آئی ایس آئی کو سیاسی نہ بنایا جائے؟

آئی ایس آئی کو سیاسی نہ بنایا جائے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وطن عزیز ان دِنوں شدید اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے کچھ ہمیں نظر آ رہے ہیں اور کچھ نظر نہیں آ رہے، سنجیدہ حلقے البتہ ان کی نشاندہی ضرور کر رہے ہیں بدقسمتی کہہ لیں یا سیاست دانوں کی ترجیحات موجودہ حکومت ہو یا گزشتہ حکومتیں قومی سلامتی کے اداروں سمیت دیگر ادارے بھی حکمرانوں کی ترجیح نہیں رہے، اداروں کی تباہی بربادی کے نام پر سیاست البتہ تمام سیاسی مذہبی پارٹیاں کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں آج کل حالات تیزی سے بگڑتے نظر آتے ہیں، ہمارا ازلی دشمن بھارت کھلے عام اور ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان درپردہ طاغوتی قوتوں کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔


میاں محمد نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد سویلین بالا دستی کا ڈنکا کچھ زیادہ ہی بجایا جا رہا ہے،مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے چار سال مکمل ہو چکے ہیں، درجنوں اداروں کے آج بھی سربراہ نہیں لگ سکے،اداروں کی تباہی کی نشاندہی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کرتے کرتے اب خاموش ہو گیا ہے البتہ دو ادارے ایسے تھے جو اندرونی اور بیرونی خلفشار سے نہ صرف بچے ہوئے تھے،بلکہ یہی دو ادارے مضبوط تھے اور ہیں جو ہمارے دشمنوں کوایک آنکھ نہیں بھاتے وہ عدلیہ اور پاک فوج کے ادارے ہیں۔ عدلیہ اور فوج کے اداروں کو مضبوط دیکھنا ہر پاکستانی کا خواب ہے آزاد عدلیہ کا نعرہ ہر پارٹی،ہر جماعت لگاتی آئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا پیپلزپارٹی یا کوئی اور جب عدلیہ سے ان کا واسطہ پڑتا ہے۔آزاد عدلیہ کی بجائے ان کی خواہش ہوتی ہے فیصلے ان کی مرضی کے ہوں، ان کے خلاف فیصلہ نہ آئے اس کے لئے اگر انہیں عدلیہ سے ٹکر لینی پڑے، عدلیہ کے وقار کو داؤ پر لگانا پڑے تو دریغ نہیں کیا جاتا، آج کل یہی ہو رہا ہے ایک نشست میں عدلیہ کا احترام دوسری نشست میں عدلیہ کے خلاف باتیں، بات آئی ایس آئی کی کرنے کے لئے قلم اُٹھایا تھا، عدلیہ کی طرف نکل گئی
قارئین جنرل راحیل شریف سے پہلے کا پاکستان یاد کر لیں تو یقیناًسکتے میں آ جائیں گے اتنا ڈراؤنا پاکستان بنا دیا گیا تھا خدا کی پناہ اگر کہہ لیا جائے وطنِ عزیز میں رہنے والے ہر غریب امیر پاکستانی نے دیار غیر میں پناہ ڈھونڈنا شروع کر دی تھی، کاروبار کا دیوالیہ نکل گیا تھا۔ انویسٹر پاکستان کی طرف آنے کا نام نہیں لے رہے تھے، بم دھماکے خون ریزی بازاروں میں نکلنا، مساجد میں جانا محال ہو گیا تھا، نہ گھر محفوظ تھے اور نہ بازار، اِن حالات میں کسی سیاسی جماعت نے قربانیاں نہیں دیں، ضرب عضب ہو یا ردّالفساد قربانیوں کی داستان ہماری پاک فوج نے ہی رقم کی ہے۔
دہشت گردی کے ناسور کو جڑوں سے اکھاڑنے کا مشکل ٹاسک پاک فوج اور اس کے اداروں نے انجام دیا ہے۔


عالم اسلام کے دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے دشمنوں کو اگر سب سے زیادہ تکلیف کسی سے ہے وہ پاک فوج یا آئی ایس آئی سے 70سال سے جمہوری اور آمریت کے ادوار میں دشمن نے ہمیشہ جال پھیلایا ہے کہ کسی طرح آئی ایس آئی کو بدنام کر دیا جائے، عوام میں اس کے لئے نفرت کے بیج بو دیئے جائیں، اس کو سویلین سُپر میسی کے نام پر متنازعہ بنا دیا جائے اللہ کی خصوصی رحمت کی وجہ سے دشمن کی ہر چال ناکام ہوئی دلچسپ امر یہ ہے جمہوریت کے ادوار میں حکمرانوں کی ترجیح ادارے نہیں بنے تو عوام بھی نہ بن سکے یہی وجہ ہے اداروں کے ساتھ ساتھ عوام کی کسمپرسی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد بعض مشیروں نے حالات اِس حد تک بگاڑ دیئے ہیں اداروں کا ٹکراؤ، اداروں کی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ الزام میاں محمد نواز شریف کو دیا جا رہا تھا، مگر اللہ نے ان کو بچا لیا اُن کی جگہ آنے والے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے وزیر دفاع کی طرف سے بھیجی گئی سمری نے تھرتھلی مچا دی ہے، جس کے مطابق آئی ایس آئی میں سب سے بڑے عہدے ڈائریکٹر جنرل(ڈی جی) سویلین کی تعداد ایک سے بڑھا کر چار کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ آئی ایس آئی میں سویلین کا سب سے بڑا عہدہ ڈی جی کا ہوتا ہے جو 21گریڈ کا افسر ہوتا ہے جو آرمی کے میجر جنرل کے برابر ہوتا ہے، پاکستان میں اب تک آئی ایس آئی میں ایک ہی ڈی جی چلا آ رہا ہے جسے اب ایک سے چارکرنے کی منظوری دے دی گئی ہے، فوج کے ایک ڈی جی کے مقابلے میں چار ڈی جی سویلین ہوں گے اِسی طرح وزارتِ دفاع میں ڈپٹی ڈائریکٹر (ڈی ڈی جیز) کی تعداد جو پہلے8ہے اس کو بڑھا کر 15کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ ایڈیشنل ڈی ڈی جیز کی مزید سات آسامیاں پیدا کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ وزیراعظم کے دفتر سے جاری حکم نامے پر وزیراعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد نے دستخط کئے ہیں جسے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میاں اسد ضیا الدین اور وزارتِ خزانہ اور وزارتِ دفاع کو ارسال کئے گئے ہیں، جمہوری حکومت کے اس اقدام پر ابھی تک آئی ایس آئی کے حلقے خاموش ہیں۔ 1948ء میں قائم کی گئی آئی ایس آئی پاکستان کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مضبوط اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے قائم کی گئی تھی، پاک فوج کے اس عظیم ادارے کو پہلے مرحلے میں وزیراعظم کے زیر نگرانی کرنے کے لئے جدوجہد ہوئی جس میں سیاست دان کامیاب ہوئے اب آئی ایس آئی کے نیٹ ورک کو محدود کرنے اور اس میں جمہوری اداروں کے عمل دخل کو بڑھانے کے لئے سویلین کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ ہوا ہے،ہمارے سیاست دان کس کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

مزید :

کالم -