سیلابی صورتحال:قدرتی آفت سے نمٹنے میں غفلت کیوں؟

سیلابی صورتحال:قدرتی آفت سے نمٹنے میں غفلت کیوں؟
سیلابی صورتحال:قدرتی آفت سے نمٹنے میں غفلت کیوں؟
سورس: Twitter

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارا ملک اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہو چکا ہے۔زندگی کی سینکڑوں شمعیں بجھ چکی ہیں ،ہزاروں جانور بے بسی کی نیند سو چکے ،کئی ہیکٹر زرعی فصلیں ملیا میٹ ہو چکی ہیں۔لاکھوں لوگ بے سروسامانی کی حالت میں دربدر ہیں۔لوگ پانی کے بے رحم ریلوں کے بیچ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔کئی معصوم ننھے پھول مرجھا چکے ہیں۔ان کی معصوم روحیں بار بار یہ سوال کر رہی ہیں کہ ’ہمیں کس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے‘۔ان کے بچ جانے والے بے بس والدین یہ التجا کر رہے ہیں کہ” ایسی بے بسی سے سب کو بچانایارب“۔اپنے مال،گھر حتیٰ کہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو گنوانے والوں کے لئے تو قیامت برپا ہو چکی ہے۔
 پانی کے بے جا،تیز یا بے رحم بہاؤ کو  سیلاب کہا جا سکتا ہے۔’گلوبل وارمنگ‘کی وجہ سے حائل موسمیاتی تبدیلیوں سے دنیا بھر میں مختلف علاقوں کو سیلاب جیسی قدرتی آفات کا سامنا ہے۔آئندہ دنوں شائد یہ مسئلہ شدت اختیار کر جائے۔ پاکستان سمیت اس کے ہمسایہ ممالک چین،بھارت،افغانستان،بنگلہ دیش اور دیگر ممالک  کو بھی گزشتہ برسوں اس صورتحال کا سامنا رہا ہے۔شمالی امریکہ اور یورپ کے مختلف خطے بھی سیلابی صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں۔دنیا بھر میں ایسی صورتحال میں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا ہی سرکار کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
 اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ زمانہ قدیم میں بھی سیلابی صورتحال سے لوگ متاثر ہوتے رہے ہیں۔ زمانہ قدیم سے لے کر اب تک پانی کا مقابلہ انسانوں کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ہاں البتہ انسانی دماغ نے اس کے نقصان کو کم کرنے کیلئے نت نئے طریقے ضرور دریافت کئے۔انسانوں نے پانی کے حوض بنائے جسے نہ صرف سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی بلکہ پانی کی قلت کو کسی حد تک کم کیا گیا۔زمانہ قدیم میں بہت سے قدرتی حوض اور ندی نالے موجود تھے جو پانی کے بہاؤ کے حساب سے کام کرتے تھے۔ بڑھتی آبادی کے ساتھ انسانوں کی ضروریات بھی بڑھتی گئیں،انسانوں نے پانی کو استعمال کرنے اور اس کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لئے نہریں،ندی نالے، بیراج اور ڈیم بنائے۔دنیا بھر میں پانی کی تباہ کاریوں سے بچنے کا رہنما اصول یہی ہے کہ اسے مختلف برانچوں میں تقسیم کر کے اس کے بہاؤ کو بھی تقسیم کر دیا جائے۔اس سے پانی دور دراز علاقوں تک پہنچ جاتا ہے اور پانی کا بہاؤ بھی قابل کنٹرول ہو جاتا ہے۔پاکستان میں انیسویں صدی میں انگریزوں کا بنایا ہوابڑا نہری نظام موجود ہے۔پاکستان میں متعدد دریا،ڈیم،بند، بیراج،ندی نالے اور رابطہ نہریں بھی موجود ہیں جو  زرعی بقاء کی ضمانت ہیں،یہ سیلاب کی شدت کم کرنے میں بھی معاون ہیں۔
چونکہ ملک کا بیشتر حصہ سیلاب کی لپیٹ میں ہےاور مختلف فورمز پر مطالبات اٹھ رہے ہیں کہ،’ڈیم بناؤ سیلاب سے بچاؤ‘ وغیرہ۔درحقیقت! ہمارا ملک معاشی لحاظ سے کمزور ہےایسے میں بڑے ڈیم بنانا اور ان کے پانی کے اخراج کے لئے نئے چینلز بنانا اس کا مکمل مفیدڈھانچہ تیار کرنا مشکل اور مہنگا ترین کام ہے۔ڈیم کی ضرورت پانی اور بجلی کی قلت کے مسائل کی بدولت بھی درپیش ہے جس میں آنے والے دنوں میں بتدریج اضافہ ہوگا۔
چند لمحوں کیلئے اس ضرورت کو بھول جائیے اور سوچئے کہ سیلاب کی صورتحال میں ہم اور ہماری سرکار ان ممکنات کو پورا کر سکے ہیں،جو ہمارے اختیار میں تھے۔میرے خیال میں ہر باشعور اس کا جواب نفی میں دے گا۔کیا ہمارے کسی ادارے نے بروقت سیلاب زدہ علاقوں میں اطلاعات پہنچائیں کہ یہاں خطرہ ہے؟
کیا ہماری انتظامیہ نے بروقت متاثرہ علاقوں کو خالی کروایا؟ کیا لوگوں کو بروقت محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا؟کیا لوگوں کو انتظامیہ نے ہجرت میں معاونت دی؟کیا ہمارے متعلقہ ادارے پہلے سے اس سیلابی صورتحال سے با خبر تھے؟اگر خبر تھی تو پیشگی انتظامات کیا تھے؟کیا ایسے علاقوں کو وقت سے پہلے خالی کروایا گیا تھا، جہاں انتہائی درجے کے سیلاب کے خطرات موجود تھے؟کیا موسم برسات سے پہلے ندی نالوں کی مرمت مکمل تھی؟ کیابند مضبوط تھے؟کیا ہر سال برسات سے پہلے ندی نالوں کی صفائی کی جاتی ہے؟کیا سیلاب سے بہہ کر آنے والی ریت اور مٹی سے نالوں کا بہاؤ متاثر نہیں ہوتا؟کیا سرکار کے یہ محکمہ جات اور ان کا عملہ و املاک صرف وزیروں، مشیروں، ایم این ایز، اور ایم پی ایز کی زمینوں کی حفاظت پر معمور ہیں؟کیا سرکار اور سرکاری عہدیدار اور سیاستدان صرف فوٹو سیشن کے لئے ہیں؟سیلاب میں پھنسے لوگوں کو بروقت ریسکیو کرنا کس کا کام ہے؟ ہیلی کاپٹر یا ہوائی جہاز پر بیٹھ کر فضائی معائنہ ضروری ہے یا ان کے استعمال سے لوگوں کو ریسکیو کرنا؟ایسے علاقوں میں جہاں ہر سال سیلاب کے خدشات موجود ہوتے ہیں،وہاں تعمیرات کو روکنا کس کا کام ہے؟پلوں کی تعمیر اور حفاظت و مرمت کس کا کام ہے؟کون ان کا جواب دے گا۔؟ ہے کوئی لیڈر و سربراہ جو ان سوالوں کا جواب دے؟ جو اپنی اور اداروں کی غفلت کا بھی حساب دے؟کیا سرکاری ادارے، سرکاری عہدیدار محض نمائشی ہیں؟بہت سے سرکاری دوستوں سے معذرت کے ساتھ، کیا ہم اپنے رزق کو حلال کر رہے ہیں؟ایسے مزید کئی سوالات ہیں جو ہر باشعور شہری کے ذہن میں جنم لے رہے ہیں۔
ہم کئی جانیں اور دیگر نقصانات اپنے اختیارات کا درست استعمال کر کے بچا سکتے تھے،ہماری غفلت نے قدرتی آفت کو بڑا سانحہ بنا دیا ہے۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ،صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ،محکمہ موسمیات،ضلعی انتظامیہ،ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ، این جی اوزاور دیگر مقامی انتظامیہ و متعلقہ ادارے اپنی کارکردگی کو سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر ظاہر کرنے کی بجائےحقیقی معنوں میں کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔
قدرتی آفات  آتی ہیں مگر باشعور قومیں ایسے موقعوں پر دکھاوے کو ترک کر کے متاثرین کی بروقت مدد و بحالی کے لئے کام کرتی ہیں۔لیکن افسوس!ہم اور ہمارے ادارے تب بیدار ہوتے ہیں، جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔کون بے بس لوگوں کے جان و مال کا ازالہ کرے گا؟آخر کون؟

.

تعارف: ’لکھاری مکینکل انجینئر ہیں اور سال2019میں توانائی کی درجہ بندی میں آگاہی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔سائنسی،سماجی و سیاسی عنوانات پر متعدد مضامین لکھ چکے ہیں‘۔

.

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطۂ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -