ناگہانی چٹانوں اور سیلابی ریلے کا ڈر ۔۔۔۔میں نے کبھی اتنی تیز بارش نہیں دیکھی تھی
مصنف : عمران الحق چوہان
آخری قسط
مو سلا دھار بارش اور آندھی نے اب طوفان کی صورت اختیار کر لی تھی۔پانی کی بوچھاڑوں میں ناک سے آ گے ،یعنی ونڈ سکرین سے آگے، کچھ دکھائی نہیں دے رہاتھا ( ویسے میری ناک بھی ونڈ سکرین کو چھو رہی تھی کیوں کہ میں ڈرائیور کے پہلو میں اگلی نشست پر بیٹھا تھا اور بارش کی بوچھا ڑوں میں غیر واضح سڑک پر نگاہ رکھنے میں ایوب کی مدد کر رہا تھا)۔ میں نے اس علاقے میں کبھی اتنی تیز بارش نہیں دیکھی تھی۔
بجلی چمکتی تو لمحہ بھر کو باہر کا منظر روشن ہوتا ، اور پھر اندھیرے میں گم ہو جاتا۔ کنڈکٹر کھلے دروازے میں کھڑا تھا اور بارش کے ڈونگروں میں شرابور ہوتے ہوئے ”استاد سیدھا رکھو! ۔۔۔ استاد تھوڑا الٹے ہاتھ! ۔۔۔ ٹھیک ٹھیک ہے ! “ وغیرہ کی آوازیں لگا رہا تھا۔ہوا اس قدر تیز تھی کہ لگتا تھا گاڑی کو اِدھر اُدھر دھکیل رہی ہے۔ بجلی کڑکتی تو پہاڑوں میں اس کی گونج ہیبت ناک محسوس ہوتی۔ بجلی کی چمک میںاندھیرے میں چھپے پہاڑ پل بھر کو نظر آتے اور پھر چھپ جاتے۔ ایوب دونوں ہاتھوں سے سٹئیرنگ کو مضبوطی سے قابو کیے اپنی سیٹ کے کنارے پر اٹکا ہوا تھا۔اس کی نظریں سڑک پر جمی ہوئی تھیں اور کبھی کبھی آگے جھک کر وہ اوپر پہاڑوں کی طرف دیکھتا جہاں گہری تاریکی اور بارش کے ڈونگروں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ شاید اسے لینڈ سلائڈنگ کا دھڑکا بھی لگا ہوا تھا۔
ٹیلی فون کے اشارے بھی نہیں آرہے تھے اس لیے کسی کو صورت ِ حال کی اطلاع دینا بھی ممکن نہیں تھا۔بارش نے ویگن کی فضاءکو ٹھنڈا کر دیا تھا جس کے باعث دن بھر کے تھکے ہارے مسافر طوفان کی وحشت سے دور نیند کی وادی میں اتر چکے تھے لیکن میں جاگ رہا تھا۔ اپنے خوف،اندیشوں اور وسوسوں کے ساتھ۔طوفان ہر لحظہ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا تھا۔ کنڈکٹر بھی معاملہ ڈرائیور اور اللہ کے سپرد کر کے ایک سیٹ پر دراز ہوگیا اور چند منٹ بعد بارش کے شور اور بادلوں کی گرج میں اس کے خراٹے بھی شامل ہو گئے۔مجھے میڈم نورجہاں کے گیت کے بول یاد آئے ”سب جگ سوئے ہم جاگیں۔“ لیکن ڈر نے اگلے ہی لمحے یہ بول ذہن سے محو کر دیے۔ آسمانی بجلی اورویگن کی زرد روشنی میں اوپر پہاڑوں سے بہہ کر آنے والے کیچڑ اور پانی کے ریلے سڑک سے گزر کر نیچے دریا میں گر تے دکھائی دے رہے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہم ایک تیز رفتار اُتھلی ندی میں سفر کر رہے ہیں۔ پانی کی مو ٹی موٹی بوندیں گو لیوں کی طرح ویگن کی ونڈ سکرین سے ٹکراتی تھیں اور لگتا تھا کسی بھی وقت یہ سکرین ٹوٹ کر ہم پر آ رہے گی۔میں نے ایک ہاتھ سے سیٹ کے اوپر لگا ہوا دستہ پکڑ رکھاتھا اور سیٹ کے بالکل سرے پر بیٹھا ہوا تھا۔ ڈرائیور کے چہرے پر تناو¿ تھا اور وہ مکمل خاموش تھا اور بار بار گردن لمبی کر کے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اوپر، سامنے اور دائیں بائیں دیکھتا تھا اور میں اس کی پیروی میں اوپر ، دائیں بائیں، آگے دیکھنے کے علاوہ اس کی شکل بھی دیکھتا تھا کہ اس پر کیا تاثر ہے جو کافی حوصلہ شکن اور پریشان کن تھا۔ اس سرد موسم میں بھی پسینا میری کمر اوربغلوں سے بہہ رہاتھا۔اچانک گاڑی کے سامنے ایک دیوار سی آئی جس پرویگن کی ہیڈ لائٹس کے روشن دائرے چمکے ۔