پھر سے اشکوں کی لگی ہے بارش۔۔۔
جب کوئی وقتِ سحر یاد آیا
مُجھ کو آہوں کا اثر یاد آیا
راہِ پُر خار پہ چلتے گزری
زندگانی کا سفر یاد آیا
پھر سے اشکوں کی لگی ہے بارش
"پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا"
کس طرح دل کو مَیں پُرسا دوں گا
کیا کروں گا، وہ اگر یاد آیا
خُوں سے لبریز ہوئی ہیں پلکیں
نخلِ گریہ کا ثمر یاد آیا
مَیں نے چاہا تھا بھلا دوں اُس کو
وہ مگر بارِ دگر یاد آیا
جعفری آگ لگی ہے دل میں
آہِ سوزاں کا شرر یاد آیا
کلام :مقصود جعفری(اسلام آباد)