کے جھکڑ چلنے لگے اور درختوں ،پتوں اور شاخوں کے ہلنے سے ایک عجیب بھیانک شور جنگل میں پھیل گیا۔ سردی، پراگندہ، خیالی، تھکن اور شیر کی موجودگی کے احساس سے میرے جسم میں کپکپی سی چھوٹنے لگی۔ میرے جھولے میں وقت بے وقت کے لیے ایک چھوٹا کمبل رکھا رہتا ہے۔میں نے سوچا سردی سے بچنے کے لیے یہ کمبل اوڑھ لینا چاہیے۔نہایت آہستگی سے جھولے کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ہوا کا ایک زور دار فراٹا آیا اور مچان ڈولنے لگا۔ میں نیچخے گرتے گرتے بچا۔ اب ایک نئی مصیبت آن کھڑی ہوئی۔ یک لخت گھاٹی کی جانب سے ایک مانوس سی آواز کان میں آئی اور میں نے مچان کو سنبھالنے کے بجائے پھررائفل سنبھالی۔ٹارچ اگرچہ میری جیب میں موجود تھی لیکن اسے روشن کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔میری کیفیت اس لمحے اس چوہے کی مانند تھی جو پانی میں بھیگنے کے بعد کانپ رہا ہو۔خدا خدا کرکے ہوا کا طوفان تھما اور فضا پر سکون ہو گئی۔
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 44 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جنگل سے گاؤں ایک میل دور تھا اور وہاں بھونکنے والے کتوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔باڑوں اورب ند ڈنئگروں کی گردنوں میں بندھے ہوئے ڈھولنوں کی آواز بھی گاہے گاہے آجاتی تھی مگر میرے قریب وجوار میں جنگل کی عام آوازوں کے سوا کچھ نہ تھا۔حشرات الارض کی ہلکی ہلکی سیٹی نما آوازیں،ہوا سے چلنے والے پتوں کی سرگوشیاں اور چھوٹے چھوٹے جانوروں کے گھاس پر دوڑنے کا شور کبھی کم ہوتا، کبھی بڑھ جاتا۔تھوڑی دیر بعد گھاٹی کی پرلی طرف واقع ایک چھوٹے سے تالاب میں رہنے والے مینڈک اچانک ٹرانے لگے اور میں نے اتنی دیر میں جھولے سے کمبل نکال کر اپنے گرد لپیٹ لیا۔
رات کا بڑا حصہ بیت گیا اور سردی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔ اس طویل اور تھکا دینے والی شب بیداری نے بدن لکڑی کی طرح سخت اور بے جان کر دیا۔ پھر آہستہ آہستہ میری پلکیں بند سے بوجھل ہونے لگیں۔میں تھرماس ٹٹولنے کی کوشش کی تو انگلیوں نے حرکت کرنے سے انکار کر دیا۔حتیٰ کہ تھرماس کا ڈھکنا کھولتے ہوئے مجھے خاصی مشقت کرنی پڑی ا ور احتیاط کے باوجود کھڑ کھڑ کی سی آواز نکل ہی گئی۔۔۔دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔میں نے ہاتھ وہیں روک لیا اور سرگھما کر اپنی دہنی سمت سے آنے والی ایک آواز پہچاننے کی کوشش کی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی جانور خشک پتوں پر دبے پاؤں چل رہا ہے اور آواز سے کچھ یوں اندازہ ہوا کہ شیر کے سوا کوئی اور جانور ہے لیکن کون سا جانور؟ میرے ذہن میں چیتے،چرخ اور ریچھ کی شکلیں گھومنے لگیں۔چرخ اور گیدڑ گارہے پر اکثر آجایا کرتے ہیں اور یہ ذلیل جانور شکاری کے کیے دھرے پرآنا فاناً پانی پھیر دیتے ہیں۔
میں نے تھرماس سے ہاتھ ہٹالیا۔رائفل کا کندا میری ران پر ٹکا ہوا تھا اور نالی پیروں کے درمیان تھی۔ میرے ہاتھ ایک طرف بڑھنے لگے اور میں نے کندے کا گلا حصہ گرفت میں لے لیا اور بڑی احتیاط اور خاموشی سے ایک ایک انچ کرکے اسے کندھے تک لانے میں کامیاب ہو گیا۔اب رائفل کی نالی کارخ دونوں مرے ہوئے جانوروں کی طرف تھا۔دماغ میں طرح طرح کے خدشات کے ہجوم نے حشر برپا کر رکھا تھا اور اس پر اسرار آواز کی طرف کان لگائے سننے کی کوشش کرنے لگا۔وقت چیونٹی کی چال سے گزر رہا تھا لیکن میں نے دوبارہ آواز نہ سنی مگر طبیعت کے ہیجان میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔تقریباً پندرہ منٹ گزر گئے جو مجھے صدیوں کے برابر معلوم ہوئے۔
گوش برآواز رہنے کا اتنا شدید اثر تھا کہ کانوں میں سائیں سائیں شروع ہو چکی تھی مگر میں اسے برداشت کرنے پر مجبورتھا۔یہی لمحات فیصلہ کن تھے اور شیر پر سبقت لے جانے کے لیے یہ جاننا ضروری تھا کہ وہ تین ممکنہ صورتوں میں سے کس پر عمل کرے گا۔
گھبرا کر بھاگ جائے گا؟
گارے کی طرف دھیرے دھیرے بڑھے گا؟
گھن گرج کے ساتھ مچان پر حملہ آور ہو گا؟
ان سوالوں کا جواب یکایک بائیں طرف کی تاریکی نے دیا۔ نہایت مدہم سی آواز سنائی دی جس میں تنبیہہ کا اشارہ پنہاں تھا کہ شیر مچان کے نزدیک پہنچ چکا ہے۔اب میں آسانی سے وہ مانوس آواز پہچان سکتا تھا جو کسی بھاری جسم والے جانور کے خشک پتوں پر چلنے سے آہستہ آہستہ پیدا ہوئی ہے۔پھر ایک غیر واضح سی سرسراہٹ ہوئی، جیسے وہ نیچے سے خشک اور چرمرپتوں کو ہٹا رہا ہے۔مقابلہ شروع ہو چکا تھا اور دونوں حریف ایک دوسرے کا سامنا کرنے کے لیے مستعد تھے۔میں سمجھ گیا کہ درندہ ضرورت سے زیادہ چالاک اور مکارہے اور اس پر قابو پانا آسان نہ ہو گا۔غالباً اسے شبہہ ہو گیا تھا کہ درخت پر جس جگہ مچان بندھا ہوا ہے وہاں کچھ نہ ہونا چاہیے مگراس کاشبہہ ہو گیا تھا کہ درخت پر جس جگہ مچان بندھا ہوا ہے وہاں کچھ نہ ہونا چاہیے مگر اس کا شبہہ ابھی یقین کی حد تک نہ پہنچا تھا ۔اس لیے وہ حقیقت حال سے آگاہ ہونے کے لیے کوشاں تھا۔ میں جانتا تھا کہ جب تک اس کا شبہہ یقین میں نہ بدلے گا، وہ مجھ سے دور پھرتا رہے گا اور عجلت سے کام نہ لے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ تسلی کر لینے میں وہ مزید وقت لے اور گارے کے چاروں طرف چکر کاٹ کاٹ کر سن گن لینے کی کوشش کرے۔یہ موقعہ اتنا نازک ہوتا ہے کہ شکاری کی طرف سے ذرا سی بے احتیاطی سارا کھیل بگاڑ دیتی ہے،چنانچہ میں چوہے کی طرح اپنی جگہ دبکا رہا۔
مزیدآدھا گھنٹہ گزر گیا۔ جنگل پر بے کراں سناٹا طاری تھا۔ جھینگر،پرندے،حشرات الارض اور مینڈک سبھی درندے کی موجودگی سے باخبر ہو کر دہشت زدہ تھے اور انہوں نے اپنا اپنا راگ الاپنا بند کر دیا تھا۔اتنی ہولناک خاموشی تھی کہ میں کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی ٹک ٹک بخوبی سن سکتا تھا۔ شیر کو چت کرنے کی تدبیر یہی تھی کہ میری طرف سے ذرابھی آہٹ نہ ہو۔شیر نے اپنی دانست میں ڈ اس مقام پر موجودگی کا راز اس وقت تک فاش نہ کیا تھا اور نہ میں نے ظاہر کیا کہ مچان پر اس کی تاک میں بیٹھا ہوں،گویا ہم دونوں ایک دوسرے کودھوکا دے رہے تھے۔
