درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 48
یہ دیکھنا بڑا مشکل ہے جب شیر اپنے شکار کا پیٹ چاک کرکے گوشت کھا رہا ہو،ناقابل فراموش منظر ہوتا ہے جو اس وقت میں دیکھ رہا تھا۔ اس کی اگلی ٹانگیں سینے تک خون اور گندگی سے آلودہ تھیں اور کھلا ہوا جبڑا خون میں لت پت تھا جس میں سے سفید سفید نکیلے دانت چمک رہے تھے۔پوری طرح تن کر اس نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا اور حملہ کرنے کی غرض سے آگے بڑھا، اب وقت ضائع کرنا فضول تھا۔ میں نے نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔فائر ہوتے ہی شیر ہولناک گرج کے ساتھ فضا میں اچھلا اور زمین پر دھم سے گرا لیکن لوٹ پوٹ کر فوراً ہی اٹھا اور جھاڑیوں میں گھس کر دھاڑنے لگا۔
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 47
میں نے دوسرا فائر کیا۔اس مرتبہ گولی اس کے گلے میں پیوست ہو گئی اور وہ گھاس میں گر کر تڑپنے لگا۔ میں اب اس کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا اور تیسری گولی چلانے کے لیے بالکل تیار۔۔۔تڑپتے ہوئے درندے نے نزع کے عالم میں بھی اٹھ کر مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کی مگر تیسری گولی نے اس کا بھیجا پاش پاش کر دیا اور وہ چند لمحے بعد ساکت ہو گیا۔میں نے دیکھا کہ گوپال کی لاش کے بچے کھچے حصے اور کھوپڑی پڑی ہوئی ہے۔جلدی سے یہ اجزا جمع کیے اور انہیں گھاس سے ڈھانپ دیا کہ بلی کی نظر ان پر نہ پڑنے پائے۔تھوڑی دیر بعد معصوم بچہ میرے پاس کھڑا بڑی حیرت اور خوشی کی ملی جلی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ یکایک اس نے پوچھا:
’’شیر کیا کھارہا تھا؟مجھے تو یہاں کچھ نظر نہیں آتا۔‘‘
’’کچھ فاصلے پر اس نے تیسرا گارا کیا تھا، وہی کھارہا تھا۔۔۔آؤ اب گاؤں چلیں۔‘‘
میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور منہ پھیر کر اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگا۔
***
وگوماتا کا قاتل
آٰندھرا پردیش میں گنتا کل جنکشن سے جنوب مشرق کی طرف ٹرین پر سفر کریں تو راستے میں ایک بڑا قصبہ نند یال آتا ہے۔اس سے آگے کوہتانی علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔یہ گھنے جنگلات اور بے شمار ندی نالوں سے اٹا پڑا ہے۔یہاں سبوپرم اور چلما کے ریلوے اسٹیشن ہیں۔راستے میں ٹرین دو سرنگوں سے گزرتی ہے۔ایک کی لمبائی کم ہے،دوسری خاصی طویل ہے۔چند میل مزید سفر کرنے کے بعد ریلوے لائن کے دہنی جانب ایک چوڑی ندی دکھائی دیتی ہے۔ندی کے ساتھ ہی وگوماتا ریلوے اسٹیشن کا بیرونی سگنل ہے۔یہاں پہاڑ اور جنگل ختم ہو جاتے ہیں اور مزروعہ کھیتوں کی ابتدا ہوتی ہے۔
’’قاتل‘‘ کا آپریشنل علاقہ اس اسٹیشن سے لے کر طویل سرنگ تک پھیلا ہوا تھا۔ ندی اوربیرونی سگنل کے اردگرد تو اس کی توجہ خاص طور پر مرکوز تھی۔
چلما اور وگوماتا کے درمیانی جنگل سے مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی۔اس لیے نہیں کہ یہاں شکار کی بہتات ہے بلکہ اس کی تنہائیوں میں ذہنی سکون کی دولت فراواں میسر آتی ہے۔چنچو قبائل کی دوستی اور محبت بھی مجھے کشاں کشاں ادھر لے آتی ہے جو جنگل کے مشرقی کنارے پر آباد ہیں۔میرا تجربہ ہے کہ آندھرا پردیش کا عام دیہاتی بھی میسور کے ان شہریوں سے زیادہ با اخلاق ہے جن کے درمیان میرا مستقل بسیرا ہے۔
