پراپرٹی ٹیکس نادہندگان اور انسانی ہمدردی
جس معاشرے میں کمزور طبقے ،پسے ہوئے طبقے کو انسانی ہمدردی کے تقاضوں کے خلاف مشکلات کا سامنا ہو اور وہ مسائل سے دوچار ہوں تو پھر ایسے معاشرے میں انصاف کے عدم توازن کی وجہ سے بغاوت اور بگاڑ کے اثرات دن بدن نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں پھر وہاں لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں،لوگوں کے احتجاج اور مسائل کے لیے اٹھی آواز آخر شدت اختیار کر کے سب کچھ بہا کر لے جاتی ہے اس لیے دانشمندی یہی ہے کہ سب سے پہلے کوئی بھی حکومت کھوکھلے نعروں یا لاروں کی بجائے کمزور ،مظلوم اور دھتکارے ہویت طبقے کی داد رسی کو اولین ترجیح دے ،انہیں ریلیف دے تاکہ وہ سکون سے حکومت کر سکیں اور ان کے اقتدار کا دورانیہ طویل ہو۔
انسانوں کی اکثریت چاہے وہ کسی بھی پلیٹ فارم سے خدمات سر انجام دے رہی ہو مقصد کے حصول کے بعد بے نقاب ہو جاتی ہے اور جن لوگوں کی بدولت وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو پاتے ہیں انہی کو کامیابی کے بعد فراموش کر دیتے ہیں نتیجتًا پھر وہی ہوتا ہے جسکے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھیکمزور اور مظلوم لوگوں کی آہیں اور سسکیاں بھی ایک زندہ حقیقت ہیں ۔جو سب کچھ بہا کر لے جاتی ہیں اس لیے عقل و دانشمندی کو بروئے کار لاکر حکمران ہر ادارے اور میدان میں خصوصی اہمیت دیتے ہوئے ان سے نرم خوبی اور اخلاقی تقاضوں کے مطابق سکون کر لے۔
آج کل (پراپرٹی) ٹیکس نادہندگان کے خلاف کافی سخت رویے روا رکھے جا رہے ہیں ۔جن میں بیوہ اور بے سہارا خواتین جن کے ذرائع آمدن کی بھی نہیں سنی جا رہی مجھے کئی لوگوں نے آکر بتایا جن میں بیوہ اور جن کا کمانے والا کوئی نہیں ان خواتین کے مطابق جیسا کہ گزشتہ حکومت میں بیوہ سے سلوک روا رکھا جاتا تھا اس کے برعکس آج صورتحال مختلف ہے۔
ہر کسی کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے ،لیکن بیوہ اور جن کے کمانے والا کوئی نہیں ان کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کی ضرورت ہے،بلکہ ان کا ٹیکس معاف کر دیا جائے یہی انصاف کا تقاضہ بھی ہے ۔خبر ہے کہ محکمہ ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹیکس کنٹرول پنجاب نے پراپرٹی نادہندگان کے خلاف شکنجہ کس لیا ہے اور ٹیکس وصولی کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں جس کے تحت پراپرٹی ٹیکس ادا نہ کرنے والوں جائیدادیں قرق ،سیل اور نیلام کرنے کے لیے کمپیوٹرائزڈفہرست تیار کر لی گئی ہے۔
حکومت کا فیصلہ درست لیکن اس سلسلے میں کمزور طبقہ جس میں بیوہ اور مستحق حضرات جو کسی وجہ سے پراپرٹی ٹیکس ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ان سے نرم رویئے سے انسانی ہمدردی کے تحت درگزر کرنے کو ترجیح دی جائے جس کا سبق ہمارا پیارا مذہب اسلام بھی ہمیں دیتا ہے اور اگر ہمارے سامنے مدینہ کی ریاست رول ماڈل ہے تو بھر اس جانب توجہ دینا لازمی امر ہے۔جو ایک اسلامی معاشرے کا سب سے اولین اور اہم تقاضہ بھی ہے جس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے تا کہ کمزور طبقے کو کچھ تو ریلیف ملے جس کے وہ حقدار اور متمنی ہیں ہمارا قول وفعل اور عمل ایک ہو گا تو ہم پاکستان کی خدمت کا دعوی کر سکیں گے!!!۔