جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر75
رادھا کے ہونٹ متحرک ہوگئے اس نے کچھ پڑھ کر بسنتی پر پھونک دیا۔ اس کے جسم نے حرکت کی اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پہلے تو وہ حیران سی چاروں طرف دیکھتی رہی جیسے اس کی نظر رادھا پر پڑی ،اس کا رنگ فق ہوگیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ رادھا کی آنکھوں میں فتح کا نشہ ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ، دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں پر رکھے بسنتی کے سر پر کھڑی تھی ۔ جیسے ہی بسنتی کی نگاہ اس پر پڑی وہ بری طرح گڑ بڑا گئی۔
’’دو ۔۔۔دی۔۔۔دیوی جی تم؟‘‘ اس کے ہونٹ لرز کر رہ گئے۔
’’ہاں میں۔۔۔تمری سکھی‘‘ رادھا زہر خند سے بولی۔’’شما چاہتی ہوں تمرا سواگت ٹھیک طرح نہ کر سکی‘‘ وہ مسلسل طنز کے تیر برسا رہی تھی۔
’’دیوی جی! شما کر دو مجھ سے بھول ہوگئی۔ میں اس منش کو دیکھ کر سب کچھ بھول گئی تھی۔ بھگوان کے لیے مجھے شما کر دو‘‘ بسنتی نے اچانک آگے بڑھ کر رادھا کے پاؤں پکڑ لئے۔ وہ خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپ رہی تھی۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر74 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’چچ۔۔۔چچ۔۔۔چچ۔۔۔کالی داس جیسے مہان گرو کی چیلی ہو کر بھی تو مجھ سے شما مانگ رہی ہے اٹھ۔۔۔مجھ کشٹ دے۔۔۔میں نے تجھ سے تیرا پریمی چھین لیا ہے کیا تو مجھے یونہی چھوڑ دیگی؟‘‘ رادھا اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔ اس کا ایک ایک لفظ زہر میں ڈوبا ہوا تھا۔ بسنتی نے بے بسی سے مجھے دیکھا۔
’’رادھا دیوی! تجھے تیری پریمی کی سوگند مجھے شما کر دے‘‘ اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ پھر اس نے میری طرف دیکھ کر التجا کی۔
’’مہاراج! مجھے رادھا دیوی کے شراپ سے بچا لو مجھ سے بھول ہوگئی میں وچن دیتی ہوں پھر کبھی تمری اور نجرا اٹھا کر نہ دیکھوں گی۔‘‘
’’پاپن! ‘‘ رادھا غضبناک ہو کر دھاڑی۔ اس کے آواز کی گھن گرج آج بھی مجھے یاد ہے۔
’’تجھے شما کر دوں۔۔۔؟ تو نے میری بیری، کالی داس کے کہے پر میرے سنگ وشواس گھات کیا۔ جانتی ہے تیرے کارن میں نے کتنا کٹھن سمے بتایا ہے؟ تو نہیں جانتی تھی۔ رادھا کے پریمی کو چھو کر تو کتنا بڑا پاپ کر رہی ہے؟ بلا اپنے گرو کو وہ تجھے اس سمے میرے شراپ سے بچائے‘‘ اس کی غضبانک آواز آئی۔ سچ پوچھیں تو میں بھیا س وقت خوفزدہ ہوگیا تھا۔ کالی داس اور کھیدو چوہڑے کا حشر مجھے یاد تھا۔ رادھا اس وقت سخت غصے میں تھی۔ کالی داس تو اس کے ہاتھ نہ آیا تھا۔ سارا قہر اب بسنتی پر نکلنے والا تھا جو مسلسل رادھا سے گڑ گڑا کر معافیاں مانگ رہی تھی۔ اس کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ رادھا کے پاؤں پکڑے وہ منتیں کر رہی تھی۔ یک بیک رادھا کی آنکھیں سرخ انگارہ ہوگئیں۔ بسنتی جو رادھا کی طرف فریادی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی کانپ گئی۔
