پی ٹی آئی سے عمران خان نکلیں گے؟
پی ٹی آئی میں سے کیا نکلے گا؟کبھی پی ٹی آئی اور اس کی پشت پناہی کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کا حواری میڈیا نون لیگ میں سے شین نکالا کرتا تھا، پھر شین لیگ میں سے میم لیگ نکالا کرتا تھا اور آج جب پی ٹی آئی پھیتی پھیتی ہو رہی ہے، کوئی نہیں بتارہا ہے کہ اب پی ٹی آئی میں سے کیا نکل رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پی ٹی آئی میں سے اسد عمر، فواد چودھری، علی زیدی اور فیصل واؤوڈ ا کے بعد اب عمران خان بھی نکل رہے ہیں؟
یادش بخیر، 90ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی کا بھی ایسا ہی حال ہو گیا تھا، اس کے اندر بھی کئی گھس بیٹھئے اسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹ بن چکے تھے جو صبح و شام چوہا رپورٹیں وہاں پہنچایا کرتے تھے جہاں بے نظیربھٹو کو سیاسی طور پر کمزور بلکہ بے وقعت کرنے کی منصوبہ بندی ہوا کرتی تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ کے سوا اس ملک میں کوئی دوسرا ووٹ بینک اپنے نظریے سے مخلص نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو ہی لے لیجئے جو بغض نواز شریف میں بلاول زرداری کو چھوڑ کر عمران خان کے پیچھے خوار ہو رہا ہے ،کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی میں سارے کا سارا ہی سوئنگ ووٹ ہے جو جہاں کسی کو نواز شریف کے مقابلے میں جیتتاہوا دیکھتا ہے، چھلانگ مار کر اس کے ٹرک پر چڑھ جاتا ہے۔
عمران خان کی عدت کیس میں سزا معطلی کی درخواست کیا مسترد ہوئی، پوری پارٹی ایکسپوز ہو گئی اور اس دیوار میں دراڑیں تو ایک طرف بڑے بڑے کھپے نمایاں ہو گئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اسمبلیوں میں ہیں، وہ کسی بھی دوسرے ٹرک پر چڑھنے کے لئے بے تاب ہیں، خواہ وہ ٹرک اسٹیبلشمنٹ کا ہی کیوں نہ ہو۔ جبکہ ہار جانے والے عمران خان سے وفاداری کا چورن بیچ کر دوبارہ سے اپنی سیاست زندہ کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں کیونکہ اب ان کی دیگر پارٹیوں میں شمولیت کا امکان معدوم پڑ چکا ہے۔ فراڈ چودھری اسکی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ دوسری جانب عمران خان سمجھتے تھے کہ قومی اسمبلی میں بیٹھے ان کے ایم این ایز اور ایم پی ایز ان کی رہائی کے پارلیمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے مگر وہ بھول گئے تھے کہ ان کے وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے چن چن کر الیکٹ ایبلز کے نام پر اپنے وفادار پی ٹی آئی میں شامل کئے تھے۔ اب جونہی اسٹیبلشمنٹ میں قیادت کی تبدیلی ہوئی، ان وفاداروں نے بھی اپنا قبلہ رخ اسی طر ف کر لیاہے اوراب بظاہر توعمران خان کی مقبولیت کے گن گاتے ہیں، مگر اندر سے کسی نئے کھلاڑی کی چھتر چھایا کے متمنی ہیں۔وہ دن دور نہیں جب پی ٹی آئی میں بہت سے گروہ نکل آئیں گے،کچھ تو ابھی سے ہویدا ہو گئے ہیں اور کچھ آئندہ آنیوالے دنوں میں نمایاں ہو جائیں گے۔ بس ذرا عدلیہ کے کچھ حلقوں کو چڑھاہوا بخار ذرا اتر جائے۔
بہت سنتے تھے کہ پی ٹی آئی جون کے مہینے میں اسٹیبلشمنٹ سے جوڈو کراٹے کھیلنے کا ارادہ رکھتی ہے، صوبہ خیبرپختونخوا سے ایسے اشارے آ بھی رہے تھے، مگر کیا کریں کہ پنجاب کو تو جیسے سانپ نے سونگھ لیا ہے ، اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی نے بھی علامہ طاہر القادری کی طرح پی ٹی آئی کو کرائے پر کارکنوں کی سہولت دینے سے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ عمران خان عدت کیس کے علاوہ اپنے خلاف ہر مقدمے میں ضمانت پانے یا بری ہونے کے باوجود جیل کی سلاخوں کے پیچھے پڑے ہیں اور بقول حفیظ اللہ نیازی صاحب، جیل کی سلاخوں اور دیواروں سے سر پھوڑنے پر آئے ہوئے ہیں۔
سیاست میں کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے اپنا سیاسی وجود قائم رکھنا سب سے ضروری ہوتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے لیڈر کے کھونٹے سے بندھی ہوتی ہے لیکن پی ٹی آئی کا عالم یہ ہے کہ لوگ عمران خان کی بات تو کرتے ہیں مگر ان کی رہائی کے لئے کوئی متاثر کن احتجاج ریکارڈ نہیں کر واسکے ہیں۔ دو تین مرتبہ خیبر پختونخوا سے کوشش ہوئی، حال میں اسد قیصر نے دوبارہ سے عمران خان کی رہائی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا مگر سب کچھ کاغذی کاروائی ثابت ہوا ہے۔ خاص طور پر پنجاب میں تو ان کے کسی لیڈر کو سر اٹھانے کی جرائت نہیں ہو رہی ہے، آجا کر حماد اظہر کسی ستارے کی طرح کہیں سے چمکے تھے مگر پھر معدوم ہو گئے۔ پی ٹی آئی کی دوسرے اور تیسرے درجے کی ساری قیادت کمپرومائزڈ نظر آتی ہے اور عمران خان سے زیادہ راولپنڈی کی طرف زیادہ دیکھ رہی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسمبلیوں میں اچھی خاصی اکثریت ہونے کے باوجود اس جماعت کی کوئی وقعت نظر نہیں آ رہی ہے، خاص طور پر پنجاب اسمبلی میں لوگ حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈرکہاں سے ہے؟سچ پوچھئے تو ابھی ان کے بارے میں لکھتے ہوئے بھی ان کا نام ذہن میں نہیں آرہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کو لاہور کے عوام نے قبول نہیں کیا، گزشتہ دو تین برسوں سے کوشش کے باوجود وہ لبرٹی چوک سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ سیاست ہو یا ثقافت، جب تک لاہور کے عوام اس کی اپروول نہ دیں، پنپ نہیں پاتے ، اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کی پارٹی لاہور کے سوا باقی پنجاب سے جیتنے کے باوجود بے وقعت ہے جبکہ نون لیگ پورا پنجاب ہار کر بھی لاہور سے جیت کر پاپولر جماعت کے طور پر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہے ، ایسا لگتا ہے کہ لاہوریئے عمران خان کو ابھی تک ایک entertainerسے بڑھ کر لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ کل بھی ایک سلیبیریٹی تھے اور آج بھی وہی ہیں، ان سے ملک کے سیاسی و معاشی مسائل کے حل کی توقع عبث ہے۔