کیا کرتار پور سرحد کھلنے سے پاک بھارت تعلقات بھی بہتر ہوں گے؟


بھارت نے پاکستان کی تجویز پر کرتارپور سرحد کھولنے پر اتفاق کیا ہے،وزیراعظم عمران خان 28نومبر کو پاکستانی علاقے میں اس نئے کوریڈور کا سنگِ بنیاد رکھیں گے، بھارت گورداسپور سے کرتار پور سرحد تک نئی سڑک تعمیر کرے گا،جس کے ذریعے گوردوارہ کرتارپور آنے اور واپس جانے والے یاتریوں کو سہولت ہو گی۔یہ سرحد بابا گورو نانک کی550 ویں سالگرہ کی تقریب کے انعقاد سے پہلے کھول دی جائے گی، سرحد کھولنے کی تجویز اچانک اس وقت منظر عام پر آئی تھی جب پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کے سابق کرکٹر اور اس وقت انڈین پنجاب اسمبلی کے رکن نوجوت سنگھ سدھو کی موجودگی میں یہ اعلان کیا تھا،جس پر فوری اظہارِ مسرت کرتے ہوئے نوجوت نے آرمی چیف کو جپھی ڈال دی تھی تاہم بھارت کے اندر سدھو کے اس ردّعمل کو پسند نہیں کیا گیا تھا اور اُن کے خلاف طرح طرح کے فقرے کسے گئے اور میڈیا میں اُن کے خلاف منفی مہم چلائی گئی، یہاں تک بھی کہا گیا کہ وہ پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے،جس پر سدھو نے کہا تھا کہ اگر آرمی چیف میری موجودگی میں اتنی اچھی خوشی کی خبر سنائے تو اس پر ردّعمل اس کے سوا کیا ہو سکتا تھا؟
بھارت میں اس تجویز کے حوالے سے سدھو کے خلاف جو عمومی ردّعمل سامنے آیا تھا،اس کے بعد بعض حلقے یہ گمان کر رہے تھے کہ بھارت شاید تجویز کی منظوری نہ دے، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے بیانات سے تو نہیں لگتا تھا کہ تجویز آگے بڑھے گی لیکن غالباً تین ماہ کے غورو فکر کے بعد بھارتی حکومت اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ اس اقدام کے ذریعے وہ بھارت کی سکھ کمیونٹی کی ہمدردیاں حاصل کر سکتی ہے، بھارت کی جانب سے اس تجویز کی منظوری کے ساتھ ہی جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی دعوت دے دی اور اس بات پر زور دیا ہے کہ بہتر ہو گا بھارت مذاکرات کے ذریعے امن و ترقی کی راہ پر آ جائے، بھارت اگر مذاکرات کی یہ تازہ پیشکش قبول کر لیتا ہے اور فی الواقعہ مذاکرات شروع بھی ہو جاتے ہیں تو سمجھا جائے گا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحد پر آمدورفت کا ایک نیا مقام کھلنے سے تعلقات کی بہتری کی جانب پیش رفت ممکن ہو گی،لیکن اگر بھارت پہلے کی طرح مذاکرات کی یہ پیشکش بھی مسترد کر دیتا ہے تو پھر سرحد کھولنے سے محض محدود مقصد ہی حاصل ہو گا اور سکھ برادری تو خوش ہو جائے گی، لیکن یہ بڑا اقدام بھی وسیع تر تناظر میں اگر پاک بھارت تعلقات پر جمی ہوئی برف نہیں پگھلاتا تو اُن لوگوں کو مایوسی ہو گی،جنہوں نے اس ایک اقدام کے ساتھ ہی بڑی بڑی توقعات بھی وابستہ کر لی ہیں۔
ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لئے ’’اعتماد افزا اقدامات‘‘ کرنے کی ضرورت ہے ماضی میں دونوں حکومتیں اپنے تئیں ایسے اقدامات کرتی بھی رہیں،لیکن یہ سب کچھ پہلے پارلیمینٹ پر حملے اور پھر ممبئی حملوں سے اُٹھنے والے شعلوں میں بھسم ہو گیا۔