کیا بیس نکاتی فارمولے پر عمل ممکن ہے؟


پنجاب کے گورنر چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کورونا سے بچاؤ کے لئے بھرپور اقدامات اور مشکل فیصلے کر رہی ہے۔ ہم نے نیک نیتی سے علماء کے ساتھ مکمل اتفاق رائے کے بعد رمضان المبارک کے حوالے سے پالیسی بنائی ہے اگر خدا نخواستہ مساجد انتظامیہ اور عوام اس پالیسی پر عمل نہیں کریں گے تو اس کے سنگین نتائج نکلیں گے اور ہزاروں افراد کورونا سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ہمارے پاس ایک لمحے کی کوتاہی کی گنجائش نہیں علماء نے جن بیس نکات پر حکومت کے ساتھ اتفاق کیا ہے اس پر انہیں عمل کرنا چاہئے تاکہ عوام کورونا سے محفوظ رہیں۔ وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ (ریٹائرڈ) نے کہا ہے کہ شق نمبر 20 میں درج ہے کہ جہاں کہیں سے بھی یہ اطلاع ملی کہ بے احتیاطی ہو رہی ہے یا ان ایس او پیز کی پیروی نہیں کی جا رہی تو پھر حکومت کو علماء کرام نے یہ حق دیا ہے کہ حکومت اس پر باقاعدہ ایکشن لے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا ہے کہ اگر مسجد سے کورونا پھیلتا ہے تو اس کی مشترکہ ذمہ داری ہم سب پر ہو گی کیونکہ اگر احتیاط نہیں کی گئی تو یہ بیماری ایک شخص تک محدود نہیں رہے گی یہ پھیلنے والی بیماری اور وبا ہے صدر مملکت اور علماء کے درمیان طے پانے والے بیس نکات پر عمل درآمد ہو پائے گا کہ نہیں لیکن میں کہتا ہوں عمل درآمد ہونا چاہئے اور لازماً ہونا چاہئے ایسا نہ ہوا تو ہم سب کی مشترکہ ناکامی ہو گی وزارتِ مذہبی امور، وزارت صحت اور وزارتِ داخلہ نے فیصلہ کیا ہے کہ میڈیا پر بھی ایک مہم چلائی جائے گی تاکہ لوگوں کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ اگر ہم نے احتیاط نہ کی تو پھر اس کو کنٹرول کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہو گی۔
اس میں شبہ نہیں کہ حکومت اور علماء کرام کے مابین جن بیس نکات پر اتفاق رائے ہوا ہے اس میں نیک نیتی بھی شامل ہے۔ لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ کیا ان نکات پر عمل ممکن بھی ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی صِدق دل سے بھی چاہے تو کیا وہ عمل کر سکتا ہے ابھی رمضان المبارک شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں۔ جن مساجد میں پنجگانہ نمازیں با جماعت پڑھی جاتی ہیں وہاں بھی وہ احتیاط ملحوظ نہیں رکھی جا رہی جو بیس نکات میں بیان کی گئی ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ فاصلہ چھ فٹ ہونا چاہئے یا تین فٹ، مفتی تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ اجلاس میں تین فٹ کی بات ہوئی تھی لیکن اکثر مساجد میں تو تین فٹ کے فاصلے پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔ ویسے بھی فرض نمازوں کی جماعت زیادہ سے زیادہ دس منٹ میں ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر نمازی سنتیں اور نوافل گھروں میں ادا کریں تو مساجد میں ان کا قیام زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ ہی ہوگا لیکن رمضان میں نماز عشاء کے بعد تراویح کی بیس رکعت میں معمول کے مطابق قرآنِ پاک کا سوا یا ڈیڑھ پارہ پڑھا جاتا ہے بیس رکعت اور تین وتر کی ادائیگی کم سے کم ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ہوتی ہے۔ نماز عشاء کا وقت بھی شامل کر لیا جائے تو بیشتر نمازیوں کا مسجد میں قیام دو گھنٹے کے لگ بھگ ہو جائے گا، دن بھر کی تمام نمازوں میں مجموعی طور پر اتنا وقت نہیں لگتا جتنا نماز عشاء اور تراویح میں لگتا ہے۔ اتنے طویل عرصے کے لئے جو لوگ مسجد میں رہیں گے اگر ان میں ایک بھی ”کیرئر“ ہوا تو وہ وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بہت سے مریضوں میں کورونا کی علامات بھی نہیں ہوتیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک بے خبر کیرئر انجانے میں بھی دوسروں کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اس لئے تمام تر احتیاط کے باوجود ان شرائط پر عمل نہیں ہو سکتا جن کا ذکر بیس نکات میں ہے۔ ان تمام شرائط کو ایک ایک کر کے پڑھتے جایئے تو اندازہ ہوگا کہ بظاہر جو کام آسان نظر آتا ہے وہ عملاً کتنا مشکل ہو گا۔ جن مساجد کے صحن نہیں ہیں اور وہ گنجان آبادیوں میں واقع ہیں وہاں سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر نمازیوں کی تعداد زیادہ ہو گی اور چھ فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہونے کے بعد بہت سے نمازیوں کو جگہ نہیں ملے گی تو کیا وہ خاموشی کے ساتھ بغیر نماز ادا کئے گھروں کو واپس چلے جائیں گے، ایسا نہیں ہوگا اور یہی وہ مرحلہ ہوگا جب چھ فٹ کے فاصلے والی ہدایت عملاً نظر انداز ہو جائے گی اور لوگ ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہو جائیں گے جو عام حالات میں معمول ہوتا ہے یہی وہ خطرناک مرحلہ ہے جب وائرس تیزی سے سفر کرے گا اور شکار کرتا چلا جائے گا۔
وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ علماء نے ایکشن کا حق حکومت کو دیا ہے لیکن کیا لاکھوں مساجد میں کسی متوقع ایکشن کے لئے پہلے سے پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی تیاری ہو گی یا اس کا کوئی اہتمام ہوگا۔ پھر اس کے اپنے مابعد اثرات بھی ہوں گے اور نیک نیتی سے کیا گیا ایک عمل باعث خرابی بن جائے گا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ حکومت اور علماء اس سارے منصوبے پر نظرثانی کریں اور اس امکان کو پیشِ نظر رکھیں کہ نمازیوں کو فاصلوں کا پابند بنانا کِس حد تک ممکن ہوگا اس لئے فرض نمازوں کی حد تک تو مساجد میں با جماعت نماز کا اہتمام کر لیا جائے لیکن نمازِ تراویح لوگوں کو گھروں میں ادا کرنے کی ترغیب دی جائے۔ اب بھی وقت ہے حکومت عملی مشکلات کو پیشِ نظر رکھ کر متبادل تجاویز پر بھی غور کر لے۔
ڈاکٹر قبلہ ایاز کا یہ فرمان اپنی جگہ کہ اگر مسجد سے وبا پھیلی تو سب ذمے دار ہوں گے لیکن بات ذمہ داریوں کے تعین کی نہیں، وبا اگر زیادہ پھیل گئی تو پھر ذمے داریوں پر نہیں وبا کے گھمبیر اثرات پر بات ہو گی عالم اسلام میں اگر مساجد بند کی گئی ہیں تو سوچ سمجھ کر ہی ایسا فیصلہ کیا گیا کیا اس عمل میں ہمارے لئے کوئی سبق نہیں یا ہم پوری دنیا کے مسلمانوں کو اپنے سے کم تر درجے کے مسلمان سمجھتے ہیں، مسلمانوں کے مرکزِ عقیدت و محبت حرمین شریفین میں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں اور وہاں کے علما ان فیصلوں میں شریک ہیں۔ انہوں نے اپنے علم کی روشنی ہی میں مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں مساجد بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہان تک کہ اس سال حج ہوتا ہوا بھی نظر نہیں آتا جو فرض عبادت ہے۔ انتظامیہ کی طاقت سے مساجد میں ”ڈسپلن“ نافذ کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ ایسی نوبت ہی نہ آنے دی جائے کہ مساجد میں نمازی اور پولیس ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑے ہوں۔ ایسی صورت میں پولیس کی نفری بھی کم پڑ جائے گی اور جو حالات پیدا ہوں گے ان میں کورونا بھی پھیلے گا اور بد نظمی و بے اطمینانی بھی، ایسا وقت آنے سے پہلے بہتر ہے سارے معاملے پر ایک بار پھر ٹھنڈے دل سے غور کر لیا جائے۔