روشنی منعکس ہونے سے ویگن کا اندرون ایک لمحے کے لیے تیز روشنی میں نہا گیا۔ ایوب نے پوری طاقت سے بریک لگائی۔ ویگن ایک جھٹکے سے رکی، میں اپنی سیٹ سے اچھل کر ڈیش بورڈ سے جا لگا۔ مسافر ہڑ بڑا کر جاگ گئے۔ ”کیا ہوا؟۔۔ کیا ہوا؟“ کی ملی جلی سی آوازیں آئیں اور سب چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔لیکن اب سامنے کچھ نہیں تھا۔ بارش، آندھی اور بجلی کا وحشت ناک رقص ا ندھیرے میں پہلے کی طرح جاری تھا۔ میں نے ایوب کی طرف اور ایوب نے میری طرف دیکھا ۔
”بچ گئے !“ میں نے سانس کھینچتے ہوئے ایوب سے سر گوشی کی۔
اس نے جواب دیے بغیر ہو نٹ دبا کر اثبات میں سر ہلایا اور دوبارہ گاڑی کا ایکسی لیٹر دبادیا۔ ہم شاید موت سے ایک سیکنڈ اور ایک انچ کے فا صلے سے بچے تھے۔ پتھروں اور کیچڑ کا ایک بڑا ریلا پلک جھپکتے میں ہمارے سامنے سے گزر کر دریا کی گہرائی میں گم ہو چکا تھا۔ یہ لمحہ بھر کی بات تھی۔ اگر ہم ذرا سا آ گے ہوتے تو میں یہ یادیں نہ لکھ رہا ہوتا۔
”چوہان صا حب! برف تھی؟“ چیمے نے پچھلی سیٹ سے سر نکال کر نیند سے مندی آنکھیں جھپکاتے ہوئے مجھ سے پو چھا۔
”جی۔“ میں نے مختصر جواب دیا۔
ایوب کی ڈرائیوری اور ہمت دونوں جواب دے چکی تھیں اس نے ایک کشادہ جگہ دیکھ کر گاڑی سڑک کنارے روک لی۔ ہمیں دیکھ کر دو تین بڑی بسیں بھی رک گئیں اور سب طوفان تھمنے کا انتظارکرنے لگے۔ اس موسم میں کوئی بھی آ گے بڑھنے کا رسک نہیں لینا چاہ رہاتھا۔ یہ بھی کوئی بہت محفوظ جگہ نہیں تھی ہم دریا والی جانب سڑک کی بالکل کگر پر کھڑے تھے ۔ گاڑی کے اندر اوپر سے آنے والی ناگہانی چٹانوں اور سیلابی ریلے کا ڈر تھا ور باہر بارش کا طوفان ِ بلا خیز اور لینڈ سلائڈ کا اندیشہ ۔ ”جس جگہ ہم کھڑے ہیں یہ مٹی کا ٹکڑا ہی تو ہے اگر یہ بھی کُھر کر بہہ گیا تو ۔۔ ۔؟“ میرے دل میں ایک اور خوف جا گا۔ میں دل ہی دل میں درود شریف اور آیت الکرسی پڑھ کر بارش تھمنے کی دعا کرنے لگا لیکن بارش تو لگتا تھا کہ کبھی تھمے گی ہی نہیں۔خوف اور پریشانی نے لمحوں کو کھینچ کر پھیلا دیا تھا اور وقت کا اندازہ ختم ہوچکا تھا۔
رات کا جانے کون سا پہر تھا جب بارش کا زور ٹو ٹا، بجلی رہ رہ کر اسی طرح چمکتی تھی لیکن بوندیں چھوٹی ہو گئی تھیں۔بارش ہلکی ہوتے ہی بڑی بسیں چھینٹے اڑاتیں اپنی منزلوں کو روانہ ہو گئیں ۔ ہماری ویگن ہلکی تھی اس لیے ہم مزید کچھ دیر وہیں کھڑے جانے والی بسوں کی پچھلی سرخ بتیوں کو اندھیرے میں گم ہوتا دیکھتے رہے۔ آخر بارش بوندا باندی میں بدلی تو ایوب نے بھی ویگن سٹارٹ کی۔
تھاکوٹ پُل پر ویگن نے موڑ کاٹا تو دریا اور اس پر پھیلا خلا ءمیری نظر سے اوجھل ہو کر دوسری طرف چلا گیا۔ کھڑکی کے ساتھ مسلسل بھاگتی پہاڑوں کی دیوار حوصلہ بخش تھی۔ کچھ دیر تک خوف میرے ذہن پر کچو کے لگا تا رہا لیکن اب اس کی شدت وہ نہیں رہی تھی۔ خوف پسپا ہوتے دیکھ کر جانے کب نیند آنکھوں میں اتری اور میں گہری نیند سو گیا۔ اگلے روزموسلا دھار بارش میں بھیگتے راولپنڈی کے پیر ودھائی اڈے میں جاگنے کے لیے۔۔۔۔ جہاں آنے والے بسیں بھر بھر کر آتے ہیں اور جانے والے بسیں بھر بھر کر چلے جاتے ہیں۔۔۔اڈّے کی رونق کم نہیں ہوتی۔ ۔۔ یہ سرائے ہے یہاں کس کا ٹھکانہ ڈھونڈو ۔۔۔ یاں تو آتے ہیں یونہی لوگ چلے جاتے ہیں۔۔۔ سب مسافر ہیں ۔۔۔ چلو چلی کا میلا، دنیا رین بسیرا۔۔۔
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