آ خر محرم الحرام میں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟

آ خر محرم الحرام میں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟
آ خر محرم الحرام میں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نویں دسویں محرم کے روز پورے پاکستان میں کرفیو کا ساماں ہے۔جونہی محر م الحرام کا چاند طلوع ہوتا ہے وطن عزیز میں ایک غیر معمولی اور ہنگا می نوعیت کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ،جس طرح بجٹ کی آ مد سے قبل اشیاء کی قلت ، ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں اس طرح محر م الحرام کے آ غاز میں مذہبی فضا میں تناؤ اور کھچا ؤ سا آ جاتا ہے حکومت کی طرف سے بعض علماء کی زبان بندی ، بعض علماء پر دوسرے علاقوں میں جا نے کی ممانعت ، دفعہ 144کا نفاذ اور انتظامیہ کو الرٹ کر دینے کے احکا مات جا ری کر دئیے جاتے ہیں امن کمیٹیاں بننا شروع ہو جاتی ہیں ان کے اجلاسز کا سلسلہ چل نکلتا ہے اور سنی شیعہ فرقوں کے درمیان دھمکی آ میز بیا نات کی یلغار ہو جاتی ہے۔ یہ رُجحان کم از کم ایک سادہ اور عام مسلمان کے لیے نا قابل فہم اور انتہائی تعجب انگیز ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی سیلاب یا طو فان آ رہا ہے جس کی پیش بندی کے یہ سارے منصوبے اور سا مان ہو رہے ہیں۔ اگر بند نہ باندھے گئے ، پُشتے مضبوط نہ کیے گئے ، کٹا ؤ کے انتظا مات نہ کیے گئے اور بہاؤ کے رُخ نہ متعین کیے گئے تو خدانخواستہ بڑی تبا ہی مچ سکتی ہے۔ آ خر محرم الحرام میں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس کی سادہ سی وجہ فرقہ واریت ہے جس کے زہر نے ذہنوں کو آ لودہ اور جس کی نفرت نے دلوں کو کبیدہ کر رکھا ہے اور وہ ایام اور مواقع جو کسی قوم کے لیے ذریعہ اتحاد ، سر مایہ افتخار اور طرہ امتیاز ہوتے ہیں ، اُلٹا موجب افتراق ، باعثِ فساد اور وجہ نزع بن جاتے ہیں حالانکہ عا شورہ محرم الحرام تاریخ اسلام کا ایک درد ناک باب ہے اور غم آگیں ورق !دنیا کا دستور ہے کہ غم اور دکھ کے موقع پر برادریوں میں اختلاف ہو بھی تو وقتی طور پر ختم ہو جا تا ہے اور ہر فرد دکھ درد میں شریک ہو تا ہے مگر ہمارے یہاں اس لمحہ الم میں پہلے سے بھی زیادہ اختلاف رونما ہو جا تا ہے اور دلوں کی دوریاں اور بڑھ جا تی ہیں ۔اس نا خوشگوار کیفیت کے یوں تو بہت سے اسباب ہیں جن کا گہرا علمی اور تاریخی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاہم با دی النظر میں اس نفرت کو ختم کرنے کے مندر جہ ذیل طریقے ہوسکتے ہیں۔
1۔ہمارے فرقہ وارانہ ذوق نے ہماری ملی اور تاریخی شخصیات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہم ان شخصیات کے آ فاقی کردار کو اپنے گروہی دائرے میں بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے در میان ن شخصیات کے حوالے سے ایک طرح کی کشمکش اُبھر آ تی ہے ۔انہی میں ایک مظلوم ہستی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہے ۔حا لانکہ سانحہ کر بلا محض ایک واقعہ نہیں تاریخ کا مستقل اور مسلسل کردار ہے۔ جب تک نوعِ انسانی کے درمیان حق اور باطل ، خیر و شر ظالم اور مظلوم کی آ ویزش رہے گی سانحہ کربلا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک قومی علامت کے طور پر انسا نیت کو حق اور خیر کے لیے ظلم کے خلاف جدو جہد کا درس دیتے رہیں گے ، مگر بد قسمتی سے ہم نے اس واقعہ کو شیعہ ، سُنی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے سب سے پہلے اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے تب مفاہمت کی فضا پیدا ہو گی۔
2۔ایک اُلجھن یہ بھی ہے کہ ہم غمِ حسین رضی اللہ عنہ کا اظہار کم کرتے اور اسے اپنے مسلک کا شعار زیادہ بناتے ہیں چنانچہ اس ذہنیت کے نتیجے میں اس دوران تصادم کے کئی مراحل آ جا تے ہیں پھر مسئلہ کر بلا کا نہیں رہتا اپنے دھڑے کی بقا اور انا کا ہو جا تا ہے ظاہر ہے جہاں ان کا ٹکراؤ ہو گا وہاں سے خیر اور محبت کیسے بر آ مد ہو گی ؟