شیر کی اصل کیفیت کا مجھے علم نہیں مگر میرا حال یہ تھا کہ اعصابی ہیجان مجھے مارے ڈالتا تھا۔ایک ہی حالت میں بیٹھے بیٹھے جسم پتھر بن چکا تھا اور پہلو بدلنے کی خواہش قوی ہوتی جارہی تھی لیکن یہ یقین کیجئے نیچے تاریکی میں شیر کسی جگہ موجود ہے اور ذرا سا سراغ پاتے ہی بجلی کی طرح مجھ پر آن پڑے گا، میں بت بنا مچان پر جما رہا۔
رفتہ رفتہ مچان کے بالمقابل کچھ فاصلے پر پتوں کے چرچرانے کی واضح آواز آئی، جیسے کوئی بھاری بھر کم جانور اپنے گدی دار پیروں پر چلتا ہوا بے خوف و خطر آگے بڑھ رہا ہو۔میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس آواز کا مطلب یہ تھا کہ شیر کی بے رحمانہ چھان بین اور احتیاط کا عرصہ بیت چکا۔اس کی تیز نگاہیں درخت پر بندھے ہوئے مچان کی بھونڈی شکل سے دھوکا کھا گئی تھیں اور اب وہ شکم پری کے لئے بے خوف و خطر چلاآرہا ہے۔میں نے اندازہ کیا کہ وہ میری بائیں جانب تقریباً چالیس گز کے فاصلے پر آن کے رک گیا ہے۔میں نے رائفل کی نال پر فٹ کی ہوئی ٹارچ کا بٹن چھوااور اسے روشن کرنے ہی والا تھا کہ آواز آنی شروع ہو گئی۔ شیر دوبارہ آگے بڑھ رہا تھا اور اس کا یہ عارضی رکنا غالباً اپنے ماحول پر آخری احتیاطی نظر ڈالنے کی غرض سے تھا۔دفعتہً وہ آہستہ سے غرایا۔اب مجھے شیر کی موجودگی کے بارے میں کسی قسم کا شبہہ نہ رہا۔
اور یہی وقت تھا کہ جنگل کا بھیانک سناٹا چیرتی ہوئی لرزہ چیخ کی آواز بلند ہوئی جس نے میرا دل ہلا دیا اور میں شکار کے تمام اصولوں کو پس پشت ڈال کر مچان پر کھڑا ہو گیا۔اس احمقانہ حرکت سے مچان کانپ اٹھا، شاخیں ٹوٹنے لگیں اور پتے کھڑکنے لگے۔چیخ کی آواز کے ساتھ ہی شیر کے منہ سے خون سرد کر دینے والی گرد نکلی اور وہ دھاڑتا ہوا ایک طرف بھاگا۔ دیر تک اس کی آواز کا کڑا کا جنگل میں گونجتا رہا۔درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندے اور دوسرے جانور دہشت زدہ ہو کر چیخنے چلانے لگے اور آناً فاناً قیامت برپا ہو گئی۔خوفزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ میں حیران تھا کہ یہ پراسرار آواز کیسی تھی، کہاں سے آئی اور اس کا سبب کیا تھا؟آواز پرندے کی تھی، نہ جنگلی جانور کی اور نہ کسی انسان کی۔ کوئی بھوت پریت ہو تو الگ بات ہے۔بھوت پریت کا خیال آتے ہی بدن میں تھرتھری سی چھوٹ گئی اور رائفل کو گرفت میں لینے والی ہتھیلیوں سے پسینے کے قطرے پھوٹ نکلے۔آنکھوں کے سامنے شرارے سے اڑنے لگے اور کانوں میں سائیں سائیں کی آواز اور تیز ہو گئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا، جیسے کسی گہرے اور اندھے کنویں میں غوطے کھا رہا ہوں۔