ایک دن میں ٹرین کے ذریعے وگوماتا پہنچ گیا۔راستے میں طویل سرنگ سے بھی گزرنے کا اتفاق ہوا۔ اسے دیکھنے کی آرزو برسوں سے دل میں مچل رہی تھی۔ اسٹیشن پر دوقلیوں نے میرا مختصر سا سامان اٹھایا۔رائفل خود کندھے سے لٹکائی اور محکمہ جنگلات کے قریبی ریسٹ ہاؤس کا رخ کیا۔
میرے دیرینہ دوست علیم خان چوکیدار نے بنگلے کے دروازے پر استقبال کیا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔یورپی طرز کے کمروں میں میرا سامان رکھوا دیا گیا اور پھر اس نے اپنی دونوں بیویوں کو حکم دیا کہ ہینڈ پمپ سے غسل خانے کا حوض بھر دیں تاکہ میں نہا دھوکر تازہ دم ہو سکوں۔اس اثنا میں علیم خان نے اپنی گھویلو مشکلات کا ذکر چھیڑ دیا۔کہنے لگا:
’’میر ایک بہن ہے،اس کا خاوند تپ دق میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا۔اب وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ میرے ہاں اٹھ آئی ہے۔یہاں حال یہ ہے کہ میری پہلی بیوی سے تین بچے اور دوسری سے دو۔بہن اور اس کے دو بچوں کا مزید بار میرے ناتواں کندھے کیسے اٹھائیں گے؟‘‘
میں نے مشورہ دیا:’’اگر تمہاری بہن جوان ہے تو کسی دوسری جگہ موزوں رشتہ تلاش کرلو۔‘‘پھر موضوع سخن بدلتے ہوئے پوچھا:’’کیا یہاں شیر یا چیتے پائے جاتے ہیں؟‘‘
’’ہاں،ہاں۔‘‘علیم نے فوراً جواب دیا۔’’کوئی دس روز پہلے ایک سرکاری افسر نے رات کو شیر مارا تھا۔اس کے علاوہ ادھر ایک چیتا بھی خاصا تکلیف دہ ثابت ہو رہا ہے۔علی الصبح اس کے پاؤں کے نشانات ریسٹ ہاؤس کے اردگرد دیکھنے میں آتے ہیں۔تین ہفتے قبل وہ میرا کتا اٹھا کر لے گیا لیکن ایک اور کتا جو میری بہن اپنے ساتھ لائی تھی، جھٹ درندے پر ٹو پڑا، تاہم چیتا اپنا شکار لے جانے میں کامیاب رہا۔یہ منظر ہم سب نے چاندنی رات میں بالکل صاف دیکھا تھا۔ ڈر ہے کہ چیتا انتقام کی آگ سرد کرنے کے لیے دوبارہ ادھر ضرور آئے گا۔پھر یہاں کتے کے علاوہ تین عورتیں اور ساتھ بچے بھی تو ہیں جو اس کی درندگی کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘‘
میں ابھی کوئی جواب نہ دے پایا تھا کہ فارسٹ رینج افسر بائیسکل پر ہانپتا کانپتا بنگلے میں داخل ہوا۔اس نے بتایا کہ آج رات ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر یہاں قیام کرے گا۔لہٰذا بنگلہ بالکل خالی ہونا چاہیے اور اگر میں بھی ٹھہرنا چاہوں تو حکام بالا سے باضابطہ اجازت حاصل کر لوں۔
عجب صورت حال کا سامنا تھا۔نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔اجازت طلب کرتا تو کس سے؟میں کئی اور مقامات پر بھی اس قسم کی مشکل سے دو چار ہو چکا تھا اور اس جنجھٹ کا بہترین حل مجھے یہی دکھائی دیا کہ جہاں شکار کے لیے جانا ہو،وہاں اپنی زمین خریدلی جائے تاکہ کیمپ لگانے میں آسانی رہے اور کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے۔چونکہ یہاں پہلی بار آنے کا اتفاق ہوا تھا، اس لیے زمین ابھی تک نہ خرید سکا تھا۔
’’کیا یہاں کوئی مکان کرائے پر دستاب ہے؟‘‘میں نے استفسار کیا:’’یا زمین کا چھوٹا سا قطعہ ہی قیمتاً مل جائے تو نقد رقم ادا کرکے وہاں خیمہ نصب کرلوں۔‘‘
چوکیدار نے پہلے تو نفی میں جواب دیا لیکن پھر اچانک اٹھ کھڑا ہوا اور مجھے ساتھ لے کر اسٹیشن کی طرف چل دیا۔ کوئی دو فرلانگ آگے ریلوے لائن کے مشرق میں اس نے ایک قطعہ دکھایا جو مجھے پسند آگیا، کیونکہ یہ کھلی فضا میں تھا اور قریب ہی عقب میں شفاف پانی کی ندی تھی۔ جہاں میں نہا دھو سکتا تھا۔ زمین کا مالک رنگا نامی ایک ہندو تھا۔ میں نے اسے مناسب قیمت ادا کر دی اور ریسٹ ہاؤس سے سامان منگوا کر خیمہ جمالیا۔اب میں سرکاری حکام کا دست نگر نہ رہا تھا۔
رات کے ساڑھے دس بجے ہوں گے۔میں لالٹین کی مدھم روشنی میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا کہ علیم خان چوکیدار بھاگتا ہوا خیمے میں داخل ہوا۔ اس کا سانس اکھڑا ہوا تھا۔ چہرے پر خوف اور پریشانی کے آثار جھلک رہے تھے۔اسکے کچھ نہ بتانے کے باوجود میں سب کچھ سمجھ گیا۔ ضرور درندے نے حملہ کیا ہو گا۔ فوراً اپنی رائفل تھامی اور ریسٹ ہاؤس کی راہ لی۔
واقعات کے مطابق چیتے نے اتنقام لینے کے لیے برآمدے میں سوئے ہوئے کتے پر حملہ کیا تھا۔چوکیدار اور اس کے اہل و عیال ڈر کے مارے چیخ تک نہ سکے۔اس طرح چیتا بڑی آسانی سے کتے کو ڈبوچ کر قریبی جنگل میں غائب ہو گیا۔پروگرام کے مطابق ڈی ایف او بھی پہنچا نہیں تھا،چنانچہ مدد کے لیے چوکیدار کو میری طرف آنا پڑا۔
بہتیری تلاش کے باوجود میں چیتے کا سراغ نہ لگا سکا، البتہ کتے کی بچی کھچی لاش مل گئی جسے چوکیدار کی بہن نے بنگلے کے قریب ایک گڑھے میں دفن کر دیا۔
اگلے دن زمین کی رجسٹریشن کرانے کے لیے میں گدل پور گیا۔ واپسی پر اپنے خیمے کے قریب پہنچا تو تیزی سے ایک جیپ گزرتی ہوئی دیکھی ۔اس کی نمبر پلیٹ ’’پرآندھرا فارسٹ ڈیپارٹمنٹ‘‘ سفید رنگ میں لکھا تھا۔ ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ہوئے سانولے رنگ کے آدمی نے مجھ پر خشمگین نگاہ ڈالی۔یقیناً یہ ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر تھا۔
شام کو اس سے ملنے کے لیے میں بنگلے پر گیا۔ اگرچہ سرکاری افسروں سے مجھے نفرت ہے لیکن ہندوستان میں شریفا نہ زندگی بسر کرنے کے لیے لازمی ہے کہ سرکار سے صاحب سلامت برقرار رہے۔
نوجوان ڈی ایف او کالج سے نکلنے کے بعد سیدھا محکمے میں بھرتی ہوا تھا۔ جنگل کے بارے میں اس کی معلومات صفر کے برابر تھیں،اسی لیے شیروں،چیتوں اور دوسرے درندوں سے وہ عام آمی کی طرح خائف نظر آتا تھا۔ علیم،کتے کا سانحہ اس کے علم میں لا چکا تھا لیکن کمال عیاری سے کام لیتے ہوئے اس نے میراذکر تک نہ کیا۔۔۔نہ ہی یہ بتایا کہ گزشتہ روز مجھے بنگلہ خالی کرنا پڑا تھا۔
ڈی ایف او نے داستان طرازی کی حد کر دی۔اس نے معمولی سا واقعہ ایسے لرزہ خیز انداز میں سنایا کہ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو اس پر ہیبت طاری ہو جاتی۔اس کے بیان کے مطابق کتا،علیم کے ساتھ چار پائی پر سویا ہوا تھا کہ چیتے نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے منہ میں دبوچ لیا اور یہ جاوہ جا، علیم دیکھتا رہ گیا۔