’’دو۔۔۔دیو۔۔۔دیوی! مجھے شما کر دے۔ دیوی! تجھے بھگوان کی سوگند اپنی داسی کو شما کر دے۔ مجھ ابھاگن پر دیا کر دیوی میں تجھ سے جیون بھکشا مانگتی ہوں۔ تیرا یہ اپکار میں جیون بھر نہ بھلا پاؤں گی سدا تیری آگیا کا پالن کروں گی۔‘‘ روتے ہوئے وہ فریاد کر رہی تھی۔
غیض و غضب میں بھری رادھا پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے چھت کی طرف دیکھا۔ اچانک چھت سے گاڑھا گاڑھا بدبو دار مادہ نکل کر بسنتی پر گرا۔ اس کی کربناک چیخ فضا کو مرتعش کرگئی۔ نالی سے نکلنے والے گارے جیسا وہ مواد جس میں سے آگ کی چنگاریاں نکل رہی تھیں نے بسنتی کو ڈھک دیا۔ اس کی کربناک چیخیں کمرے کے درو دیوار ہلا رہی تھی۔ وہ کیچڑ نما مواد میں لت پت ہاتھ پاؤں مار رہی تھی۔ خوف سے میری ٹانگیں لرزنے لگیں۔ کافی دیر گزر گئی۔ رادھا کے غیض و غضب میں کمی نہیں آئی تھی۔ وہ قہر بار نظروں سے بسنتی کودیکھ رہی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی چیخیں مدہم پڑنے لگیں۔ رادھا نے دوبارہ چھت کی طرف دیکھا اس بار چھت سے صاف شفاف پانی کسی آبشار کی طرح بسنتی کے اوپر گرنے لگا جس نے اسے اچھی طرح دھو دیا۔ لیکن یہ کیا۔۔۔کیا یہ وہی بسنتی تھی؟ میری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ گنجے سر کی کالی سیاہ عورت زمین پر پڑی تھی۔ اس کا حال دیکھ کر میں لرز گیا۔ حسین و جوان بسنتی کی جگہ ایک مکروہ صورت بڑھیا نظر آرہی تھی۔ گلاب کے پھول سے زیادہ شگفتہ چہرہ، جھریوں بھرے سیاہ چہرے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ کھال لٹک کر بدوضع ہوگئی تھی۔ سیاہ رنگت پر بڑی بڑی سفید آنکھیں عجیب خوفناک منظر پیش کر رہی تھیں۔ ہونٹ غائب ہونے سے دانت جھانکنے لگے تھے۔ ناک کی صرف ہڈی رہ گئی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی ناک کاٹ دی گئی ہو۔ لباس جل کر راکھ ہو چکا تھا۔ ایک نہایت بدوٖضع اور بدصورت بوڑھی عورت اس کی جگہ لے چکی تھی۔ میں زیادہ دیر تک یہ خوفناک منظر نہ دیکھ سکا اور منہ پھیر لیا۔
’’چمارو‘‘ رادھا نے کسی نادیدہ وجود کو پکارا۔
’’جی دیوی جی!‘‘ ایک کھرکھراتی ہوئی مردانہ آواز آئی۔
’’بسنتی کو اسی شریر میں رہنا ہے۔ دھیان رہے یہ کلٹا اس شریر کو چھوڑنے نہ پائے۔‘‘ رادھا نے نفرت بھری نظر بسنتی پر ڈال کر کسی نادیدہ وجود کو حکم دیا۔
’’اوش تمری آگیا کا پالن ہوگا دیوی!‘‘ وہی آواز دوبارہ آئی۔ بسنتی کے منہ سے دبی دبی کراہیں نکل رہی تھیں۔
’’اپنی سندرتا پر بڑا مان تھا نا تجھے۔۔۔؟ اسی کارن تو نے میرے پریمی کی اور دیکھا تھا۔ میں نے تیری اس سندرتاکو رہنے ہی نہ دیا۔ اب دیکھتی ہوں کون تجھ سے پریم کرتاہے؟‘‘ رادھا زہریلے لہجے میں بولی۔