3۔اس سلسلے میں ایک سبب اور بھی قابل توجہ ہے کہ ہم بظاہر امام حسین رضی اللہ عنہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے جلسہ اور جلوس کا اہتمام کرتے ہیں مگر دراصل بلاتے ان لوگوں کو ہیں جن کی اپنی بقاء اور گزراں اسوہ حسینی سے وابستہ نہیں بلکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر تفرقے سے منسلک ہو تی ہے پیشہ ور ذاکر اور فرقہ پرست واعظ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور قربانی کو اس طرح پیش کرتے ہیں گو یا انہوں نے یہ سب کچھ اسلام کی بالا دستی اور وحدت ملی کو قائم رکھنے کے لیے نہیں بلکہ کسی ایک گروہ کی سر بلندی اور حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے قربانی دی ، حالانکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا یہ جہاد کسی فقہی ، فروعی اور جزئی مسئلے کے لیے نہیں تھا بلکہ انہوں نے اپنے خون سے خلافت راشدہ اورملوکیت کے در میان حد فاصل کھینچ دی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اُمت کے لیے یہ جاننا مشکل ہو جاتا کہ اسلام کا اصل سر چشمہ مسجد نبویﷺ ہے یا شام کے محلات !شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا یہ سب سے بڑا احسان ہے کہ اس نے اُمت کو فکری یکسوئی عطا کر کے ذہنی انتشار سے بچا لیا ، چنانچہ آج تک حکمرانوں نے عوام کوبے شمار دھوکے دئیے اور لوگوں نے دھوکے کھائے مگر اسلام کے مثالی نظام پر دو آ راء نہیں ہیں اور کوئی حکمران اپنی ملوکیت ، مو روثیت اور آ مریت کو خلافت راشدہ کا متبادل نہ تو ثابت کر سکا اور نہ عوام سے منوا سکا ، گو یا عاشورہ محرم الحرام اُمت کی وحدت رائے کو قائم کرنے کا بہت بڑا ذریعہ بنا ، مگر ہماری گروہی عصبیت نے اس کی قدر نہ جانی۔
4۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی بد اعما لیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بڑی نا روا جسارت کرتے ہوئے اصحابِ نبی ﷺ، اور اہل بیتِ رسول ﷺکو ایک دوسرے کا حریف بنا دیا ہے حالانکہ یہ حریف نہیں ایک دوسرے کے جگری حلیف ہیں ، آلِ رسول ﷺ سے اظہار عقیدت کا مطلب اصحابِ نبی ﷺ سے گریز نہیں اور اصحابِ نبی ﷺ کا احترام آلِ نبی کے احترام کے منافی نہیں لیکن ہر چیز کے اظہار کا ایک موقع ہو تا ہے اور کسی چیز کو اس کے اصل محل اور موقع سے ہٹا دینے کو عربی میں ظلم کہتے ہیں اور ہم برابر اس ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں جس قوم کے ہاتھ میں میزانِ عدل نہ رہے قدرت اس قوم کی معاشرت کو اعتدال سے محروم کر دیتی ہے اور اس محرومی نے ہمیں ایک دوسرے کی بات سُننے اور جذ بات سمجھنے کے قابل نہیں چھوڑا ۔
5۔آ خر میں ایک بنیادی سبب کا بھی تذکرہ ہو جائے کہ مختلف مسلک اور مشرب اسلام کی منشاء کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے وجود میں آئے مگر ہم نے ان مسالک اور مکاتب کو ذریعہ نہیں اصل سمجھ لیا ہے اور درمیان سے اسلام کا جوہری رشتہ کمزور پڑ گیا ہے ، گروہی شناخت نے اسلام کے آ فاقی تعارف پر غلبہ پا لیا ہے اور ہم نے اس غلطی کو ماننے کی بجائے بڑی شخصیات کی آ ڑ میں اور بھاری بھر کم اصطلاحوں کے پردے میں اور مقدس نا موں کے دامن میں چھپا کر اس کو غلطی نہیں رہنے دیا بلکہ اسے عین اسلام اور حق سمجھ لیا ہے جس کے منفی اثرات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہرے اور زہر ناک ہوتے جا رہے ہیں ۔قومیتی ،لسانی ، صو بائی اور علاقائی عصبیتوں کے ساتھ مذہبی منافرت نے ہمارا ملی وجود خطرے میں ڈال دیا ہے اس کے لیے ہمیں اپنے طرزِ عمل پر از سرِ غور کرنا پڑے گا۔
عاشورہ محرم الحرام ایسے ایام در حقیقت ہمیں غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ اصول اور فروع کے در میان فرق کیا جائے۔ دین اور فقوں کی صحیح نوعیت سمجھی جائے۔ ملی مفاد اور گروہی مفاد کے تقدم اور تاخیر کا ادراک حاصل کیا جائے ۔اہم اور غیر اہم با توں کے درمیان حد قائم کی جائے اور ہر مسئلے کو اس کے صحیح تناظر میں رکھ کر فیصلہ کرنے اور رویہ اپنا نے کی شعوری کوشش کی جائے ۔یہ وہ مختصر سی باتیں ہیں اگر دل و دماغ انہیں قبول کر لیں تو محرم الحرام نہ صرف امن کے ساتھ گزر سکتا ہے بلکہ اُمت کے لیے امن کی بنیاد بن سکتا ہے ۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -