انتظارِ قیامت کی حقیقت!
جناب ابوالاعلیٰ مودودی نے تفہیم القرآن (جلد اول) میں لکھا ہے کہ اسرائیلی تاریخ کے حساب سے حضرتِ موسیٰ نے 1272ق م میں وفات پائی اور نبیؐ 610بعد مسیح، منصبِ نبوت پر سرفراز ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب محمدؐ کو رسالت کا منصب سونپا گیا تو اس وقت حضرت موسیٰ کو گزرے تقریباً 19صدیاں اور حضرت عیسیٰ کو گزرے تقریباً چھ صدیاں بیت چکی تھیں۔
آج حضرت مسیح کی ولادت کو 2024برس گزر چکے ہیں۔ ان گزشتہ 20صدیوں میں خدا کا کوئی اور پیغمبر روئے زمین پر نہیں بھیجا گیا۔ آنحضورؐ خدا کے فرستادہ آخری نبی تھے۔ آپ حضورؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، یہ عقیدہ ہم سب مسلمانوں ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے مذاہب یعنی یہود و ہنود، عیسائیت اور بدھ مت کے ماننے والوں کا بھی ہے…… اگر غور کیا جائے تو یہ سوال بار بار ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا اب تاقیامت کسی بھی نبی کی ضرورت کیوں باقی نہیں رہی؟……
آنحضورؐ کے وصال کے بعد ولیوں اور خدا کے نیک بندوں کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ وہ ہر دور میں آتے اور تبلیغِ دین کا فریضہ انجام دے کر رخصت ہوتے رہے ہیں۔ لیکن دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں / عربوں کی آمد کے بعد اولیائے کرام کی آمد کا ایک مسلسل تانتا بندھا نظر آتا ہے۔تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو حصرت داتا گنج بخش سے حضرت نظام الدین اولیا اور علی احمد صابری کلیری کے بعد خدا کا کوئی ایسا ولی منظرِ عام پر نہیں آیاجو اولیائے کرام کے اس سلسلے کو باقی رکھ سکتا۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ ان مقدس ہستیوں کے بعد بھی خدا کے ایسے نیک بندے اس وقت تک وقتاً فوقتاً منظرِ عام پر آتے رہیں گے جب تک یہ عالمِ شش جہات باقی ہے۔ لیکن پھر تیسرا سوال یہ ہوگا کہ آج کی مسلم دنیا میں ایسا کون سا عالمِ دین ہے جو سنتِ نبویؐ کی پیروی کا درس دیتا اور خلقِ خدا کو صراطِ مستقیم پر رکھتا ہے؟…… کیا اب کسی کو سیدھا راستہ دکھانے کی ضرورت باقی نہیں رہی؟ یا کیا سیدھا راستہ دکھانے والوں کا سلسلہ بھی بند ہوکے رہ گیاہے؟
اگر ایسا ہے تو کیا اب مسلمان قیامت کے منتظر بیٹھے ہیں کہ وہ لمحہ کب آئے گا جب پہاڑ، روئی کے گالوں کی طرح اُڑیں گے اور ہوا میں تیرتے پھریں گے اور سمندر ایسے اُبلیں گے کہ جیسی ہنڈیا چولھے پر گرم ہو کر اُبلتی ہے۔ اگرچہ قیامت کی یہ نشانیاں آج ہمارے سامنے نظر آ رہی ہیں لیکن ہم بحیثیتِ انسان اس سے بے خبر ہیں۔ ان نشانیوں کی ایک جھلک 1945ء کے ماہِ اگست کی 6اور9تاریخوں کو دنیا نے جاپان میں دیکھی۔اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے……کیا اب تیسرا جوہری بم دنیا میں کہیں موجود نہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ 9اگست 1945ء کو ناگاساکی پر ایٹمی حملے کے بعد امریکہ کے پاس تیسرا ایٹم بم موجود نہ تھا۔اگر جاپان ناگاساکی پر جوہری حملے کے بعد ہتھیار نہ ڈالتا تو شاید دوسری عالمی جنگ چند ماہ اور طول کھینچتی اور چند لاکھ مزید انسان، روائتی جنگ میں،لقمہء اجل بن جاتے……
آج کی روس اور یوکرین کی جنگ دراصل روس اور ناٹو کے مابین جنگ ہے۔ روس نے حال ہی میں یوکرین میں نپرو (Dnipro) کے مقام پر اورشینک(Orshenik) نامی میزائل فائر کیا ہے جسے IRBM کہا جا رہا ہے اور یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اس کے بعد ICBM استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ اس ”دھمکی“ پر ناٹو کا ردعمل ہنوز معلوم نہیں ہو سکا۔
میں نے گزشتہ دو کالموں میں اس موضوع پر جو اظہارِ خیال کیا، اس پر پاکستانی قارئین نے کوئی خاص دھیان نہیں دیا۔ ہم بس اسلام آباد کے ڈی چوک میں تحریکِ انصاف کے قافلوں کی آمد و رفت کے منتظر بیٹھے رہے۔ اکثر قارئین کا بیشتر وقت یہ ٹوہ لگانے میں مصروف رہتا ہے کہ حکومت کا اگلا اقدام کیا ہوگا؟ دیکھا جائے تو ہم سب کو پاکستان کی فکر ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ لیکن خدا نہ کرے اگر روس نے یورپ پر جوہری میزائل داغنے کے پروگرام پر عمل کرنے کی ٹھان لی تو ڈی چوک پر تحریک انصاف کا مارچ اور اس کا انجام کیا خبر دیتا ہے؟ میرے گزشتہ دو کالموں پر بعض قارئین نے کہاکہ ایسے ”ٹیکنیکل کالم“ نہ لکھا کریں۔ عام پاکستانیوں کو یوکرین روس کی جنگ بھی ایک ٹیکنیکل بات نظر آتی ہے:
بہ بیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا
ہم سب جانتے ہیں کہ 30اپریل 1945ء کو برلن میں ہٹلر نے اپنی محبوبہ کے ساتھ خود کشی کرلی تھی اور یکم مئی 1945ء کو جرمنی نے اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ اب باقی صرف جاپان رہ گیا تھا جو اتحادیوں کے سامنے ڈٹا ہوا تھا۔ اس کو ختم کرنے کے لئے امریکہ، خطہء بحرالکاہل میں ٹوکیو کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس سمندر میں جگہ جگہ بڑے بڑے جزیروں پر جاپانی بحری اڈے بنے ہوئے تھے جن پر قبضہ کرنے کے دوران امریکہ کی بحری اور زمینی افواج کو اپنے ہزاروں افسروں اور سپاہیوں کی قربانی دینی پڑی۔اس دوسری عالمی جنگ کے ایک معروف مورخ لڈل ہارٹ نے لکھا ہے کہ بحرالکاہل کی بحری لڑائیوں میں امریکی افواج کا جو نقصان ہوا وہ اس جنگ کے باقی 6سالوں کے نقصانات سے بھی زیادہ تھا۔اس بات سے اس جنگ کے ان آخری ایام کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بحرالکاہل کے ان جزائر کی لڑائیوں میں آیوجیما اور اوکی ناوا وغیرہ کی بحری لڑائیاں بہت مشہور ہیں۔ یہاں جاپانیوں نے شدید مزاحمت کا مظاہرہ کیا اور شدید جانی نقصانات بھی کئے اور اٹھائے۔
دوسری طرف امریکہ میں ایٹم بم کی تیاریاں جاری تھیں۔ جولائی 1945ء میں امریکی اور برطانوی لیڈروں کو خبر دی گئی کہ امریکہ میں ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کیا جا چکا ہے۔ اس پر امریکہ نے جاپان پر ایٹمی حملے کا فیصلہ کر لیا۔
6اگست 1945ء کو بی۔29طیارے میں رکھے ایک ایٹم بم کو ہیروشیما پر گرایا گیا۔ چشمِ زدن میں ایک لاکھ جاپانی سویلین مارے گئے۔ (دراصل یہ تعداد 93000 سے لے کر ایک لاکھ تک شمار کی جاتی ہے) ہیروشیما کا یہ شہر جو جاپان کا ایک بڑا تجارتی مرکز تھا، آن کی آن میں ملبے کا ڈھیر (گراؤنڈ زیرو پر)بن گیا۔ ہیرویٹو، اس زمانے میں جاپان کا شہنشاہ اور جاپانی افواج کا سپریم کمانڈر تھا، اس کے وزیراعظم کا نام ٹوجوتھا جس نے اس ایٹم بم کے بعد بھی اپنے سپریم کمانڈر کو مشورہ دیا کہ شکست تسلیم نہ کی جائے…… یہ جاپانی قوم کی روائتی ہٹ دھرمی کی انتہا تھی۔
تین دن کے بعد امریکہ نے فیصلہ کیا کہ دوسرا ایٹم بم بھی جاپان پر گرا دیا جائے۔ چنانچہ 9اگست 1945ء کو دوسرا ایٹم بم ناگاساکی نامی شہر پر گرایا گیا جس میں انسانی اور مادی نقصانات کا سکیل وہی تھا کہ جو ہیروشیما پر پہلے ایٹمی حملے کا تھا۔
قارئین نے یہ تمام تفاصیل کئی بار پڑھ رکھی ہوں گی۔ ان کو دہرانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ دنیا کسی بھی لمحے ایک بڑی جوہری جنگ کا شکار ہو سکتی ہے۔ ہم ایشیا میں رہنے والوں کو تیسری عالمی جنگ شاید بہت دور معلوم ہوتی ہوگی لیکن یورپ والوں نے تو گویا اس کو گلے لگانے کا خود ارتکاب کر رکھا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں (فروری 2022ء تا حال) اس روس۔ یوکرین جنگ میں طرفین کے دس لاکھ فوجی اور سویلین مارے جا چکے ہیں۔ ہم ایشیاء میں غزہ اور اسرائیل کی جنگ کے بارے میں روزانہ کوئی نہ کوئی بیان پڑھتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ جنگ اس جنگ کے مقابلے میں پرِکاہ بھی نہیں جو عالمی اُفق پر یورپ اور امریکہ والوں کو نظر آ رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا احسا س نہیں کیا جا رہا۔ یہ بات بھی نوٹ کیجئے کہ آج تک جدید دنیا میں جتنی بھی جنگیں لڑی گئی ہیں ان کے دورانیے کا احساس کبھی نہیں کیا گیا تھا۔ یہ تو جب جنگ شروع ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دورانیہ کیا ہوگا اور یہ کب ختم ہو گی۔
جب کسی جنگ میں پہلی گولی چلتی ہے تو یہ حقیقت کسی کو بھی معلوم نہیں ہوتی کہ آخری گولی کب چلے گی…… اب تو اس آخری گولی کے انتظار کو انتظارِ قیامت کا نام دیاجا سکتا ہے۔ آج ہماری دنیا کا حال ویسا ہی ہے جیسا کسی شاعر نے نجانے کس ترنگ میں آکر اپنی محبوبہ کے بارے میں فرما دیا تھا کہ:
ہم قیامت کا نہ آناہی قیامت سمجھے
جب وہ ہر وعدہ قیامت پہ ہی ٹالے آئے