ایک بجٹ ابھی پاس نہیں ہوا کہ دوسرا بجٹ کی لایعنی بحث چھیڑ دی گئی

ایک بجٹ ابھی پاس نہیں ہوا کہ دوسرا بجٹ کی لایعنی بحث چھیڑ دی گئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

لیجئے جناب، این گل دیگر شگفت، کہنے والے تو دھرنے کے دنوں سے کہہ رہے تھے کہ یہ حکومت گئی کہ گئی، بلکہ عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ استعفا لئے بغیر نہیں ٹلیں گے، چاہے انہیں ایک سال تک دھرنا دینا پڑے۔ ایک سال کا ریکارڈ تو خیر نہ بنا البتہ 126 دن بھی ریکارڈ ساز تھے، یہ دراصل دو دھرنے تھے جو لاہور سے چلے تو الگ الگ تھے، لیکن راستے اپنے اپنے انداز میں طے کرکے جب اسلام آباد پہنچے تو شاہراۂ کشمیر کے قرب و جوار میں دھرنا دے کر الگ الگ بیٹھ گئے۔ البتہ ان دھرنوں کا درمیانی فاصلہ زیادہ نہیں تھا، چند دن کے بعد دونوں دھرنے ڈی چوک پر منتقل ہوگئے۔ درمیانی فاصلے بھی کم ہوگئے، بلکہ من تو شدم، تومن شدی،والی صورت پیدا ہو گئی روزانہ اعلان ہونے لگے کہ بس چند دن کی بات ہے لیکن دن ہفتوں، ہفتے مہینوں اور مہینے برسوں میں بدل گئے لیکن استعفا نہ آیا، اب عالم یہ ہے کہ اسحاق ڈار نے نئے سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے یہ عندیہ بھی دے دیا کہ اگلا بجٹ بھی یہی حکومت پیش کرے گی۔ انہوں نے معلوم نہیں کس سیاق و سباق میں یہ بات کہی، تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی (اور حکومت) کی مدت اگلے سال 5 جون کو پوری ہوگی۔ اس سے پہلے حکومت کا ہر اقدام قانونی اور آئینی حدود کے اندر ہے۔ 2017-18ء کا بجٹ 26 مئی کو اس لئے پیش کیا گیا کہ 28 مئی کو رمضان شروع ہونے والا تھا، ورنہ عمومی طور پر بجٹ جون کے اوائل ہی میں پیش کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کی وجہ سے اسے ہفتہ دس دن پہلے پیش کر دیا گیا۔ اب اگلے سال کی بات کرلیتے ہیں قمری سال، شمسی سال سے دس دن چھوٹا ہوتا ہے اس لئے ہر قمر ی سال، شمسی سال سے دس دن پہلے شروع ہو جاتا ہے، اس لحاظ سے اگلا رمضان 18 مئی کے لگ بھگ شروع ہو جائے گا۔ اس لئے حکومت اگر چاہے تو 15 یا 16 مئی کو (یا اس سے ایک دو دن پہلے) 2018-19ء کا بجٹ پیش کرسکتی ہے اور اسمبلی 15,10 دن میں بجٹ کی منظوری بھی دے سکتی ہے۔ 5 جون کو نئی اسمبلی کے انتخاب کے لئے نگران سیٹ اپ بنے گا، جس کے تحت دو ماہ کے اندر انتخابات ہوں گے، یہ انتخابات 5 اگست سے پہلے پہلے ہونے چاہئیں، جس کے بعد حکومت کی تشکیل کے مراحل طے ہونے میں کچھ دن لگ جائیں گے اور یوں اگلی حکومت اگست کے اواخر میں یا ستمبر کے اوائل میں قائم ہوسکتی ہے، یہ حکومت جو بھی پارٹی بنائے (یا پارٹیوں کا کوئی اتحاد بنائے) اسے بجٹ تیار حالت میں مل جائیگا، چونکہ اس وقت تک نئے مالی سال کے دو مہینے گزر بھی چکے ہوں گے۔ اس لئے یہ منطقی بات ہے کہ نئی حکومت آتے ہی بجٹ کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہے گی، البتہ اتنا ضرور ہے کہ اگر کوئی ’’انقلابی‘‘ پارٹی برسر اقتدار آجائے تو اسے ’’رجعت پسندوں‘‘ کا بنایا ہوا بجٹ تو خوش نہیں آئے گا اس لئے وہ اپنا بجٹ بنانا پسند کرے گی اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ وہ بجٹ پر نظر ثانی کرکے اپنا بجٹ تیار کرلے اور اس میں سے ناپسندیدہ اعداد و شمار نکال کر اپنی پسند کے اعداد و شمار ڈال دے۔ ہمارے ہاں عام طور پر بجٹ کو اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ کہا جاتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بجٹ کو دیکھے سنے اور پڑھے بغیر ہی اسے آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دے دیتی ہیں اور شیخ رشید تو کئی سال سے بجٹ کو رضیہ بٹ کا ناول کہہ کر پکارتے ہیں تو خیر ہم بات کر رہے تھے کہ فنی طور پر اسحاق ڈار کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ اگلا بجٹ بھی مسلم لیگ (ن) ہی بنائے گی، بالفاظ دیگر اسحاق ڈار ہی بنائیں گے، چونکہ حکومت کی مدت ختم ہونے سے پہلے اس کے پاس بجٹ بنانے کا استحقاق موجود ہے۔ البتہ ٹاک شوز کے اینکرز کو ایک نیا موضوع بحث کے لئے میسر آگیا ہے۔ اب ظاہر ہے اگر اس موضوع پر بات ہوگی تو رائے تقسیم شدہ ہوگی، بعض ماہرین یہ کہیں گے کہ جس اسمبلی کی مدت جون میں ختم ہو رہی ہوگی وہ جولائی سے شروع ہونے والے سال کا بجٹ کیونکر بنا سکے گی۔ تاہم بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اسمبلی کو ایسا کرنے کا اختیار ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بحث اس لئے بھی قبل از وقت ہے کہ ہمارے بعض نجومی سیاست دان تو اس حکومت کو عید کے بعد (کون سی عید؟) جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں، ان کے خیال میں اس حکومت نے اپنا آخری بجٹ پیش کر دیا ہے اور آخری مرتبہ غریبوں کی بددعائیں وصول کرلی ہیں، اب ان کے بعد نئی حکومت ہوگی، نئے انتخابات ہوں گے اور نئی اسمبلیاں ہوں گی۔ البتہ بددعائیں پرانی ہوں گی، کیونکہ ابھی عشروں تک ایسی حکومت نہیں آنے والی جو مزدور کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کر دے، یہ مطالبہ سال ہا سال سے کیا جا رہا ہے، اس عرصے میں مزدوروں کی ہمدرد حکومتیں بھی آئیں اور چلی گئیں، فوجی حکومتیں بھی آئیں، جن کو ملک کا مفاد بہت زیادہ عزیز ہوتا ہے لیکن انہیں بھی مزدوروں کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے مساوی کرنے کا خیال نہیں آیا موجودہ اسمبلی 2018-19ء کا بجٹ پیش کرسکتی ہے یا نہیں۔ لیکن ہمارے درمیان ایک ایسی اسمبلی بھی گزری ہے جو 2002ء میں منتخب ہوئی تھی اور اس کی آئینی مدت پانچ سال 2007ء میں پوری ہونے والی تھی لیکن اس اسمبلی نے ایک صدر کو جو اس سے پہلے ایک ریفرنڈم کے ذریعے صدر منتخب ہوچکا تھا، دوبارہ پانچ سال کے لئے صدر منتخب کرلیا تھا، یہ اسمبلی بھی صدر کو منتخب کرنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد فارغ ہوگئی تھی لیکن صدر صاحب اپنے منتخب عہدے پر موجود تھے، جنہوں نے اس خیال سے پوری سپریم کورٹ کو تہہ و بالا کر دیا تھا کہ کہیں اس کے سامنے یہ سوال نہ اٹھ کھڑا ہو کہ جانے کے لئے تیار بیٹھی ہوئی اسمبلی صدر کیسے منتخب کرسکتی ہے؟ جنرل پرویز مشرف ڈوگر کورٹ بنا کر سپریم کورٹ سے تو بچ نکلے لیکن انہیں تھوڑے ہی عرصے بعد یعنی 18 اگست 2008ء کو صدر کا عہدہ چھوڑنا پڑا، اسمبلی کی طرف سے منتخب ہونے کے باوجود اس عہدے نے وفا نہ کی، یا پھر انہوں نے عہدے سے وفا نہ کی، تو جناب یہ بحث ہوتی رہے گی کہ اگلا بجٹ کس نے پیش کرنا ہے۔ البتہ اگر مسلم لیگ (ن) دوبارہ جیت گئی تو پھر یہ سوال بھی غیر متعلق ہوکر رہ جائے گا، ممکن ہے اسحاق ڈار اس خوش فہمی میں مبتلا ہوکر اگلے بجٹ کی بات کر رہے ہوں۔
ایک بجٹ/ دوسرا بجٹ

مزید :

تجزیہ -