بھارتی پارلیمینٹ پر حملے کا واقعہ ہوا تو دونوں ممالک کے درمیان ہر طرح کی آمدو رفت رُک گئی تھی، جہاز، ٹرین اور بس کے ذریعے سفر ممکن نہ رہا تھا یہاں تک کہ جو لوگ ایک دوسرے مُلک میں آئے ہوئے تھے وہ بھی پھنس کر رہ گئے تھے، بھارت نے پاکستان کی سرحد پر فوجیں جمع کر دی تھیں،جس کے جواب میں پاکستان کو بھی اپنی فوجوں کو سرحد پر لانا پڑا اور طویل عرصے تک دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آمنے سامنے رہیں۔اگرچہ اس کشیدگی نے جنگ کی شکل تو اختیار نہ کی،لیکن پوزیشن اتنی نازک تھی کہ کوئی بھی چھوٹا سا واقعہ ایک بڑی جھڑپ یا باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر سکتا تھا،فوجیں واپس ہوئیں تو چند برس بعد ممبئی حملوں کا واقعہ ہو گیا،جس کا ملبہ بھارت نے پاکستان پر ڈالا اور واقعے کے ذمہ دار اجمل قصاب کو پاکستانی شہری ثابت کرنے کے لئے بہت زور لگایا،لیکن اب ایک عشرے کے بعد اس راز سے بھی پردہ ہٹ گیا ہے اور خود بھارتی ریکارڈ سے ثابت ہو گیا ہے کہ اجمل قصاب بھارتی شہری تھا، اس سلسلے میں سرکاری دستاویزات نے سارا بھانڈا پھوڑ دیا ہے اور بھارت سرکار نے اُس افسر کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کر دی ہے،جس کی وجہ سے بھارت کو اب خاصی شرمندگی اُٹھانی پڑی ہے۔
جہاں تک پاک بھارت تعلقات کی ٹرین کا سوال ہے یہ دس سال سے ممبئی سٹیشن پر رُکی ہوئی ہے، جب بھی اس کا انجن سٹارٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بھارت کا کوئی نہ کوئی انتہا پسند گروہ اس کا راستہ بند کر دیتا ہے اور ٹرین کھڑی کی کھڑی رہ جاتی ہے۔پاکستان جب بھی اس ٹرین کو دھکا لگا کر سٹارٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ لوگ ایک دم باہر نکل آتے ہیں،جو تعلقات کی بہتری نہیں چاہتے ہیں اس عرصے میں مقبوضہ کشمیر پر قیامتیں گزر گئیں اور بھارتی سیکیورٹی فورسز نے نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گولیوں سے بھونا جا رہا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کشمیری نوجوانوں کے جنازے پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر نہ اٹھائے جاتے ہوں،لیکن کشمیریوں کے سینوں میں آزادی کی شمع فروزاں کے شعلے کم نہیں کئے جا سکے۔
ایک بار پھر ریاستی گورنر نے حالات قابو کرنے کے لئے اسمبلی تحلیل کر دی ہے،لیکن کیا اس سے حالات بدلیں گے؟ جب بھی انتخاب ہوئے مودی کی مراد بر نہیں آئے گی اور بی جے پی کا ہندو وزیراعلیٰ بنانے کا خواب بکھرا ہی رہے گا۔ ان حالات میں یہ بہترین موقع ہے کہ بھارت تعلقات کی بہتری کے لئے پاکستان کے بڑھے ہوئے قدم کے جواب میں بھی آگے بڑھے اور مذاکرات کا رُکا ہوا سلسلہ بحال کرے،لیکن یہ مذاکرات بھی اگر گفتند و برخاستند تک محدود رہتے ہیں تو بھی ان سے کچھ حاصل نہ ہو گا،اصل ضرورت نتیجہ خیز مذاکرات کی ہے، اب گیند بھارت کی کورٹ میں ہے اگر جواب مثبت ہے تو بات آگے بڑھ سکے گی ورنہ کشیدہ صورتِ حال بھی جاری رہے گی اور اسے کم کرنے کی خواہشِ بدستور محض خواہش ہی رہے گی۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا کرتار پور سرحد کھلنے سے پاک بھارت تعلقات کی بہتری بھی ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب اِس لئے مشکل ہے کہ واہگہ بارڈر کے بعد کھوکھرا پار سرحد کھلنے کے باوجود اگر تعلقات میں بہتری نہیں آئی تھی تو مزید ایک سرحدی پوائنٹ کا کھلنا تعلقات میں کیا انقلاب لے آئے گا؟