’’جا اپنے گرو سے کہہ وہ تیری سندرتا لوٹا دے جس کی سہائتا کرتے سمے تو رادھا کی شکتی کو بھول گئی تھی۔‘‘ بسنتی اپنے بدوضع وجود کو گھسیٹتی باہر نکل گئی۔ میرا دل زور زورسے دھڑک رہا تھا۔ گھبرائی ہوئی نظروں سے رادھا کی طرف دیکھا جس کا چہرہ آہستہ آہستہ معمول پر آرہا تھا۔ تھوڑی دیر وہ آنکھیں بند کیے لمبے لمبے سانس لیتی رہی پھر تھکے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’پریم۔۔۔!چلو چلیں‘‘ میں کسی معمول کی طرح اس کے پیچھے چل پڑا ،سچ پوچھیں تو میں ڈر گیا تھا۔ کیا پتا اس جن زادی کا موڈ بدل جاتا اور میں مارا جاتا۔ باہر نکل کر ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔ رادھا نے چپ سادھ رکھی تھی۔ میں بھی اس کے موڈ کے پیش نظر خاموشی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔
’’پریم! دوشی تم بھی تھے پرنتو میرا من نہیں کرتا کہ میں تمہیں کوئی کشٹ دوں، کیول اتنا یاد رکھنا رادھا تم سے ادھیک پریم کرتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
میں سکول کے پاس پہنچ چکاتھا۔ چھٹی ہونے میں تھوڑا وقت باقی تھا میں گاڑی میں بیٹھا رہا۔ رادھا کی بات کا مطلب میں اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔ اس نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر مجھے معاف کر دیا تھا۔ ایک بار پھر میں انہی چکروں میں پھنسنے جا رہا تھاجن سے پیچھا چھڑانے کا خواہش مند تھا۔ اگر تھوڑی دیر اور پرتاب نامی نوجوان نہ آتا تو شایدمیں ایک بار پھر پھسل جاتا۔ کیا میں ساری زندگی ان پراسرار قوتوں کے حامل انسانوں اور جنات میں گھرا رہوں گا؟ میرے ذہن میں خیالات کا ہجوم تھا۔ محمد شریف نے مجبوری ظاہر کی تھی کہ اب وہ میری مدد نہیں کر سکتا۔ میرا ارادہ تھا کہ صائمہ سے اس سلسلے میں مشورہ کروں۔ لیکن اس کے لیے اسے سب کچھ بتانا پڑتا جبکہ میں ایسا نہیں چاہتا تھا۔ وہ کسی طور پر گوارا نہ کرتی کہ میرا تعلق کسی اور سے ہو۔ بڑی مشکل سے اس کا ذہن صاف ہوا تھا۔ رادھا کے سلسلے میں وہ بہت دکھی ہوگئی تھی۔ میں نہیں چاہتا تھا دوبارہ وہ پریشان ہو۔
’’کیا کیا جائے؟‘‘ رادھا کے ساتھ تعلقات بحال رکھنا میری مجبوری سہی لیکن میرا دل ان خرافات سے اچاٹ ہو چاک تھا۔ شیطان کے جال بہت حسین ہوتے ہیں۔ انسان کو اپنے شکنجے میں جکڑنے کی خاطر وہ ہر داؤ آزماتا ہے۔ بار بار رادھا کے سامنے آنے سے میرا ایمان متزلزل ہوسکتا تھا۔ میں چاہتا تھا وہ اپنی دنیا میں لوٹ جائے لیکن وہ کسی طور اس بات پر آمادہ نہ تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اس کی بات ماننے پر مجبور تھا۔ بچوں کو سکول سے لے کرگھر پہنچا۔
ہارن دیا تو گیٹ فوراً ہی کھل گیا۔ مجھے حیرت تو ہوئی پھر میں نے سوچا چونکہ چھٹی کا وقت تھا اسلئے صائمہ گیٹ کے پاس ہی انتظار کررہی ہوگی۔ میں گاڑی سے نیچے اترا تو آنکھوں میں حیرت لیے وہ میرے پاس آگئی۔
’’آپ ملتان نہیں گئے؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’ملتان۔۔۔یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ اب حیران ہونے کی باری میری تھی‘‘ تم سے کس نے کہا میں نے ملتان جانا ہے؟‘‘
’’ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ ہی نے تو کہا تھا‘‘ اس کے چہرے پر الجھن تھی۔
’’ابھی کب؟ میں تو صبح سے کہیں گیا ہوا تھاآج بینک سے بھی چھٹی لی تھی۔‘‘
’’وہ تو آپ نے صبح بتایا تھا جب آپ بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس آئے تو کہا نہیں تھا کہ میں کسی کام کے سلسلے میں ملتان جا رہا ہوں‘‘ وہ بے یقینی سے پوچھ رہی تھی۔ میں نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا کہیں وہ مذاق تونہیں کر رہی لیکن وہ بالکل سنجیدہ تھی۔
’’فاروق! کیا بات ہے ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ہم ابھی تک گیراج میں ہی کھڑے تھے بات میری سمجھ سے باہر تھی میں بچوں کو سکول چھوڑ کر رادھا کے ساتھ چلا گیا تھا۔ ابھی تو میرا ذہن بسنتی کا حشر دیکھ کر الجھا ہوا تھا کہ یہ نئی الجھن سامنے آگئی۔
’’اچھا چھوڑیں اندر آئیں‘‘ صائمہ کہتی ہوئی اندر چلی گئی۔ لیکن اس کے چہرے پر فکر کے سائے منڈلا رہے تھے۔ میں خود بھی حیران تھا یہ کیا معاملہ ہے؟ کھانا کھانے کے بعد بچے سو گئے تو میں نے صائمہ کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔ ہم دونوں لاؤنج میں آکر بیٹھ گئے۔
’’اب بتاؤ کیا کہہ رہی تھیں؟‘‘ میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’جب آپ بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس آئے تو۔۔۔تو آ۔۔۔آپ۔‘‘
’’بتاتی کیوں نہیں میں نے کیا کہا تھا؟‘‘ خون کی گردش میری رگوں میں تیز ہوگئی چہرہ تپ گیا۔ وہ کون تھا جو میری شکل بناکر صائمہ کے ساتھ۔۔۔؟ وہ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر گھبرا گئی۔
’’فاروق کیا ہوا؟ آپ کیوں پریشان ہوگئے؟‘‘
’’پہلے یہ بتاؤ تم کیا کہہ رہی تھیں؟‘‘ میں نے جھنجھلا گیا۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا پھر کہنے لگی۔
’’آپ مجھے حق زوجیت ادا کرنے کے لیے کہہ رہے تھے جس پرمیں نے کہا میں مخصوص ایام میں ہوں لیکن شاید آپ بہت بے تاب تھے کہنے کوئی بات نہیں۔ مجھے حیرت تو بہت ہوئی لیکن میں نے آپ کو سمجھایا کہ یہ بہت بڑا گناہ ہوگا۔ اسوقت بھی آپ اسی طرح جھنجھلا گئے تھے اور بار بار مجھ سے اصرار کر رہے تھے کہ میں اپنی خوشی سے اجازت دے دوں لیکن۔۔۔‘‘
’’یہ بتاؤ میں نے تمہیں چھوا تھا میرا مطلب ہے میں نے تمہیں ہاتھ لگایا تھا؟‘‘ میں نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا۔
’’نہیں اسی بات پر تو مجھے حیرت ہوئی تھی کہ جب میں آپ کے پاس آکر بیٹھنے لگی تو آپ کہنے لگے نہیں ابھی مجھے مت چھونا جب تک تم منہ سے یہ نہ کہہ دو کہ میں تمہیں اجازت دیتی ہوں‘‘ اس کا چہرہ گلنار ہوگیا۔ اطمینان بھری ایک سانس میرے سینے سے خارج ہوگئی۔
’’فاروق! یہ۔۔۔یہ سب کیا ہے؟ آپ کہہ رہے ہیں آپ اس کے بعد واپس گھر آئے ہی نہیں تو پھر۔۔۔؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
’’دراصل بیماری کی وجہ سے میری یادداشت کچھ کمزور ہوگئی ہے مجھے کچھ یاد نہیں رہتا ۔وہ مطمئن تو نہ ہوئی ہاں اس سلسلے میں مزید کچھ نہ پوچھا۔ میں بری طرح الجھ گیا تھا۔ میں تو صبح سے رادھا کے ساتھ تھا پھر وہ کون تھا جو میری شکل میں صائمہ کے پاس آیا۔۔۔(جاری ہے)
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر76 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں