ہمارے پاکستانی کینیڈین

         ہمارے پاکستانی کینیڈین
         ہمارے پاکستانی کینیڈین

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 عامر قریشی ایک،،پکا پیڈا لاہوریا،،کینیڈین ہے،برسوں پہلے پاکستان سے پڑھنے کے لئے نکلا، برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کینیڈا آن بسا،آج وہ یہاں کا ایک نامی گرامی اکاؤنٹنٹ ہے،سکین کینیڈا کے نام سے اس کے کئی دفاتر ہیں،ہر چیز اسے میسر ہے مگر دل دل پاکستان کے مصداق اس کا دل آج بھی پاکستان کے لئے ہی دھڑکتا ہے،اور دل تو آخر دل ہے،یہ اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیتا،پاکستان سے اسکی محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ہر وقت پاکستان سے محبت سکھاتا ہے،وہ انہیں پاکستان کی حسین وادیوں،شہروں اور اس کے باسیوں کے بارے میں بتاتا ہے اور اسکی کوشش ہوتی ہے کہ سال میں ایک بار اپنے بچوں کو پاکستان کی سیر کرائے،پاکستان سے کوئی چلا جائے تو وہ اسے بلانے،اسکی خدمت کرنے کے لئے بے تاب رہتا ہے،ٹورنٹو میں مقیم پاکستانی کینیڈین کی کوئی تقریب ہو، پاکستان سے کوئی فنکار،ادیب یا نامور شخصیت کسی شو کے لئے آیا ہو،کینیڈا کے الیکشن میں کوئی پاکستانی نژاد کینیڈین حصہ لے رہا ہو تو عامر قریشی آپ کو سب سے آگے کھڑا ملے گا۔

میں ان دنوں کینیڈا میں ہوں،یہاں کے پاکستانی کینیڈین سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں،ہمارے سب کے پیارے ہر دلعزیز سینئر صحافی اشرف خان لودھی کی والدہ ماجدہ کا گزشتہ دنوں پاکستان میں انتقال ہو گیا تھا،وہ کینیڈا واپس آئے تو یہاں انکی والدہ مرحومہ کے ایصال ثواب کے لئے منعقدہ اجتماع میں عامر قریشی اور میں اکٹھے تھے اور وہ تمام وقت پاکستان کی ہی باتیں کرتے رہے۔کینیڈا ایک مصروف اور بڑا ملک ہے، یہاں شہروں کے درمیان بہت زیادہ فاصلے ہیں اس لئے دوست،احباب سے ملنا آسان کام نہیں مگر غمی اور خوشی کی تقریبات میں پاکستان سے آئے پرانے دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے،لاہوری صحافت کے پرانے دوست بلکہ بابے یہاں مل گئے شیخ اعجاز،ظہیر بابر،باباقیصرضمیر،سجاد ولی،وسیم محمود، ذوالقرنین اور محمد طیب تو کسی نہ کسی اخبار میں میرے کولیگ رہے ہیں،ان سے مل کر عمر رفتہ کو آواز دی، پرانی یادیں تازہ ہوئیں۔عرفان ملک بابا جی،ایل ڈی اے کے پرانے افسر اور اب ٹورنٹو کی محفلوں کی جان،پاکستانیوں اور دوستوں سے محبت کا عالم یہ کہ ایک ہی دن میں چھلاوے کی طرح ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں،خواجہ انجم کا پیار انکی آواز سے چھلکتا ہے،میاں محمد بخش کا کلام اور خواجہ صاحب کی آواز کیا کہنے،،ماں کی شان وہ سنا رہے تھے اور اشرف لودھی،عامر قریشی اور اکثر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔رانا اشرف،رانااورنگزیب،عثمان وڑائچ،نوید چودھری،وقاص گوندل،حاجی جمیل یہاں کے سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں،ان کے علاوہ سیاستدانوں میں پیپلز پارٹی کینیڈا کے صدر اور حکومت پاکستان کے کوآرڈینیٹرچودھری جاوید گجر،کینیڈا کی رکن پارلیمنٹ اقراء خالد،حفظہ موسیٰ،فیصل آباد سے رکن اسمبلی اسماعیل سیلا کے صاحبزادے ایاز سیلا کے علاوہ درجنوں دوسرے احباب سے ملاقات ہو گئی۔

