جاوید ہاشمی کیوں ہارے ؟

جاوید ہاشمی کیوں ہارے ؟
جاوید ہاشمی کیوں ہارے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جاوید ہاشمی نے پاکستان کی فوج، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست ٹکر لی تھی،عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو ایکسپوز کیا تھا، سیاسی دھماچوکڑی کے پیچھے کارفرما ہاتھوں کو ننگا کیا تھا!۔۔۔انہوں نے ہی4اکتوبر کوبیان دیا تھا کہ جنرل پاشا لاہور سے بیٹھ کر ان کے خلاف انتخابی مہم چلا رہے ہیں!
جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی سے براہ راست مدد نہیں مانگی تھی، کسی بڑی سیاسی جماعت کو جوائن نہیں کیا تھا، کسی بڑے سیاسی لیڈر کو اپنے گھر میں ویلکم نہیں کیا تھا، اپنے حلقے میں خفیہ جوڑ توڑ کیا ہو تو کیا ہو، لیکن کھلے بندوں کچھ کرتے دکھائی نہیں دیئے تھے، انہوں نے اپنے آپ کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا، انتخابات ہارے تو انہوں نے کہا کہ میرا مقصد پورا ہو گیا کہ پاکستان میں تبدیلی بیلٹ باکس کے ذریعے ہی آ سکتی ہے!
عمران خان کے جلسے نے کام کر دکھایا تھا، اس جلسے میں لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہوئی تھی، اتنی کثیر کہ تین افراد دم گھٹنے اور کئی بھگدڑ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے،لیکن اس کے باوجود کم ٹرن آؤٹ اس بات کی گواہی تو نہیں کہ اگرجلسہ نہ ہوتا تو اتنے لوگ بھی نہ نکلتے اور جاوید ہاشمی کے خلاف سارے ووٹ ہی جنرل پاشا کے فرشتوں کو ڈالنے پڑتے!
جاوید ہاشمی نے جنرل مشرف سے ٹکر لی تھی تو آٹھ سال قید کاٹنا پڑی تھی، جنرل پاشا سے ٹکر لی تو ضمنی انتخاب ہار گئے، انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ایک بہترین سیاسی کارکن ہیں، لیڈر نہیں!۔۔۔وہ تن تنہا کسی طوفان کا رخ نہیں موڑ سکتے، پاکستان میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی حالیہ مہم بھی انہوں نے پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن کے سر پر سر کی تھی، ان کے لئے اکیلے عمران خان کا کنٹینر عمران خان پر الٹانا ممکن نہیں تھا!
جاوید ہاشمی کو لوگوں نے مسترد نہیں کیا اورعامر ڈوگر کومنتخب نہیں کیا!۔۔۔انہوں نے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف تبدیلی کو ووٹ دیا ہے!
جاوید ہاشمی نے جمہوریت کو بچایا، لیکن جمہور جاوید ہاشمی کو جتا نہ سکی ،دس ہزار کا فرق بظاہر کوئی بڑا فرق نہیں ہے، لیکن ملتان کے انتخاب میں جیت ہار ہی اصل حیثیت اختیار کر گئی تھی، ملتانیوں نے جاوید ہاشمی کا باغی پن ،داغی پن میں تبدیل کردیا ،ان کا بانکپن لوٹ لیا،تبدیلی آنہیں رہی ،تبدیلی آگئی ہے!
ایسا لگتا ہے کہ جاوید ہاشمی کی کوئی انتخابی حکمت عملی نہ تھی، انہوں نے اپنے آپ کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا، وہ چاہتے تھے کہ عوام خود فیصلہ کریں، جبکہ اسٹیبلمشنٹ کبھی نہیں سوتی، ایک چال ناکام ہوتی ہے، تو دوسری چل دیتی ہے، جاوید ہاشمی یقینی طور پر یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے ، تبھی تو جنرل پاشا کے خلاف شکائت ریکارڈ پر لا رہے تھے!
سوال یہ ہے کہ جاوید ہاشمی نے جو کچھ کہا تھا کیا وہ غلط تھا؟ جو کچھ کہا اگر اس کا براہ راست فائدہ نواز شریف کو ہوا تھا تو نواز شریف نے کھل کر جاوید ہاشمی کا ساتھ کیوں نہ دیا؟ جاوید ہاشمی کی شکست کو کھل کر ڈسکس کیوں نہیں کیا جا رہا ؟کیا جاوید ہاشمی کی سیاست ختم ہوگئی؟ کیا اس کے لئے کسی پارٹی کو جوائن کرناآسان رہ گیا ہے، کیونکہ اپنی سیاسی پارٹی بنانا تو اس کے لئے ممکن نہیں رہا، جاوید ہاشمی کا ماڈل پاکستان کی سیاست میں قابل مطالعہ ماڈل ہے!
جاوید ہاشمی کی شکست نے اسٹیبلشمنٹ کی حامی سیاسی جماعتوں کو مضبوط کیا ہے، عوام کے حق حکمرانی کو کمزور کیا ہے، سیاست میں سچ بولنے کے فروغ کو مسترد کیا ہے، پاشا فورس کو مضبوط کیا ہے، یہ شکست جمہوریت کی بقا پر سوالیہ نشان ہے، یہ شکست پاکستان کی پارلیمنٹ کی خود مختاری کے لئے چیلنج ہے، یہ شکست لوٹوں کی سیاست کا فروغ ہے!
وقت آ گیا ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنا کھویا ہوا وقار کھوجیں، جس طرح سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ڈٹ کر جمہوریت کا تحفظ کیا تھا ، اسی جذبے کے ساتھ جاوید ہاشمی کو خراج تحسین پیش کریں، جاوید ہاشمی ایسے جوہر نایاب کو ضائع مت ہونے دیں، پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے خوبصورت بات کہی ہے کہ جب بھٹو کی مخالفت ہو رہی تھی تو ہر کوئی اس کی پھانسی کا مطالبہ کر رہا تھا، کوئی اسے کوہالہ کے پل پر پھانسی دینا چاہتا تھا تو کوئی اسے فیصل چوک میں لٹکانا چاہتا تھا، لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کا بڑا لیڈر تھا، ان کا عدالتی قتل ہوا تھا، اسی طرح آج جاوید ہاشمی کے ساتھ ہوا ہے ، اس کی سمجھ تب آئے گی، جب تاریخ سارے جھوٹوں میں سے سچ کو نتار کر اوپر لے آئے گی، لہٰذا یہ جاننے کے لئے کہ جاوید ہاشمی کیوں ہاراتاریخ کے فیصلے کا انتظار کیجئے!

مزید :

کالم -