بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 58

بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 58
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 58

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

غوری خاندان کے مختصر حالات
پہلے محمد سوری حاکم غورکا ذکر آچکا ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے اس کے خلاف لشکر کشی کیا تھا اور بالآخر سخت معرکے کے بعد گرفتار ومقتول ہوا تھا۔ اس محمد سوری کا خاندان عرصہ دراز سے غور کے پہاڑی علاقے میں برسر حکومت چلا آتا تھا۔ اس کا مورث اعلیٰ شنسب بن حریق جو علاقہ غور کا رئیس اور نسبا وہ آرمینہ کے بادشاہ سہاک کی نسل سے اور شامبات کے جلاوطن اسرائیلی خاندان سے تھا۔ شنسب اوائل اسلام میں مسلمان ہوا تھا۔ مورخین کی زبانی اس کی اولاد فاغنہ شنسبی کہلائی لیکن وہ عوام میں زیادہ تر خاندان غوری سے مشہور ہے۔
محمد سوری مذکور اسی شنسب بن حریق کی اولاد میں تھا۔ عباسیوں اور علویوں نے مل کر جب بنی امیہ کے خلاف سازشیں اور کوششیں شروع کیں تو علاقہ غور کا یہ خاندان جو اس علاقے میں حکومت و سرداری بھی رکھتا تھا۔ ابو مسلم خراسانی کا شریک کار بن گیا۔ خلافت عباسیہ کے قائم ہو جانے پر اس خاندان کی عزت افزائی کی گئی اور اس کو علاقہ غور کی سند حکومت خلیفہ کی طرف سے مل گئی۔

بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 57پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سلطان محمود غزنوی نے ناقابل تسخیر پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے محمد سوری کے بعد اس کے بیٹے ابوعلی کو غور کا حاکم تسلیم کیا۔ غزنی سے تعلقات استوار ہو کر معمول پر آئے۔ ابوعلی کے بعد اس کا بھائی شیش غور کا امیر ہوا۔ شیش کے بعد اس کا بیٹا عباس امیر غور ہوا۔ عباس کے بعد اس کا بیٹا امیر محداور امیر محمد کے بعد اس کا بیٹا قطب الدین حسن اور اس کے بعد اس کا بیٹا عزالدین حسین غور کا امیر مقرر ہوا۔ یہ سب کے سب اپنے مورث اعلیٰ محمد سوری کی تقلید میں رہے مگر سلاطین غزنی کے مطیع رہے۔
ملک عزالدین حسین جس زمانے میں غور کے علاقے پر حکومت کرتا تھا۔ اس زمانے میں غزنی کی سلطنت سلطان ابراہیم غزنوی کی وفات کے بعد بہت کمزور ہو چکی تھی۔ ملک عزالدین حسین نے سلطان سنجر سلجوقی سے مراسم پیدا کرکے سلطنت غزنی کی اطاعت سے عملی طور پرکامل آزادی حاصل کر لی تھی۔ غزنی کے سلطان مسعود بن ابراہیم اور اسکے بیٹے ارسلان نے بھی چشم پوشی اور بے التفاتی سے کام لے کر عزالدین حسین کو آزادی کو تسلیم اور گوارا کر لیا تھا۔
عزالدین حسین جب فوت ہوا تو اس کے سات بیٹے تھے جو سب کے سب جوان اور مردان کار تھے۔ ان کے نام یہ ہیں فخر الدین مسعود، قطب الدین محمد، سیف الدین سوری، بہاؤ الدین سام، علاؤ الدین جہان سوز، شہاب الدین سوری، شجاع الدین علی، باپ کی وفات کے بعد بالاتفاق سیف الدین سوری، باپ کا جانشین اور غور کی ریاست کا جو عزالدین حسین کے زمانے میں بہت وسیع ہوچکی تھی ،فرمان روا مقرر ہوا۔ لیکن سیف الدین سوری نے تنہا فرماں روا بن کر باقی بھائیوں کو حکومت و فرمان روائی کے لطف سے محروم رکھنا گوارا نہ کرکے غور ریاست کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرکے ہر ایک بھائی کو ایک ایک ریاست کا خود مختار فرماں روا بنا دیا۔ اپنے پاس بھی بہ حصہ مساوی ایک چھوٹی سی ریاست رکھی۔ اتفاق کی بات قطب الدین محمد کی باقی بھائیوں سے ان بن اور ناچاقی ہوگئی اور اس آپس کی مخالفت نے یہاں تک نوبت پہنچائی کہ قطب الدین محمد خفا ہو کر اپنی ریاست چھوڑ کر غزنی چلا آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ غزنی میں بہرام شاہ فرمان روا تھا۔ بہرام شاہ قطب الدین کے ساتھ بہت خاطر اور عزت سے پیش آیا۔ چند روزکے بعد حاسدوں اور فتنہ پسند ہندوؤں نے بہرام شاہ سے قطب الدین کی شکایت کی کہ وہ آپ کو قتل اور غزنی کے تخت پر قبضہ کرنے کی سازش اور کوشش کررہا ہے۔ بہرام شاہ نے قطب الدین کو قتل کرا دیا اور وہ غزنی میں مدفون ہوا۔
قطب الدین کے حادثہ کے سن کر سیف الدین محمد سوری نے فوج لے کر اور اپنی ریاست اپنے بھائی بہاؤ الدین سام کی نگرانی میں چھوڑ کر غزنی پر انتقاماً چڑائی کی۔ بہرام شاہ غزنوی نے مقابلہ کرکے شکست کھائی اور ہند کی طرف چلا آیا۔ سیف الدین محمد سوری نے غزنی پر قبضہ کرکے تخت سلطنت پر جلوس اور اپنے نام کے ساتھ سلطان کے لقب کا اضافہ کیا۔خاندان غوری میں سیف الدین سب سے پہلے سلطان ہوا۔ سیف الدی نے غزنی میں نہایت عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کی۔ جب موسم سرما آیا اور برف باری سے غور اور غزنی کے درمیان آمد و رفت کا راستہ بند ہوگیا تو بہرام شاہ نے ہندوؤں کی فوج اور ہندو ماتحت راجاؤں اور ٹھاکروں کو ہمراہ لے کر غزنی پر حملہ کیا۔ سیف الدین مقابلہ کے لئے غزنی سے باہر نکلا۔ اہل غزنی جو سیف الدین کی فوج میں شامل تھے۔ میدان جنگ میں پہنچتے ہی بہرام شاہ سے جا ملے اور سیف الدین بہ آسانی گرفتار کرلیا گیا۔ بہرام شاہ نے سیف الدین سوری کو نہایت ذلت کے ساتھ ایک مریل بیل کے اوپر سوار کرا کے شہرمیں تشہیر کرایا اور پھر قتل کروا دیا۔
سیف الدین سوری کے وزیر مجدالدین موسوی کو بھی اسی ذلت کے ساتھ قتل کیا گیا۔ یہ حال سن کربہاؤ الدین سام نے غور کی ریاست اور تمام علاقہ اپنے چھوٹے بھائی علاؤ الدین حسین کے سپرد کیا اور خود فوج لے کر اپنے دونوں مقتول بھائیوں کے خون کا بدلہ لیے کے لیے غزنی کی جانب روانہ ہوا لیکن ابھی راستے ہی میں تھا کہ فوت ہوا۔(جاری ہے )

بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 59پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