 مجھے اس محفل میں ملنے والے اکثر دوست یہ سوال کر رہے تھے کہ آج مغرب اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک مزید ترقی سے ہمکنار اور پاکستان جیسے اکثر ممالک ترقی اور شعور سے دور کیوں ہوتے چلے جا رہے ہیں؟ میرا ایک ہی جواب تھا کہ ہم کسی سیاسی لیڈر کو ملک سے بھگانے، کسی کو واپس لانے اور کسی کو اندر کرنے کے چکروں سے نکلیں تو کوئی بات بنے،ہم تو عقل و دانش،شعور و آگہی اور ملک کو ترقی کی جانب جانے والے معاملات سے کوسوں دور ہیں، آپ کا کیا خیال ہے کہ مغرب اور اس سے پرے کے ممالک اتنے ترقی یافتہ کیوں ہیں جبکہ مشرقِ قریب، مشرقِ وسطیٰ اور مشرقِ بعید کے ممالک ترقی کی دوڑ میں اس قدر پیچھے کیوں نظر آتے ہیں؟ حالانکہ برِ اعظم ایشیا اور افریقہ افرادی قوت کے لحاظ سے مغرب کی نسبت زیادہ متمول ہیں، قدرتی وسائل بھی یورپ کی نسبت زیادہ ہیں، ایشیا اور افریقہ روئے ارض پر دو ایسے برِ اعظم ہیں جہاں سارا سال سورج چمکتا ہے اور موسم سال میں کئی رنگ بدلتا ہے جو زراعت کی لائف لائن ہے، مغربی ممالک کی طرح یہ خطے دبیز دھندوں، سلی سلی طویل بارشوں اور چنگھاڑتے طوفانوں کی زد میں نہیں رہتے، ہم مغربی خطوں کے باشندوں سے کسی طور کم نہیں مگر وجہ ایک ہی ہے،وہ ہے منصوبہ بندی۔

 ہم لوگ چند ماہ یا چند برسوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جبکہ وہ دہائیوں اور صدیوں کی سوچ اپناتے ہیں،وہ ادراک کرتے ہیں کہ جو آبادی موجود ہے اس کی ضروریات کیا ہیں، وہ اتنی گہری اور طویل المعیاد منصوبہ بندی کیسے کر لیتے ہیں؟ اس کا جواب ہے برین ڈرین۔ امریکہ نے 2005 کے اوائل میں غیر ملکی سائنس دانوں اور ماہرین تعلیم پر ویزے پابندیوں کو کم کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو کیا یہ فیصلہ ایسے ہی کر لیا گیا تھا؟ ایسا نہیں ہے، یہ ایک سوچا سمجھا فیصلہ تھا جس کا مقصد با صلاحیت لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنا تھا، اسی وجہ سے ہمارے جیسے ممالک کے لاکھوں قابل نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لیے یا بڑی بڑی اور پُرکشش سیلریوں کے لیے امریکہ، برطانیہ، یورپ اورکینیڈا روانہ ہوتے ہیں۔

مغرب محض دوسرے ممالک سے اعلیٰ ترین دماغ ہی درآمد نہیں کرتا بلکہ اس نے اپنا نظام تعلیم بھی اس طرح منظم و مرتب کر رکھا ہے کہ طلبہ و طالبات کو ہر حال میں تحقیق کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ تحقیق میں مشاق کوئی بھی فرد جو بات کرتا اور جو تحریر قلم بند کرتا ہے وہ مصدقہ ہوتی ہے، ویسے بھی تحقیق کا عمل بندے کو ہرلحاظ سے پرفیکٹ بناتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ پُر کشش تنخواہوں پر درآمد کئے جاتے ہیں تو کچھ مقامی طور پر بھی تیار کئے جاتے ہیں اور یہ سارے لوگ مل کر نئی سے نئی تحقیق کرتے  ہیں جس کے نتیجے میں نئی نئی ایجادات ہوتی ہیں اور یہ دور کی کوڑی لانے کا عمل ہی دراصل مغرب کی تیز رفتار ترقی کا راز ہے، اتنی کاوشوں کے بعد کیا ترقی ان کا حق نہیں بن جاتا؟بھارت ان معاملات کو بھانپ گیا ہے مگر ہم نہیں سمجھے، ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انتہائی ہنر مند بھارتی نژاد ٹیلنٹ جو ایک بار امریکہ چلا گیا تھا، وطن واپس آ رہا ہے، یعنی امریکہ کے برین ڈرین کو بھارت برین گین میں تبدیل کر رہا ہے۔بھارت کے مالی حالات بہتر ہو رہے ہیں تو وہ لوگ جو اچھی ملازمتوں کے لیے بیرون ِملک چلے گئے تھے واپسی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

یہ تحریر لکھنے سے تھوڑی دیر قبل میں لاہور پریس کلب کے سابق صدر، ٹورنٹو کی صحافت کے بڑے نام بدر منیر چودھری کی طرف سے مسسی ساگا ٹورنٹو میں منعقدہ انتہائی کامیاب انور مقصود شو سے واپس لوٹا ہوں،ڈیڑھ ہزار کیپیسٹی کے اس ہال میں ایک بھی سیٹ خالی نہیں تھی،یہ لوگ بدر منیر چودھری کے بلانے اور انور مقصود کو سننے کے لئے ضرور آئے تھے،مگر ان سب کے آنے کی اصل وجہ پاکستان سے پیار تھا۔سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے، کیا پاکستان اپنے برین ڈرین کو روکنے یا جانے والوں کی واپسی کے لیے کچھ کر سکتا ہے؟

مزید :

رائے -کالم -