تھرماس میں سے چائے کے گرم گرم گھونٹ پیئے تو ہوش ٹھکانے آئے اور بھوتوں خبیثوں کے وحشت ناک تصورات سے نجات ملی۔اب میں سنجیدگی سے غور کرنے لگا کہ یہ آواز آخر کس کی ہے اور اس کا مطلب کیا ہے۔اسے وہم یا معمولی بات سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔میں جتنا غور کرتا اتنا ہی یقین ہوتا جاتا کہ جس بھیانک آواز نے سوئے ہوئے جنگل کو بیدار کیا ہے،وہ بہرحال انسانی آواز نہیں۔اس دعوے کی تائید میں میرے پاس ناقابل تردید شہادت بھی موجود تھی اور وہ یہ کہ خود شیر یہ آواز سن کر ڈرا اور راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔شیر تو وہ جانورہے جو جنگل کی ادنیٰ سے ادنیٰ زندگی سے آگاہ ہوتا ہے۔جنگل میں رہنے والا کوئی جانور یر کو دھوکا نہیں دے سکتا لیکن اس وقت تو شیر بھی دہشت زدہ ہو گیا تھا۔
مجھے خیال آیا کہ آواز سن کر میں نے بھوت پریت کا تصور کیوں کیا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ جنگلی لوگوں کے درمیان رہنے سے غیر شعوری طور پر ان کی ضعیف الاعتقادی کا اثر میری طبیعت نے حذب کرلیا ہو۔میں فصل کٹنے سے پیشتر اپنے کارکنوں کو ناریل توڑنا یاد دلاتا اور جنگل کے دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنے شکاریوں کو سیاہ مرغ دیتا تھا کہ شاید اس سھینٹ سے قسمت میرا ساتھ دینے لگے۔
’’کود۔۔۔و۔۔۔و۔۔۔اوکوا۔۔۔و۔۔۔او‘‘
ایک نئی آواز نے میرے خیالات کا تانا بانا توڑ دیا۔یہ تقریباً نصف میل دور سے آنے والی مادہ چیتل کی آواز تھی اور میں اسے غور سے سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہو گیا۔ آواز تین مرتبہ اور آئی اور آخری آواز کے اختتام پر مجھے شبہہ ہونے لگا کہ اب شیر کے شکار کا امکان باقی نہیں رہا، کیونکہ مادہ چیتل غالباً شیر ہی کو دیکھ کر بول رہی تھی۔ میں نے اپنی قسمت کو کوستے ہوئے دوبارہ تھرماس کی مدد لی اور گرم گرم چائے کے تین چار گھونٹ لیے۔اعصابی ہیجان ختم ہو رہا تھا اور اب میں پہلے کی طرح تازہ دم اور بے خوف ہو چکا تھا۔میں نے طے کر لیا کہ نور کا تڑکا ہوتے ہی پتا چلاؤں گا کہ خون سرد کردینے والی وہ چیخ کس کے حلق سے نکلی تھی۔ چائے پینے کے بعد میں نے جیب سے پائپ اور تمباکو نکالا۔پائپ میں تمباکو کو بھرتے وقت احساس ہوا کہ میں کتنا تھکا ہوا ہوں اور اب مجھے اس مچان پر سمٹ سمٹا کر سو جانا چاہیے۔میں نے پائپ لگانے کے لیے سلائی کی ڈبیا سے تیلی رگڑی،ننھا سا نارنجی شعلہ یک دم روشن ہوا مگر فوراً ہی ہوا کے اچانک جھونکے سے بجھ گیا۔ میں نے دوسری تیلی جلائی اور اپنے ہاتھوں کی آڑ میں اسے بجھنے سے بچایا۔تیلی ابھی پائپ تک پہنچی نہ تھی کہ دفعتہً شب کی ہمہ گیر تاریکی میں دل و جگر کوچیر دینے والی ہی چیخ دوبارہ سنائی دی۔جلتی ہوئی تیلی میرے ہاتھ سے نیچے گری اور پائپ منہ سے چھوٹ کر نہ جانے کہاں گیا۔میں نے دہشت زدہ ہو کر مچان کودونوں ہاتھ سے یوں تھام لیا، جیسے میں صبا رفتار گھوڑے پر سوار ہوں اور وہ مجھے گرانے کے لیے اندھا دھند دوڑ رہا ہے۔(جاری ہے )
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 46 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں